Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Madad

Madad

مدد

مدد کرنے کا جذبہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خود انسان۔ انسان کی دس ہزار سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان نے شروع سے ہی مدد کرنا سیکھ لیا تھا۔ ہم انسان بھی بڑی عجیب و غریب مخلوق ہیں ہم ایک دوسرے کی، دوسری مخلوق جیسے جانوروں وغیرہ اور پھول پودوں کی بھی مدد کرنا عین عبادت سمجھتے ہیں، اس کے پیچھے بظاہر کوئی ٹھوس وجہ نہیں۔

بہت سے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ مدد کرنا ہمیں مذہب نے سکھایا ہے، اللہ تعالی نے قرآن میں نماز اور صبر سے مدد مانگنے کی تلقین کی ہے۔ جبکہ کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے جو کہ اب اچھی خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں کا عقیدہ اس کے برعکس ہے، وہ آنے والی دنیا، جزا و سزا، روز آخرت اور دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین ہی نہیں رکھتے مگر پھر بھی انسان تو انسان دیگر مخلوقات کی مدد کرنے پر مکمل ایمان رکھتے ہیں۔

ان کے نزدیک مدد کرنا انسانیت کی خدمت ہے اور دنیا میں جتنے اچھے کام ہو سکیں، کرنے چاہیں۔ اچھی خاصی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو دوسروں کی مدد خود کو مطمئن اور خوش رکھنے کے لئے کرتے ہیں، یہ بات بالکل درست ہے کہ دوسروں کی بے لوث اور بے غرض مدد کرنے سے ہمارے دماغ میں ایسے کیمیکل جنم لیتے ہیں جو راحت و سکون کا باعث بنتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو دوسروں کی مدد میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی "مدد" سے یکسر بیگانے ہو جاتے ہیں۔

مدد کرنا معاشرے کو ایک بونڈ کی طرح جوڑے رکھتا ہے، مملکت خداداد کے باسی غربت کی چکی میں پسنے اور مہنگائی کے بلڈوزر تلے کچلنے کے باوجود کھلے دل سے دوسروں کی مدد کرنے پر ہر دم کمربستہ رہتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں ستاون اسلامی ملکوں میں پاکستان کا نام سب سے زیادہ صدقہ خیرات کرنے والوں میں ہمیشہ اوپر ہی رہتا ہے۔ جگہ جگہ لنگر خانے کھلے ہیں اور اہل ثروت کسی کو بھوکا سونے نہیں دیتے۔

ایک چینی کہاوت ہے کہ کسی شخص کو مچھلی پکڑ کر کھلاؤ تو وہ ایک دن بھوکا نہیں رہے گا اور اگر اسے مچھلی پکڑنا سکھا دو تو وہ کبھی بھی بھوکا نہیں رہے گا۔ ہمیں اسی "مچھلی پکڑنے والی مدد" کی طرف راغب کرنا ہوگا، نیچے والا ہاتھ بننے کے بجائے اوپر والا ہاتھ بننا ہوگا۔ ہم تو "مدد" میں اتنا آگے جا چکے ہیں کہ اسکول کالج کے امتحان سے لے کر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے تک ہر سرکاری و غیر سرکاری کام میں"مدد" سے ہی مدد لیتے ہیں۔ بچے کا داخلہ کروانا ہے، "مدد" کے بغیر ممکن نہیں۔ آپ کے پلاٹ یا پنشن وغیرہ کی فائل کہیں دب گئی ہے، "مدد" ہی آپ کی مدد کر سکتی ہے۔

یہ لنگر خانے، گلی گلی کھلی سبیلیں، مفت اٹا وصولی کی لائنوں میں لگے "جہاد" کرتے بے بس لوگ۔ مخیر حضرات سے گزارش ہے کہ اگر وہ حقیقی مدد کرنا چاہتے ہیں جو کہ یقینا وہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ ان بے بس لوگوں کو مچھلی پکڑنا سکھا دیں، انہیں کوئی بھی ہنر سکھا دیں۔ ایسے بے بس اور لاچار لوگوں کی مدد انہیں ان کے پیروں پر کھڑا کرنے میں کریں۔

پاکستان کی تقریبا 64 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہ نوجوان خطرناک حد تک تربیت کی کمی کا شکار ہیں۔ یہ ایک بپھرا ہوا ہجوم بن چکے ہیں انہیں جس راہ پہ ڈال دیا جائے یہ اسی راہ کے مسافر بن جاتے ہیں۔ یہ ملک کا قیمتی سرمایہ سیاست کا ایندھن بن کر رہ گیا ہے۔ 70 کی دہائی میں یہ ایندھن پیپلز پارٹی کے لیے استعمال ہوتا رہا پھر 90 کی دہائی میں اس ایندھن نے شریف فیملی کے کارخانے چلانا شروع کر دیے اور پھر 2000 کے بعد یہ ایندھن انصاف کا پرچم آسمان کی طرف لے گیا۔

ان 50-60 سالوں میں اس ایندھن کو اچھی طرح نچوڑا گیا۔ ان سے ان کی سمت چھین لی گئی۔ آج اے آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس اپنے پر پھیلا چکی ہے اور ہمارا نوجوان اج بھی سڑک بلاک کرکے اپنے ہی ملک کو روکے کھڑا ہے۔ بھارت خلائی راکٹ چندرایان تیسری کوشش میں چاند پر پہنچا چکا ہے مگر اس سے قبل بھارت نے اپنی عوام کو غربت سے بھی نکالا ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے 2023 تک 135 ملین افراد کو صحت، تعلیم، خوراک، صاف پانی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے اس کے بعد چاند پر قدم رکھا ہے۔ جب کے ہمارے بارے میں ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2022 تک تقریبا ڈھائی کروڑ لوگ "بھیک مانگنے" کے پیشے سے وابستہ ہیں اور اس میں خطرناک حد تک بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان جس کی 40 فیصد آبادی بھیانک غربت میں پس رہی ہے وہاں لوگوں کے لیے اس منافع بخش پیشہ کے علاوہ دوسرا کیا آپشن بچتا ہے؟ ان ڈھائی کروڑ لوگوں میں بہت بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ جس مستقبل کو آج ہنر اور تعلیم سے سنورنا چاہیے وہ کشکول اٹھائے حال اور ماضی کے سیاست دانوں کی طرح اپنا پیشہ منتخب کر چکا ہے۔ موجودہ ملکی بدترین معاشی حالات لوگوں کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ خودکشی آسان اور جینا مشکل لگنے لگا ہے۔ سرکاری "مدد" تو سموئل بیکٹ کے ڈرامے "waiting for godot" کے مرکزی خیال کی طرح ہو چکی ہے جس کے تمام کردار ایک ایسے مسیحا کا انتظار کرتے زندگی گزار رہے ہیں جس نے کبھی نہیں آنا۔

ہماری حکومتیں بھی اپنی "مدد" کے لیے ہی آتی ہیں۔ عوام اور حکومتوں میں اتنی وسیع خلیج حائل ہے کہ اشرافیہ اور عوام دو الگ الگ کشتیوں میں سوار ہیں اور عوام کو اپنی کشتی کو خود ہی کنارے لگانا ہے۔ لہذا ایک دوسرے کا ساتھ دینے، ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے میں ہی زندگی کی بقا ہے۔ ورنہ بل پھاڑتے جائیں اور مہنگائی کے خلاف سینہ کوبھی جاری رکھیں شاید اس طرح زندگی کی کچھ مشکلات آسان ہو جائیں۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo