Aaj Ke Bache Aur Smartphone
آج کے بچے اور اسمارٹ فون
اس دور کے سیکھنے والے بچوں کا تعلق جدید دور سے ہے۔ یہ بچے سمارٹ فون ہاتھ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اساتذہ سے زیادہ سمارٹ ڈیوائسز سے واقف ہیں۔ وہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق زیادہ اسمارٹ اور ذہین ہیں۔ یہ سوشل میڈیا اور gadgets کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ یہ ان کی ایج کا تقاضا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے والدین بھی ان کے روزانہ اسمارٹ فون کے استعمال کو روکنے کے قابل نہیں ہیں۔
اس لائف اسٹائل سے آج کا بچہ اپنے لئے ایک منفرد کمفرٹ زون (Comfort zone) بنا لیتا ہے اور کوئی بھی شخص اپنے گرد کمفرٹ زون نامی حصار سے آسانی سے نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص نیا کام اور نئی صلاحیت سیکھنے میں پس و پیش سے کام لیتا ہے، حیلے بہانے بنانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ یہ بچے جب اسکول یا کسی تعلیمی ادارے میں جاتے ہیں تو یہ اپنے اس زون میں آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔
وہ ایسی پابندیوں کو ناپسند کرتے ہیں جو انہیں سمارٹ گیجٹ خاص طور پر سمارٹ فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ آپ خود سوچیں ایک بچہ جو اپنے جاگنے کا زیادہ تر وقت موبائل فون، سوشل میڈیا اور اسمارٹ گیجٹس کے درمیان گزارتا ہے وہ کیوں کر اسکول میں یا کسی اور ایسی تعلیمی درسگاہ میں اس سے دور رہ سکتا ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر پول کے مطابق، تقریباً 95 فیصد نو عمروں کو اسمارٹ فون تک رسائی حاصل ہے۔
آپ صرف ان سے اسے چھوڑنے کے لیے نہیں کہہ سکتے۔ یاد رہے کہ آپ میں اور آپ کے بچوں میں جنریشن گیپ (نسلی فرق) بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ آپ کی اسمارٹ فون استعمال نہ کرنے کی بات پر توجہ نہیں دیں گے۔ آپ کو یہ جنریشن گیپ سمجھنا اور اسے ایک حقیقت ماننا نہ ہو گا۔ اس جنریشن گیپ کو ختم کرنا تو ناممکن ہے مگر آپ بچے کی سوچ کو سمجھ کر اس کے ساتھ چلنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں وہ آپ کا دشمن نہیں ہے۔
دوسری طرف ان کے والدین اور زیادہ تر اساتذہ ان اسمارٹ گیجٹس کا استعمال بہت محدود حد تک جانتے ہیں۔ وہ روایتی نقطہ نظر اور رائے کے حامل ہیں۔ وہ سمارٹ گیجٹس کو خلفشار، وقت کا زیاں اور آپ کے آس پاس ہونے والے حقیقی واقعات سے راہ فرار سمجھتے ہیں۔ چونکہ وہ اپنے وقت میں ان گیجٹس کے ساتھ تعامل نہیں کرتے تھے، اس لیے وہ ان آلات کے استعمال سے لا علم ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ ان گیجٹس پر مہارت رکھتے ہیں، وہ بھی بچوں کے لیے اسمارٹ فون اور دیگر ڈیوائسز کلاس روم میں استعمال کرنے کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اساتذہ کرام اور والدین کو کیا کرنا چاہیے؟
ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچوں کا اسکرین ٹائم (وہ وقت جو کسی بھی اسکرین کے سامنے گزرتا ہے) روزانہ 5 سے 7 گھنٹے تک ہوتا ہے۔ یہ کافی خطرناک ہے۔ اگر یہ 6 گھنٹے مان لیا جائے، تو یہ 180 گھنٹے فی مہینہ شمار ہوتا ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ ایک بچہ خصوصاََ ٹین ایجر کے سال کے 72 دن اسکرین کے سامنے گزر رہے ہیں۔ وہ موبائل اسکرین ہو، ٹیبلیٹ ہو یا ٹی وی یا کمپیوٹر۔
ظاہر ہے Covid 19 کا ایک بڑا منفی پہلو یہ بھی تھا کہ ان دنوں بچوں نے خصوصاََ اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارا۔ وبائی امراض کے ان دنوں کے دوران، اسکرین کا وقت یقینی طور پر بڑھ گیا تھا اور والدین کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ بچوں کو اس "سلو پوائزن" (میٹھا زہر) کا حصہ بننے دیں۔ بچے کی تعلیم اور تربیت کے لیے والدین اور اساتذہ کے کردار کے بہت سارے ایک جیسے پہلو ہیں۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جو جدید آلات اور ہائی ٹیک وسائل سے بھرا ہوا ہے، آج واٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، انسٹاگرام، ٹک ٹاک آج کا لائف سٹائل ہے۔ اساتذہ اور والدین دونوں بچوں کی تربیت اور نشوونما کے ذمہ دار ہیں۔ لہٰذا، اساتذہ کو اس نکتے کو ذہن میں رکھنا چاہیے اور اپنے بچوں یا سیکھنے والوں کو ان گیجٹس کے استعمال کے لیے درحقیقت نتیجہ خیز رہنمائی فراہم کرنی چاہیے۔
ابتدائی طور پر، والدین اور اساتذہ دونوں کو اسکرین کے وقت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ صرف بچوں کو سمارٹ گیجٹس کو یکدم روکنے پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ اس سے ان میں باغیانہ رویہ پیدا ہو گا۔ ان کا رویہ بدتمیز، جارحانہ اور غصیلہ ہو گا۔ تعلیمی مقاصد کے لیے سمارٹ فونز کے استعمال میں مثبت طریقے سے مشغول ہونے اور اس عمل کی نگرانی کرنے کا طریقہ بتانا نتیجہ خیز ثابت ہو گا۔ اس کے بعد اسکرین کے وقت کو محدود کرنے کی بجائے شیڈول کرنے سے زیادہ باہمی فائدہ ہو گا۔
آپ انہیں ایسے کام دیں جس سے وہ ان ڈیوائسز کو بھی استعمال کریں اور وہ اس کا مثبت پہلو بھی ہو۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا اور اسمارٹ فون کے استعمال کے وقت کو مختلف اوقات میں تقسیم کر دیں۔ ان ڈیوائسز اور اسمارٹ فون کا استعمال بچوں کو ایک انعام کے طور پر بھی دیا جا سکتا ہے مثلاََ اگر وہ کوئی اچھا کام کریں، وقت پر کھائیں وقت پر سوئیں، نماز کی پابندی کریں، کھیل کود کو بھی وقت دیں، یا اسکول کالج میں اچھا پرفارم کریں۔
مثبت سمت دینے کا ایک بڑا پہلو سیکھنے کو سمارٹ ٹیکنالوجیز سے جوڑنا ہے۔ والدین یا استاد کے طور پر، ہم شاذ و نادر ہی ان سے اس بارے میں بات چیت اور رہنمائی کرتے ہیں کہ وہ اپنے سیکھنے کے عمل کے ساتھ اپنے اسمارٹ فون کو کیسے جوڑ سکتے ہیں؟ کسی topic کو دہرانے کے لیے یوٹیوب کا استعمال کرنا یا کوئی لیکچر چھوٹ جانے کی صورت میں اس کا استعمال، ہجے، گرامر، ریاضی، آئی کیو، فزکس کے کوئزز یا کمپیوٹر سائنس کے مسائل وغیرہ کے لیے ایپس ڈاؤن لوڈ کرنا، کلاس روم میں زیر بحث آنا چاہیے۔
اور اساتذہ کو سیکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ ان ویب سائٹس اور ایپس میں نہ صرف سرگرمی سے مشغول ہوں بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی انہیں متعارف کرائیں۔ سیکھنے کے عمل میں مشغول ہونے اور سمارٹ گیجٹس کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے ہمارے اختیار میں ایپس، سافٹ ویئرز اور ویب سائٹس کی ایک بڑی قسم دستیاب ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اساتذہ اور والدین کبھی بھی اسمارٹ فون، واٹس ایپ، یوٹیوب اور اسمارٹ ڈیوائسز کو تعلیم و تربیت کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھتے نہ ہی وہ ان کے مثبت پہلوؤں کو عملی طور پر بچوں کے ساتھ زیر بحث لاتے ہیں۔ کبھی بچوں کو یوٹیوب سے کہانیاں سنائیں۔ کبھی میتھ کے مسئلے کسی ایپ سے یا گیم کے ذریعے بچوں کو سکھائیں۔ بچوں کو فزکس اور بائیولوجی لیکچرز یوٹیوب پر دیکھنے کی طرف راغب کریں۔
مطالعہ پاکستان جیسے اہم مضامین بچے جب تک تھری ڈی تصاویر اور ویڈیو کی شکل میں نہ دیکھیں تو انہیں کیسے نقشے کی سمجھ آئے گی؟ آج کل بچوں کی اردو املا بہت خراب ہے اس کی وجہ رومن میں ٹائپنگ ہے۔ اردو کی بورڈ کے ذریعے بچوں کو ٹائپنگ گیم کھیلنے دیں۔ انہیں واٹس ایپ چیٹ اردو میں کرنے کی تلقین کریں۔ ان سرگرمیوں سے بچوں میں یہ احساس اجاگر ہو گا کہ ان کے والدین اور اساتذہ بھی اسی دور کی مخلوق ہیں اور وہ دور حاضر کی جدید سہولیات جیسے اسمارٹ فون وغیرہ کے استعمال سے واقف ہیں۔
اس سے یہ بچے آپ کے قریب آئیں گے اور آپ کے لیے تعلیم و تربیت میں آسانی ہو گی۔ ٹک ٹاک کو ہی لے لیجئے۔ ہم یہ شکایت تو ضرور کرتے ہیں کہ آج کی نوجوان نسل ٹک ٹاک جیسی ایپس کے بے جا اور غلط استعمال میں مبتلا ہے۔ مگر کیا ہم نے کبھی اس ایجاد کے مثبت پہلوؤں پر غور کیا ہے؟ کوئی بھی ایجاد بذات خود اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بنا سکتا ہے۔
قلم ایک ہتھیار کے طور پر بھی استعمال ہو سکتا ہے مگر ہم اسے ہمیشہ لکھنے جیسے مثبت کام کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح والدین اور اساتذہ بچوں، خاص طور پر ٹین ایجرز کو ٹک ٹاک کے مثبت رجحانات کی طرف راغب کر سکتے ہیں آپ یقین کریں آج کے بچے بہت زیادہ باصلاحیت اور تخلیق کار ہیں یہ کیسی کیسی دلچسپ ویڈیوز تخلیق کرتے ہیں۔ آج کے دور میں بہت سے ٹین ایجرز سوشل میڈیا اور ٹک ٹاک وغیرہ سے ہزاروں لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔
کیا یہ ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت نہیں؟ ہمیں صرف انہیں ایک اچھی اور درست سمت دینی ہے جس سے وہ ان سوشل سائٹس کے مثبت پہلوؤں کی طرف توجہ دیں۔ کبھی انہیں اس طرح کا اسائنمنٹ دے کر تو دیکھیں مثلا پودوں کے فوٹوسینتھیسیز کے عمل کی ویڈیو بنانا، انگریزی میں پڑھنے یا بولنے کی پریکٹس کی ریکارڈنگ کرنا، نیوٹن کے تھرڈ لا آف موشن کی پکچرائزیشن۔
آپ مانیں یا نہ مانیں آج کا بچہ قلم اور کتاب کے مقابلے میں فون اور ٹیبلٹ سے ہی سیکھے گا لہٰذا اس کے فون اور ٹیبلٹ سے کتاب اور قلم کا کام لیجئے۔ یقین جانیے بچے یہ کام بہت دلجمعی اور شوق سے کریں گے اور ان کا وہ وقت صحیح طور پر استعمال ہو گا۔ والدین کا کنٹرول ایک اور ایسی جادو کی چھڑی ہے جس کی نگرانی کے لیے انٹرنیٹ پر سرفنگ کرتے وقت کیا سرگرمیاں کی جا رہی ہیں۔
کچھ ثقافتی، سماجی اور مذہبی حدود ایسی ہوتی ہیں جنہیں ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے عبور کریں۔ ہر ٹیکنالوجی کے پاس پابندی کے ایسے ٹولز ہوتے ہیں اور والدین کو ان سرگرمیوں کے لیے لاگ رکھنا چاہیے جو ان کے بچے کر رہے ہیں۔ اس سے انہیں اپنے بچے کے معمولات سے آگاہ کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اگر آج آپ بچوں کی سوچنے کی مخالفت کریں گے تو کل یہ معاشرے میں بگاڑ کا باعث ہی بنیں گے۔
آج اس مفروضے کو توڑنے کی ضرورت ہے کے بڑے ہی سب جانتے ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اساتذہ اور والدین کا تجربہ کا کوئی ثانی نہیں مگر آج کے دور میں علم اور تعلیم کا حصول انسان کی انگلیوں پر ناچ رہا ہے۔ یاد رکھیں چیزیں ہمارے استعمال کے لئے بنی ہیں ہم چیزوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کے لیے اس دنیا میں نہیں آئے۔