Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Mawazna

Mawazna

موازنہ

آپ نے اس کتے کی کہانی بچپن میں ضرور پڑھی ہو گی جس کے منہ میں گوشت کا ٹکڑا تھا۔ اسے پیاس لگی اور وہ ایک تالاب پر پہنچا اور پھر اس نے پانی میں اپنا عکس دیکھا، اس نے دیکھا کہ ایک اور اس کے جیسا کتا بھی گوشت کا ٹکڑا منہ میں تھامے اسے تکتا ہے۔ اسے اپنے حصّے کا رزق مل چکا تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اسے کھاتا اور شکر بجا لاتا مگر وہ موازنہ کی بیماری میں مبتلا ہو کر لالچ کا شکار ہو گیا۔

اور اس نے اپنا منہ کھولا اور دوسرے کتے کے گوشت کے ٹکڑے کو اپنے منہ میں لینے کی سعی کی۔ اسی اثناء میں اس کے منہ میں جو گوشت تھا وہ گرا اور تالاب کے پانی میں غائب ہو گیا۔ اس کہانی میں بظاہر لالچ کی صفت کا ذکر ہے مگر درحقیقت لالچ موازنے یا مطابقت کی بنا پر پیدا ہوئی۔ یہ موازنہ کرنا ہی ہے جس سے انسان لالچ، حسد، تکبر جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو کر اپنا نقصان کرتا ہے۔

1954 میں ماہر نفسیات ڈاکٹر لیون فیسٹینگر نے پہلی بار باقاعدہ سماجی موازنہ یا مطابقت پر تحقیق کی اور نتیجہ اخذ کیا کہ انسان فطری طور پر اپنے سماجی رتبے اور نظریات کا موازنہ کرتا ہے کیوں کہ اسے ایک معیار درکار ہوتا ہے۔ مگر یہ موازنہ اسے خوشی سے دور کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے موازنے سے متعلق کیا خوب کہا ہے "comparison is the thief of joy"۔

تحقیق سے قطع نظر، دوسروں سے اپنا موازنہ خواہ کسی بھی حوالے سے ہو، ابد سے جاری ہے اور ازل تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ شیطان نے اپنے برتر ہونے کا موازنہ حضرت آدمؑ سے کیا اور تکبّر نے اسے دبوچ لیا۔ ابوجہل اور دیگر کفّار نے اللّه کے آخری نبی ﷺ سے اپنا بشری اور قبائلی موازنہ کیا کہ ہم ٹھہرے عرب کے سردار اور ان کی سوچ کے مطابق رسالت پر یا نبوت پر ایک سردار کا زیادہ حق ہے لہٰذا وہ رسالت کا انکار کر کے شرک میں مبتلا ہو گئے۔

ان حقائق سے ایک بات سامنے آتی ہے کہ موازنہ کرنے سے انسان کسی نہ کسی برائی کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ موازنہ کرنا بذات خود غلط نہیں ہے مگر اس کے نتیجے میں انسان کسی نہ کسی ایسی برائی، مصیبت یا آفت میں گھر جاتا ہے جس سے اس کا ذاتی، معاشی، سماجی اور پیشہ ورانہ نقصان ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی ذات کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں دوسروں کے ساتھ موازنہ ضرور کرتا ہے کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے کہ انسان اپنے اردگرد اور گرد و پیش کے ماحول میں رہنے والے انسانوں سے برتر اور بہتر زندگی گزارنا چاہتا ہے اسی کو سماجی موازنہ یا مطابقت کہتے ہیں۔

وہ اپنی نوکری، صلاحیتوں، نظریات، حتیٰ کہ رشتوں تک میں دوسروں سے موازنہ کرتا ہے مثلاََ میرا بیٹا یا بیٹی دوسرے بچوں کی طرح زیادہ نمبر کیوں نہیں لیتے، میرے بچے کی لکھائی کیوں اچھی نہیں یا میرے بچے کی انگریزی کیوں کمزور ہے، میری زوجہ کو یہ کھانے کیوں نہیں بنانے آتے، یا میرے شوہر کے پاس ایسی نوکری کیوں نہیں، ویسی گاڑی کیوں نہیں ہے وغیرہ وغیرہ؟

اپنی زوجہ یا اپنے شوہر میں ان خامیوں کو تلاش مت کریں جو دوسروں میں ہیں بلکہ یہ دیکھیں کہ ان میں کون سی خوبیاں اور ہنر ہیں جو دوسروں میں نہیں۔ زندگی کو آسان بنائیں اور دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔ ہم اپنی ذات کے لیے وکیل اور دوسروں کے لئے جج کا کردار کب تک ادا کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بچے اور ہر انسان میں کوئی نہ کوئی منفرد صلاحیت ضرور رکھی ہے۔

اگر بچہ انگریزی میں اچھا نہیں تو ہو سکتا ہے وہ اچھا کھلاڑی ہو یا وہ سائنس میں دوسروں سے بہت بہتر ہو۔ اور یہ بھی تو دیکھیں کہ وہ نارمل ہے اگر خدانخواستہ وہ لکھنا پڑھنا نہ جانتا یا اس کی بینائی نہ ہوتی۔ پاکستان میں تقریباََ ڈھائی کروڑ بچے اسکول ہی نہیں جا سکتے ذرا ان سے بھی تو موازنہ کریں۔ perfection کی تلاش ایک سراب ہے جسے دنیا میں حاصل کرنا ممکن نہیں۔

یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ موازنے کی دو اہم اقسام ہیں ایک اپنے سے بہتر سماجی حیثیت والوں سے موازنہ مثلاََ جو آپ سے زیادہ اچھی نوکری رکھتا ہے، آپ سے زیادہ کامیاب ہے، آپ سے زیادہ اچھی سماجی اور معاشی حیثیت رکھتا ہے اور دوسری قسم اپنے سے نچلے طبقے کے ساتھ موازنہ یا مطابقت۔ اس بیماری سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ اپنے سے کم تر حیثیت کے حامل افراد کے ساتھ موازنہ کیا جائے مگر ایسی صورتحال میں انسان صبر و شکر بجا لائے اور کسی کو اپنے سے کمتر مخلوق نہ جانے بصورت دیگر وہ تکبر اور گھمنڈ میں مبتلا ہو جائے گا۔

دنیا میں سات ارب سے زیادہ انسان ہیں۔ ہمارے ارد گرد یقیناََ ہم سے بہتر اور ہم سے کم تر لوگ موجود ہیں۔ یہ معاملہ ایک نظام زندگی کے تحت چل رہا ہے۔ انسان نہ تو سب سے بہتر ہو سکتا ہے نہ ہی سب سے کم تر۔ اپنی نوکری، اپنی تنخواہ، اپنی کامیابیوں کا اپنے ماضی سے موازنہ کریں اگر وہ ماضی کے مقابلے میں بہتر ہیں تو ربّ کا شکر بجا لائیں۔

ذرا اندازہ کریں بنیادی سہولیات ہمیں قدرت کی طرف سے مفت میں حاصل ہیں۔ جی آکسیجن، ہوا، پانی رشتے ناطے، دوست احباب، محنت کرنے کا جذبہ، ایک تو نہ دل اور دماغ، صحت، وقت غرض یہ کہ وہ سہولیات ہیں جو ہمیں بن مانگے ہی مل گئیں۔ اگر ایک انسان روزانہ اپنی نعمتوں اور حاصل آسائشوں کو شمار کرنا شروع کرے اس کی زندگی تمام ہو جائے مگر وہ ان کا شمار نہیں کر سکتا۔

Check Also

Qasoor To Hamara Hai?

By Javed Ayaz Khan