Cockroach Theory
کاکروچ تھیوری
گوگل کا سی ای او سندر پچائی انہماک سے خاتون کا برتاؤ اور لال بیگ کی حرکتیں دیکھنے لگا۔ لال بیگ خاتون کے کندھے پر تھا اور خاتون نے پورے ریسٹورنٹ میں افراتفری پھیلا دی تھی۔ ریسٹورنٹ میں موجود تمام لوگ اس طرف متوجہ ہو چکے تھے۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لیں کہ سندر پچائی کون ہے؟
سندر پچائی گوگل کا سی ای او ہے۔ یہ دنیا کا سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا سی ای او ہے۔ یہ شخص سالانہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ کما لیتا ہے۔ آپ اندازہ کریں آئی ایم ایف پاکستان سے چند ارب ڈالرز کے لیے ناک رگڑواتا ہے۔ اس واقعے سے بڑے لوگوں کی سوچ اور ان کے زندگی کے عام مشاہدات سے سیکھنے کا پتہ چلتا ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے چھوٹے چھوٹے واقعات انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان سے ہم بہت سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔
سیکھنے کی کئی اقسام اور طریقے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ آبزرویشنل لرننگ ہے۔ اس ٹائپ میں ہم دوسروں کے رویے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اگلی اسٹیج میں اس مشاہدے کو ذہن نشین کر لیتے ہیں اور پھر اس کی نقل کرتے ہیں۔ یوں وہ رویہ ہمارے کردار اور عادتوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ چھوٹے بچے آبزرویشنل لرننگ کی بہترین مثال ہیں۔ کہانی کی طرف واپس آتے ہیں۔
اس لال بیگ نے خاتون کو پریشان کر کے ریسٹورنٹ میں ہلچل مچا دی تھی۔ تمام لوگ اپنی نشستوں سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ تمام ویٹرز بھی اپنا کام چھوڑ چکے تھے اور ریسٹورنٹ کسی مچھلی بازار کا منظر پیش کر رہا تھا۔ خاتون کے اچھل کود کرنے سے لال بیگ اڑا اور ایک ویٹر کے کندھے پر بیٹھ گیا۔ ویٹر نے لال بیگ کو پرسکون انداز میں دیکھا۔ وہ بے حس و حرکت کھڑا رہا اور بغیر شور شرابہ کیے اطمینان سے لال بیگ کو پکڑ کر ایک طرف پھینک دیا۔
عام لوگوں کے نزدیک یہ ایک عام سا واقعہ اور مشاہدہ تھا مگر سندر پچائی نے اسے مختلف زاویے سے دیکھا۔ اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ایک جیسی صورتحال اور مسئلے پر دو لوگوں کے الگ الگ ری ایکشن اور اپروچ کیونکر ہو سکتے ہیں؟ خاتون کے لیے بھی لال بیگ، اس کا سائز اور خطرہ ویسا ہی تھا جیسا اس ویٹر کے لئے۔ مگر فرق اپروچ کا تھا۔
سندر پچائی نے فوراََ اندازہ لگا لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ کوئی بھی پرابلم اور اس کے اندر چھپا خطرہ اصل مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ اس پرابلم کے بارے میں ہمارا رویہ اور ری ایکشن فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ پرابلم ہے بھی یا نہیں؟ سندر پچائی نے اس مشاہدے سے جانا کہ ہمیں کسی بھی پرابلم کے سامنے reaction نہیں دینا چاہیے بلکہ respond کرنا چاہیے۔ کیونکہ ری ایکشن فوری اور بغیر سوچے سمجھے ہوتا ہے اور respond سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔
اس خاتون نے پرابلم کے سامنے آنے پر ری ایکشن دیا جبکہ ویٹر نے صورتحال کا فوری تجزیہ کر کے respond دیا۔ یوں اس نے پرابلم کو آسانی سے ہینڈل کر لیا۔ سندر پچائی نے اسے "کاکروچ تھیوری" کا نام دیا۔ مسائل انڈے بچے دیتے ہیں۔ یہ زندگی ایکسپائر ہونے تک ختم نہیں ہوں گے۔ ہم انسان روزانہ کی بنیاد پر مختلف انواع و اقسام کے مسائل سے گزرتے ہیں۔ یاد رکھیں مسائل ہمیشہ عارضی ہوتے ہیں۔ یہ کبھی نہ کبھی خود بخود ختم ہو جاتے ہیں۔
دنیا کا کوئی ذی روح ایسا نہ ہو گا جس کے ساتھ کوئی پرابلم نہ ہو۔ ایک جاپانی کہاوت ہے کہ اگر آپ کو کوئی مسئلہ درپیش ہے اور اس کا حل موجود ہے تو پھر کیسی پریشانی؟ اور اگر آپ کو کوئی مسئلہ درپیش ہے اور اس کا کوئی حل موجود نہیں ہے تو بھی پریشانی کس بات کی؟ دونوں صورتوں میں مسئلے نے ختم ہونا ہی ہے۔ ہاں مگر کچھ مسئلے اپنا تاوان وصول کر کے رخصت ہوتے ہیں۔
مثلاََ آپ مہنگائی کو ہی لے لیجئے، 80 فیصد لوگوں کے مسائل پیسے سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ مسائل پیسہ ہاتھ میں آتے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ مہنگائی کا رونا رونے سے اور ہائے ہائے مہنگائی کی گردان کرنے سے مہنگائی ختم نہیں ہو گی۔ آپ کو اپنی سورس آف انکم بڑھانی ہو گی۔ پارٹ ٹائم نوکری، چھوٹی موٹی انویسٹمنٹ یا پھر اپنی صلاحیت کو بروئے کار لا کر پیسہ کمانا ہو گا۔ وقت سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ اسے بروئے کار لا کر مہنگائی کی لکیر سے اوپر جانا ہو گا۔
جیسے ہی آپ کی قوت خرید میں اضافہ ہو گا آپ کے لئے مہنگائی کا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ مثلاََ پیٹرول کی قیمت ہر اس شخص کے لئے زیادہ ہے جس کی قوت خرید کم ہے۔ مہنگائی کا حل اپروچ میں موجود ہے۔ اگر آپ اپنی زندگی کا تجزیہ کریں تو ہمارے اسکول لائف کے مسئلے کالج لائف سے پہلے ہی یا تو خود ختم ہو گئے یا ہم نے حل کر لیے۔ اسی طرح تعلیمی دور کے مسائل پیشہ ورانہ زندگی میں آنے سے پہلے ختم ہو گئے۔
پیشہ ورانہ زندگی میں بھی ہم روزانہ کی بنیاد پر مختلف مسائل سے گزرتے ہیں۔ یاد رکھیں مسئلہ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یقیناََ ختم ہو جانا ہے آپ چاہے اسے حل کریں یا نہ کریں مگر مسئلہ کے بارے میں آپ کا رویہ اور respond بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے آپ کی لرننگ ہو گی۔ اگر اس مسئلے کو حل کرنے کی طرف جاتے ہیں تو اس سے آپ نئی skills بھی سیکھتے ہیں اور آپ میں پرابلم سولونگ بھی ڈیولپ ہوتی ہے۔ یہی مسئلہ کی سائنس ہے۔
مسائل میں مواقع چھپے ہوتے ہیں۔ اگر ہم انسان مسائل کی چھلنی سے نہ گزریں تو یقین جانیں ہم کبھی بھی اپنا بستر نہ چھوڑیں۔ یہ مسائل ہی ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ یہ جتنی آسانی سے ہمیں آج میسر ہیں یہ مسائل ہی کی بدولت ہیں کہ اگر مسائل جنم نہ لیں تو ان کے حل کے لیے کوئی کام نہ ہو گا۔ اسے ہم "مسائل کی برکتیں" بھی کہہ سکتے ہیں۔ زمین پر انسان کو بسانے کا ایک بڑا سبب یقیناََ انسان کو آزمایا جانا ہے۔
اب جب آزمائش دی جائے گی تو اس میں مسائل در مسائل آزمائش کا حصہ ہوں گے۔ ان مسائل سے نکلنے کے لیے قدرت نے انسان کو انتہائی اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل دماغ، کام کرنے کے لئے صحت مند اور توانا جسم عطا کیا ہے۔ اب ہم انسانوں نے چونکہ زمین پر ہی پیدا ہونا ہے لہٰذا ہمیں مسائل کی چھتری تلے ہی رہنا ہے۔ لہٰذا ہمارا رویہ اور respond بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مسئلے کی نوعیت کو سمجھیں اور کاکروچ تھیوری کا استعمال کریں ورنہ آپ کے حصے کے لال بیگ آپ کو کھانا بھی سکون سے کھانے نہیں دیں گے۔