Main Hoon Pakistan
میں ہوں پاکستان
ایک سائنسدان کم مصنف کی عادت تھی کہ وہ صبح سویرے بیدار ہو کر ساحل سمندر پر چہل قدمی کیا کرتا تھا۔ اس کا یہ ماننا تھا کہ تخلیقی کام کرنے کے لئے کھلی فضا ضروری ہے تاکہ آپ کا دماغ وسیع و عریض اور لامحدود آسمانی چھتری کے نیچے شاہکار تخلیق کر سکے۔ اس سے آپ کے سوچنے کا کینوس بہت بڑھ جائے گا۔ اس کے برعکس لکھتے وقت آپ خود کو کمرے میں بند کر لیں تاکہ ذہن منتشر نہ ہو اور یکسوئی سے لکھنے پر فوکس کر سکیں۔
ایک دن اسی طرح چہل قدمی کرتے ہوئے اس مصنف نے یہ دیکھا کہ ساحل سمندر پر ہزاروں کی تعداد میں اسٹار فش بکھری پڑی ہیں۔ سنہری کرنیں جب اسٹار فش کے وجود سے ٹکراتیں تو ایک نیا رنگ تخلیق پاتا۔ مصنف اسی نظارے میں گم تھا کہ اس کی نظر ایک نوجوان لڑکے پر پڑی جو دور کھڑا ساحل پر کچھ اٹھاتا اور سمندر میں پھینک دیتا۔ مصنف جب اس لڑکے کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ نوجوان ایک ایک اسٹار فش اٹھاتا اور انہیں زندہ رہنے کا ایک اور موقع دے دیتا۔
مصنف نے حیران ہوتے ہوئے اس لڑکے سے پوچھا۔ "تم کون ہو اور کیا یہ تمہارا کام اور تمہاری ذمہ داری ہے، اور تمہارے اس عمل سے کیا فرق پڑے گا؟ یہ اسٹار فش تو یہاں ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں زندگی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ ان سب کو سمندر کے حوالے کرنا ممکن نہیں"۔ لڑکے نے اس مصنف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک اسٹار فش اٹھائی اور اسے سمندر کی موجوں کے حوالے کر دیا۔
"اس لڑکے نے کہا، میرا نام برہان ہے اور میں ایک عام سا لڑکا ہوں۔ کسی کی زندگی میں ایک چھوٹے سے عمل سے اگر ایک بڑا فرق پیدا ہوتا ہے تو وہ کام ہم سب کو کرنا چاہیے۔ پاکستان بدل جائے گا"۔ پھر اس نے ایک اور اسٹار فش اٹھائی اور کہا، "کم از کم اس کی زندگی میں تو فرق پڑے گا اور یہ تو بچ جائے گی"۔ اسٹار فش کی یہ فرضی کہانی 1969 میں Loren Eiseley نے اپنی کتاب the star thrower میں تحریر کی ہے۔
اگست کا مہینہ ہے اور پاکستانیت ہم پر غالب ہے۔ اس مہینے ہم اپنی آزادی کا جشن مناتے ہیں۔ پرچم لگاتے ہیں۔ ترانے گاتے ہیں۔ وطن سے محبت کا اظہار کرتے ہیں اور کیوں نہ کریں کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر 14 اگست انیس سو سینتالیس کو ایک آزاد ریاست کا تحفہ عطا کر کے ایک عظیم احسان کیا۔ گزشتہ کچھ سالوں سے کچھ ایسے میسجز بھی نظروں سے گزرے جن میں یہ سوال کیا گیا تھا کہ ہم نے آزاد ہو کر آخر کیا پا لیا؟
آج بھی ہم آئی ایم ایف کے غلام ہیں۔ پاکستان ایک مسائلستان ہے وغیرہ وغیرہ۔ جب ہم کوئی منفی بات سوچتے ہیں اور اس کا دوسروں سے اظہار کرتے ہیں تو وہ سوچ دو سے چار، چار سے آٹھ اور آٹھ سے سولہ لوگوں کی سوچ بن جاتی ہے اور مزید ضرب ہو کر قوم کا نظریہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح مثبت سوچ بھی پروان چڑھ کر قوم کا نظریہ بن سکتی ہے۔ ہم روزمرہ زندگی میں جو گفتگو کریں گے، جن باتوں کی تکرار زیادہ کریں گے وہ ہمارا مجموعی نظریہ بن جائیں گی۔
چونکہ آج کل گلے شکوے، مسائل کا رونا اور وطن میں کچھ بھی ٹھیک نہیں جیسی باتوں کا راگ الاپا جاتا ہے، شہر شہر، گاؤں گاؤں، آفس، کارخانوں، چوراہوں، گلی محلوں حتیٰ کہ مساجد تک میں سیاسی، مذہبی، معاشی اور سماجی مسائل کا ہی ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ لہٰذا قوم کی مجموعی سوچ آپ کے سامنے ہے۔ یقیناََ مسائل ہیں مگر صرف مسائل کا بار بار اظہار کرنے سے وہ حل نہ ہوں گے۔ اور یہ مسائل ہم انسانوں کے ہی پیدا کردہ ہیں۔ بلیم گیم سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
وطن عزیز نے آزاد ہو کر ہمیں سب سے بڑا تحفہ جو عطا کر دیا وہ آزادی اور شناخت ہے۔ یہ دو نعمتیں اتنی بڑی ہیں کہ ان کے آگے باقی سب کچھ کم تر محسوس ہوتا ہے۔ آزادی وہ پھل ہے جس کا مزہ ہم روز چکھتے ہیں۔ ذرا کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کے بارے میں سوچئے۔ وہاں لوگ بنیادی روزمرہ زندگی کے کام سر انجام دینے کے بھی قابل نہیں۔ وجہ آزادی جیسی نعمت کا نہ ہونا ہے۔ جب کہ ہم پر یہ نعمت روزانہ برس رہی ہے۔
ہماری گلیاں، ہماری سڑکیں، ہمارے شہر، ہمارے گاؤں آزاد ہیں، ہمیں ہر کام کرنے کی آزادی ہے، اپنے نظریات پر عمل کرنے، انکا پرچار کرنے میں آزاد ہیں۔ وطن سے محبت صرف عظیم کام سر انجام دینے کا تقاضہ نہیں کرتی بلکہ ہر وہ چھوٹا کام جس سے دنیا میں پاکستان اور پاکستانی کا مثبت پہلو سامنے آئے، قابل تحسین اور قابل تقلید ہے۔ ہر شخص اس مصنف اور سائنسدان کی طرح ایک بڑی تبدیلی نہیں لا سکتا مگر اس نوجوان برہان کی طرح بہت ساری چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ضرور لا سکتا ہے۔
یہ تبدیلیاں ضرب پا کر قومی سوچ میں ڈھل سکتی ہیں۔ اسی کو وطن کا امیج کہتے ہیں۔ مثلاََ آپ کبھی یہ سوچ کر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہ کریں کہ میرے اکیلے کے قانون پر چلنے سے کیا ہو گا بلکہ یہ سوچیں کہ اس سے آپ کی اور آپ کے ارد گرد موجود لوگوں کی جان بچ سکتی ہے۔ اگر آپ سرخ بتی توڑنے کے عادی ہیں اور روزانہ بچ جاتے ہیں۔ قانون والے سے بھی اور کسی جان لیوا حادثے سے بھی۔
تو یاد رکھیں ایک دن یہ قانون شکنی آپ سے تاوان وصول کرے گی۔ اس دن صرف آپ کی زندگی میں تبدیلی آئے گی اور وہ تبدیلی یقیناََ مثبت نہیں ہو گی۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں 2020 میں 28 ہزار 120 لوگ ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے اور پاکستان دنیا میں ٹریفک حادثات میں 95 نمبر پر ہے۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
حال ہی میں ایک پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم نے کامن ویلتھ گیمز میں نہ صرف سونے کا تمغہ جیتا بلکہ نیا عالمی ریکارڈ بھی بنایا اور پاکستان کا نام پوری دنیا میں سرخرو کیا۔ ارشد ندیم کی اس کامیابی کے پیچھے برسوں کی انتھک جدوجہد، اپنے کھیل سے لگن اور جنون کا ہاتھ ہے۔ ارشد ندیم کی جیت پر جہاں حکومت کی طرف سے بہت سے انعامات کا اعلان کیا گیا ہے وہیں ارشد ندیم کے آبائی علاقے میں ایک اسٹیڈیم کی تعمیر کا بھی اعلان سامنے آیا ہے۔ ایک شخص کا انفرادی فعل یقیناََ کئی لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کا باعث بن سکتا ہے۔ بس یہ نہ سوچیں کہ آپ کے چھوٹے سے عمل سے کیا فرق پڑے گا؟
پاکستان سے محبت پاکستانیوں سے محبت ہے پاکستان سے محبت پاکستان کی سڑکوں، گلیوں، عمارتوں، درختوں، میدانوں، کارخانوں، سبزہ زاروں، پہاڑوں، دریاؤں، جھیلوں سے محبت ہے۔ اپنے حصے کے درخت، کارخانے، دریا، سمندر، جھیل، سڑک، گلی اور عمارت کا خیال رکھنا پاکستانیت ہے۔ ان جگہوں پر صرف جھنڈا لگانا کافی نہیں بلکہ ان کی حفاظت اور صفائی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
اس طرز عمل سے چاہے کوئی بڑی تبدیلی نہ بھی آئے تو بھی آپ کے حصے کی سڑک، گلی، عمارت، دریا، جھیل، درخت کی لائف لائن ضرور بڑھ جائے گی۔ لہٰذا جب بھی موقع ملے اپنے حصے کی اسٹار فش ضرور سمندر کے حوالے کر کے اس کی زندگی برقرار رکھنے میں مدد کریں۔ یہ نہ سوچیں اس سے کیا فرق پڑے گا؟ اگر ہماری سوچ مثبت ہو جائے اور ہم بے جا تنقید کو مثبت تقلید سے بدل دیں تو اس سے بڑھ کر فرق کیا ہو گا۔ کیونکہ میں ہوں پاکستان اور پاکستان بدل جائے گا۔