Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. School Se Jail Tak Pipeline

School Se Jail Tak Pipeline

اسکول سے جیل تک پائپ لائن

پہلی مثال:

یہ ایک اسکول کا منظر ہے، ایک کلاس میں اوسط 30 سے 40 بچے "ٹھونسے" ہوئے ہیں۔ لیکچر کے دوران بھی بچوں کی کھینچا تانی، ہنسی مذاق، کھیل اور باتیں جاری و ساری ہیں۔ ایک بچہ بطور سزا کلاس کے باہر ہاتھ اٹھا کر کھڑا ہے اور ہرآتے جاتے دوسری کلاس کے بچوں سے چھیڑ خوانی بھی کر رہا ہے، آہستہ آواز میں آوازیں بھی کس رہا ہے۔ وہ جس مقصد سے اسکول گیا ہے اس کے علاوہ سب کچھ کر رہا ہے۔ اسی اثنا میں چند طالب علموں کا گروپ آپس میں الجھ پڑتا ہے اور یہ الجھاؤ انہیں استاد کی نگرانی میں اسکول کے پرنسپل تک لے جاتا ہے۔ وہاں تمام گواہوں کو سننے اور سمجھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آدھوں کو مرغا بنا دیا جائے اور بقایا کے ہاتھ چھڑی سے لال کیے جائیں اور یہ سزا سب کے سامنے میدان میں دی جائے کہ دیگر کے لیے عبرت کا سامان بنے۔ دوسری طرف کلاس میں جن بچوں نے ہوم ورک نہیں کیا انھیں بھی تمام وقت کھڑا رکھا جائے۔ گزشتہ ٹیسٹ میں ناکام ہونے والے بچوں کو ایک ٹانگ پر کھڑا رہنے کی سزا تفویض کی گئی۔ جب کہ شور شرابہ کرنے والے بچوں کو حسب توفیق چانٹوں، تھپڑوں، کلاس سے نکلنے، بریک بند ہونے یا پیرنٹس کو بلوانے جیسی سزاؤں سے نوازا گیا۔

دوسری مثال:

یہ ایک جیل کا منظر ہے۔ تین انسانوں کی گنجائش والے سیل میں 15 سے زائد قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔ قید کے دوران کوئی مثبت سرگرمی نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے جیل میں جھگڑے عام۔ قید ہونے والے کو مزید سزاؤں سے عادی مجرم بنایا جاتا ہے۔ جیل میں لڑائی جھگڑا ہو جائے یا کسی افسر کی حکم عدولی، سزا پر مزید سزا کا پانی چڑھایا جاتا ہے۔ کسی بھی آسائش کا تصور محال ہاں البتہ سرکاری قیدی اس سے مستثنی ہوتے ہیں۔ بنیادی ضروریات جیسے گھر کے کسی فرد سے بات یا ملاقات کرنے کے عوض اہلکاروں کی مٹھی گرم کرنی پڑتی ہے۔ کسی بھی طرح کا سامان جس میں کپڑے جوتے کھانا وغیرہ شامل ہیں، باہر سے اسی صورت اندر جا سکتا ہے جب قیدی کے پاس دینے کو کچھ مال و زر ہو۔ سخت ترین سزاؤں میں سے ایک الگ تھلگ کال کوٹھری میں بند کر دیا جانا ہے جس میں روشنی کا پہنچنا بھی محال۔ یہاں قیدی نفسیاتی مریض بن کر باہر نکلتا ہے۔

پہلی حقیقت:

اسکول سے بچوں کے باغی ہونے یا اسے پسند نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ اسکولوں کی زیرو ٹالرنس پالیسی ہوتی ہے۔ اس پالیسی کے تحت بہت سے ضوابط توڑنے پر بچوں کو سخت ترین سزا اسکول سے نکالنے کی صورت میں دی جاتی ہے۔ کھمبیوں کی طرح اگے اسکولوں میں صاف پانی کا تصور محال، صفائی ناقص، طبی سہولیات ناپید، غیر تربیت یافتہ اسٹاف اور باتھ روم کی حالت ایسی کہ دیکھ کر ابکائی آجائے۔ اسکول میں یونیفارم کی پابندی، وقت کی پابندی، وقت پر کام مکمل کرنے کی پابندی، فیس وقت پر جمع کرانے کی سخت پابندی اور ایسا نہ کر سکنے کی صورت میں جرمانہ، کلاس روم میں باتیں کرنے پر پابندی، دوران لیکچر ٹیچر سے سوال کرنے کی جسارت کی پابندی، بریک ٹائم میں اسکول کی کینٹین سے ہی اشیاء لینے کی پابندی، اسکول یونیفارم اور کورس اسکول کی مقرر کردہ دکانوں سے لینے کی پابندی، آج کلر ڈے، کل مینگو ڈے، پھر ایپل ڈے، پھر آئس کریم ڈے، چاکلیٹ ڈے، سٹوڈنٹس ڈے، اور ہر ڈے کا الگ تھیم، الگ یونیفارم اور لوازمات، نہ ہونے کی صورت میں سزا! الغرض اسکول پابندیوں کا گڑھ ہے، یعنی پابندستان۔۔ ذرا اسکول اور جیل کے مشترک پہلو دیکھیں۔ یونیفارم، چار دیواری کی قید، لاتعداد پابندیاں اور سزائیں! پاکستان میں اسکول نہ جانے والے ڈھائی کروڑ بچے یقینا تعلیم کے مستحق ہیں اور بنیادی تعلیم ان کا حق، مگر ایک بہت بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جو بچے سکول جاتے ہیں مگر اسکول اور تعلیمی نظام سے متنفر پائے جاتے ہیں۔ ہمارے اسکول سختیوں اور پابندیوں کی ایک جیل ہیں، جیل کی طرح چار دیواری میں بند، بچوں کو سوچنے، سمجھنے، بولنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے میں پابند بناتے یہ اسکول تعلیم کے علاوہ سب کچھ دے رہے ہیں۔

دوسری حقیقت:

کسی جیل میں کھانے پینے کے نام پر جو کھلایا جاتا ہے اسے کھانا کہنا ایک مشکل امر اور جس طرح گنجائش سے زیادہ قیدی ایک سیل میں رکھے جاتے ہیں یہ بذات خود ایک بہت بڑی سزا ہے۔ ایک پاکستانی سروے کے مطابق پاکستانی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنے کا اوسط سو فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ نہانے اور حاجت روائی کے لیے سیل میں ہی بندوبست کیا جاتا ہے۔ انسانی تہذیب، تقدس اور اخلاقیات جیل پہنچ کر سسک سسک کر مرجاتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ قیدی ایک سیل میں ہونے اور صفائی کا ناقص انتظام ہونے کی وجہ سے بیماریاں عام، یہ بیماریاں ایک قیدی سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے اور پھر پورے سیل کو جکڑ لیتی ہیں۔ اس کے بعد سیل سے نکل کر جیل میں مقید دیگر قیدی ان بیماریوں کا آسان شکار بنتے ہیں۔ قیدیوں کے علاج کا سوچنا بھی گناہ کے مترادف۔

اسکول سے جیل پائپ لائن ایک ایسا عمل ہے جس میں طلباء کو اسکول میں ہی سزاؤں کے نظام سے بالواسطہ متعارف کرایا جاتا ہے۔ بہت سارے نوجوان طالب علموں کے طور پر ہی ان مسائل سے نمٹنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ انہیں اسکول میں معطل کر دیا جاتا ہے، اسکول سے نکال دیا جاتا ہے یا معمولی خلاف ورزیوں پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔

اسکول سے جیل پائپ لائن طالب علموں کو ان کے تعلیمی سفر کے دوران سخت سزائیں دینے کے عمل کا نام ہے جس کے نتیجے میں وہ چھوٹی عمر میں فوجداری نظام انصاف سے متعارف ہو جاتے ہیں۔ ایک تحقیق اور سروے کے مطابق بچے 18 سال کی عمر ہونے تک ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے ذریعے کم و بیش دو لاکھ تشددآمیز مناظر جس میں قتل بھی شامل ہے، دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ ان تشدد آمیز مناظر کا بچوں کی نفسیات پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ اس سے ان میں تشدد کا رویہ پروان چڑھتا ہے اور تشدد نارمل لگنے لگتا ہے۔ پب جی ٹائپ کے گیمز کا پسند کیا جانا اسی رویے کی ایک جھلک ہے۔

ایسا اسکول سسٹم جس کی پابندیاں، سزائیں اور ماحول جیل جیسے ہی لگنے لگیں، ایسے ماحول میں بچے سکول سے جیل تک کا سفر ہی طے کریں گے۔ ان میں تشدد ایڈونچر بن جائے گا۔ کیا ہمارے سکول دنیا کے بہترین تعلیمی نظام قرار دیے جانے والے فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی نقل بھی نہیں کر سکتے۔ فل لینڈ کے تعلیمی نظام کی بہت ساری خصوصیات اپنانا محض ایک فیصلے کی مار ہیں۔ وہاں اسکول کا اغاز صبح نو بجے ہوتا ہے، بریک ٹائم زیادہ اور پڑھائی کا دورانیہ کم، یونیفارم کی قید سے آزاد بچے امتحان جیسی مسلسل چلنے والی ورزش سے بھی دور رہتے ہیں۔

جس طرح ہمارا تعلیمی نظام انگریز کے بنائے ہوئے سسٹم سے چمٹا ہوا ہے جس میں گرمیوں کی چھٹیاں ہر حال میں جون جولائی میں ہونی ہیں، چاہے مئی کے مہینے میں گرمی سے ہمارے شہر تپتے ریگستان بن جاتے ہوں۔ گرمیوں کی سالانہ چھٹیوں کہ اس پروگرام کو بدلنے کے لیے محض ایک فیصلہ کافی ہے۔ اسی طرح تعلیمی نظام اور اسکولنگ سسٹم کو محض چند فیصلوں سے ایک ایسی جگہ بنایا جا سکتا ہے جہاں پابندیاں اور سزائیں نہ ہوں۔ اسکول اور جیل کے ماحول میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے ورنہ پاگل خانہ بھی ایسی ہی جگہ ہے جہاں رہنے والوں کو یونیفارم پہنا کر چار دیواری میں قید کر کہ پابندیوں اور زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور پاگل خانہ اسکول سے جیل تک کی پائپ لائن کا تیسرا اور آخری سرا ہے۔

Check Also

Bartania Mama Bane Na America Thekedar

By Najam Wali Khan