Pakistan Zero Hai
پاکستان زیرو ہے
زیرو ایک جادوئی عدد ہے۔ بظاہر یہ "کچھ نہیں" مگر پھر بھی بہت کچھ ہے۔ صفر یا زیرو کی اہمیت و فضائل پر بات کرنے سے پہلے ذرا اس کی تاریخ جان لیں۔ سائفر عربی صفر (یعنی زیرو) سے آیا ہے، جس کا مطلب ہے "کچھ نہیں" یا "صفر"۔ عربی ہندسوں کے نظام کے ساتھ یہ لفظ یورپ میں آیا۔ جیسے ہی ابتدائی کوڈز نے لفظ کے معنی کو چھپانے کے لیے حروف کے لیے ہندسوں کی جگہ لی، کوڈز کو سائفرز کے نام سے جانا جانے لگا۔ اگر آپ سائفر کریک کرتے ہیں، تو آپ کوڈ کو توڑ دیتے ہیں اور پیغام کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس "صفر" کے معنی سے، سائفر ایک ایسے شخص کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جس کا دنیا میں کوئی اثر یا اہمیت نہیں ہے۔
قدیم متن صفر کی اصلیت کے نئے سراغوں کو ظاہر کرتا ہے۔ نئی کاربن ڈیٹنگ ریاضی کی تاریخ کے اہم ترین لمحات میں سے ایک کے بارے میں بصیرت فراہم کرتی ہے۔ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ریاضیاتی کامیابیوں میں سے ایک کا تعلق "کچھ بھی نہیں" یا جسے ہم زیرو اور صفر کے نام سے جانتے ہیں، سے ہے۔
یونیورسٹی آف آکسفورڈ کی بوڈلیان لائبریری کے محققین نے حال ہی میں ایک قدیم ہندوستانی متن پر کاربن ڈیٹنگ کی جسے بکشالی مخطوطہ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے دیکھا کہ مخطوطہ کے کچھ صفحات تیسری یا چوتھی صدی کے ہیں، اس نئی تحقیق نے صفر یا زیرو کی تاریخ کو مزید پیچھے دھکیل دیا ہے جو بعد ازاں صفر کی علامت بن جائے گا، 0، جسے ہم آج استعمال کرتے ہیں۔ مخطوطہ سنسکرت ہندسوں کا ایک سلسلہ دکھاتا ہے۔ اس میں صفر کو ایک چھوٹے نقطے سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
ہندوستان کے ماہر فلکیات اور ریاضی دان برہما گپتا نے ریاضی کی جمع تفریق میں صفر کا استعمال کیا۔ آریہ بھٹہ نے پانچویں صدی میں صفر کو متعارف کرایا اور برہما گپتا نے تقریباً 628 قبل مسیح میں حساب میں صفر کو متعارف کرایا۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آریہ بھٹہ نے صفر کی ایجاد کی۔
بظاہر صفر یا زیرو کسی کام کا نہیں، حال ہی میں پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ سے باہر ہوگئی ہے اور کرکٹ میں زیرو رن بنانے والا کھلاڑی تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کرکٹ میں ڈک بہت برا سمجھا جاتا ہے کیونکہ صفر یا زیرو کی کوئی افادیت نہیں ہے۔ کسی بھی کھیل میں یا زندگی کے شعبے میں صفر اس وقت تک نظر انداز ہوتا ہے جب تک یہ پوائنٹ کے بعد استعمال ہو، مگر جب یہی صفر کسی دوسرے ہندسے کے ساتھ جڑ جاتا ہے تو اس کی اہمیت اور قدر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ بھلا کون نہیں جانتا ایک (1) کے آگے صفر بڑھاتے رہنے سے ایک کی قدر کس قدر بڑھ جاتی ہے۔
پاکستان جغرافیائی اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے، یہاں سال کے چار پانچ موسم ہیں، دریا ہیں، پہاڑ ہیں، وسیع و عریض ریگستان اور کھیت کھلیان ہیں، بڑھتی ہوئی آبادی کی دولت گیس اور کوئلے کے ذخائر کے علاوہ ہے۔ مگر ان سب کے باوجود پاکستان ترقی کے سفر میں صفر ہے۔ پاکستان کے پڑوسی ممالک کا ہی تجزیہ کرلیں، دو طرف ایشیائی سپر پاورز، ایک طرف پابندیوں میں جکڑا ہوا ایران بھی ہم سے آگے اور ایک طرف افغانستان خرگوش کی چال چلتا ہوا ترقی کی راہ پر گامزن ہے جس کے لاکھوں مہاجرین اسی زیرو میں رہ کر ہیرو بنتے چلے گئے اور یہاں کاروبار سیٹ کیا اور ڈالر اپنے ملک درآمد کرتے چلے گئے۔
پاکستان کا زیرو دوسرے ملکوں کے ہندسوں کے ساتھ جڑ کر ان کی قدر میں اضافے کا باعث بنتا رہا ہے مگر اپنے لیے وہ زیرو کا زیرو ہی ہے۔ 80 اور 90 کی دہائی میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان کی مدد سے سوویت یونین کے بخیے ادھیڑ دیے تھے، اس وقت اسی پاکستان کا زیرو دیگر ممالک کے کام آیا تھا مگر اپنی راہ میں کانٹے بھی ہم نے خود بچھائے۔ ہمالیہ سے اونچی دوستی والا چین ہماری آزادی کے بعد ہم سے بھی گیا گزرا تھا۔
یہ درست ہے کہ وہ اپنی انتھک محنت، بہترین حکمت عملی اور مضبوط ارادے سے دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت بنے ہیں مگر زیرو پاکستان کا بھی استعمال ہوا ہے اور آج بھی ہورہا ہے۔ ایک وقت تھا جب چین کے مسلمان پاکستانی پاسپورٹ اور ویزے پر حج کرنے جاتے تھے۔ دوسروں کو ہیرو بنانے والا پاکستان آج بھی زیرو ہے۔ نیشنل لائبریری آف میڈیسن کی ایک رپورٹ کے مطابق 1971 سے 2022 کے درمیان صرف میڈیکل کے شعبے سے وابستہ 60 لاکھ افراد پاکستان چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں غیر ملکیوں کا علاج کرنے ایسے گئے کہ پھر لوٹ کرنا آئے اور وہیں مریضوں کے ساتھ سیٹل ہو گئے، ان 60 لاکھ میں سے ڈھائی لاکھ افراد انتہائی اعلی ذہن تھے۔ یہ تو صرف میڈیکل کے شعبے سے وابستہ افراد کا ڈیٹا ہے۔
2023 کے پہلے چھ مہینوں میں تقریبا آٹھ لاکھ لوگ پاکستان کے زیرو کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا بسے۔ یہ کسی بھی ایک سال میں ہجرت کر جانے والے سب سے زیادہ زیرو ہیں۔ یورپ میں تقریبا 22 لاکھ پاکستانی بستے ہیں جو وہاں کی معیشت کے پہیے کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں کم و بیش چھ لاکھ پاکستانی ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ کسی ملک کی ترقی میں پروفیشنل اور ہنر مند افراد ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستانی کانوں سے نکلے ہیرے آج دنیا کے سر کے تاج بنے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کہ تخت کو مضبوط تر بنانے میں مصروف عمل ہیں جبکہ اپنے ملک کے درو دیوار خستہ، بنیادیں کمزور، نظام لاغر اورمعیشت سٹریچر پر آخری سانسیں لے رہی ہے۔
آج آپ کسی نوجوان سے پوچھیں، تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس کی اولین ترجیح ملک سے فرار ہوگا۔ پاکستان آرمی کے ڈیڑھ لاکھ جوانوں نے اقوام متحدہ کے 41 مشنز میں 23 ملکوں میں امن کی خاطر اپنی خدمات سرانجام دی ہیں مگر افسوس ان کے اپنے وطن پاکستان میں اب تک امن ایک نایاب شے ہے۔ دنیا کے خزانے بھرنے والا پاکستان 23 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ بن کر رہ گیا ہے جہاں کی اشرافیہ عوام کو زیرو سے بڑھ کر اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ انہیں صرف ان کے ووٹ سے مطلب ہے جس کے بعد یہ زیرو کسی کام کا نہیں۔ ہمارے زیرو ملک سے نکلتے ہی ہیرو بن جاتے ہیں مگر یہ اپنے ملک کے زیرو کو کوئی کارگر ہندسہ بنانے سے قاصر ہیں۔ ہم اسی زیرو کے زیر اثر ریزہ ریزہ ہوتے چلے جا رہے ہیں اسی لیے دنیا ہمیں سیریس نہیں لیتی۔
پاکستان کو اپنی اہمیت کا مکمل ادراک ہے اور یہاں کے لوگوں کو اپنے ٹیلنٹ پر بھروسہ ہے۔ ہمیں اپنے اسی جادوگر زیرو کو کسی ایسے ہندسے کے ساتھ جوڑنا ہوگا جس سے پاکستان کی قدر و قیمت میں بھی اضافہ ہو اور یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے۔ ہمیں اپنا زیرو بہترین انداز میں"مارکیٹ" کرنا ہوگا بصورت دیگر زیرو سے پیچھے منفی کی تاریک دنیا ہے۔