Mazhab, Pidar Sari Nizam Aur Khawateen Ke Huqooq
مذہب، پدرسری نظام اور خواتین کے حقوق
ایک شخص اپنی زندگی میں جو لفظ سب سے زیادہ سنتا ہے وہ نہیں کا ہے اور میرے خیال میں یہ عمل سب سے زیادہ عورت کے ساتھ ہوتا ہے۔ عورتوں کو عموماً ماں، بیوی، بہن یا بیٹی کی روایتی کرداروں میں محدود کیا جاتا ہے۔
لگتا ہے جیسے عورتوں کو اپنی زندگی جینے کا حق دیا نہیں، بلکہ اس سے صرف معاشرتی تقاضوں کے مطابق ماں، بیٹی، بہن یا بیوی کے درمیان کردار تبدیل کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ ہم ایک نام نہاد اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں اسلام کو صرف استعمال کیا جاتا ہے۔
خاص طور پر عورتوں کے معاملے میں، مردوں کو اسلامی تعلیمات کو ایک ایسے طریقے سے تشریع کرنے کی عادت ہوتی ہے جو عورتوں کے حقوق کو محدود کرتی ہے۔ ایک مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے کیونکہ اسلام نے اسے حق دیا ہے، لیکن ایک عورت کو اپنے لئے صرف ایک ہمسفر کا انتخاب یا ترجیح کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ کوئی بات نہیں کرتا کہ شادی کے حوالے سے اسلام نے عورتوں کو کیا حقوق دیئے ہیں۔
ہمارا معاشرہ جسے ہم مردوں کا معاشرہ کہتے ہیں یہ نہ خود وجود میں آیا ہے اور نہ ہی کسی اور نے ہم پر مسلط کیا ہے بلکہ ہم نے خود اسے تشکیل دیا ہے، ہمیشہ سے ہم نے مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں حاکم کا رتبہ دیا ہے، اور اس کا بڑا حصہ فیوڈل منصوبے کی تصوراتی سوچ ہے جو جنسی برابری کو متاثر کرتی ہے۔
21 ویں صدی میں بھی ہم ایک اسی بوسیدہ پدرسری نظام کے گرد گھوم رہے ہیں۔ جو جنسی تفریق کا سر چشمہ ہے لیکن الزام اسلام کو دیا جاتا ہے اور دوسرے لفظوں میں اگر کہوں تو اسلام کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا میں ہر مذہب برابری اور ہم آہنگی کو ترویج دیتا ہے کوئی بھی مذہب کبھی بھی تفریق یا غیر مساوی سلوک کی وجہ نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ ہم ہیں جو ایک جنس کو بہت آزاد بنا رہے ہیں اور دوسرے جنس کو بہت پابند کر رہے ہیں۔ اسلام ایک امن و مساوات پسند مذہب ہے۔
تاریخ کے ادوار میں بھی عورتوں کی کارکردگیاں چھپائی گئی ہیں۔ ہمارے بچوں کو جنگِ جمل کے بارے میں نہیں پڑھایا جاتا۔ جنگِ یمامہ میں خولہ بنت الازور کی موجودگی کا نہیں بتایا جاتا۔ تحریکِ پاکستان میں فاطمہ جناح کے ساتھ جہاں آرا شاہنواز، شائستہ اکرام اللہ اور بہت سی عورتیں پیش پیش رہی ہیں مگر آج بھی ان سب کا کردار کتاب کے ایک صفحے پر اور مرد حضرات کا کردار کھول کھول کر بتایا جاتا ہے۔
مردوں کو ان کی کارکردگی پر خوب سراہا جاتا ہے، لیکن عورتوں کی شرکت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ خواتین کی شخصی، نفسیاتی اور سماجی ترقی کو محدود کیا جاتا ہے۔
تاریخ میں ہمارے بڑے مشہور دینی عالم مولانا اشرف علی تھانوی (1868-1943) نے اپنی تحریرات کے ذریعے ڈھلتے ہوئے فیوڈل نظام کو دوبارہ زندہ کرنے رکھنے کے لیے19 ویں اور 20 ویں صدیوں میں، جب مغربی تعلیم کا سورج تیزی سے چڑھ رہا تھا، تو مولانا نے ایک کتاب "بہشتی زیور" لکھی تھی تاکہ مغربی تعلیم کی حکمرانی کو کم کریں، خاص طور پر خواتین پر، مذہبی اور اخلاقی حمایت لیتے ہوئے، تبدیلی کی تلاش سے روکیں اور اپنے حقوق کی لڑائی کرنے سے بچائیں۔
اس کتاب میں، مولانا نے خواتین پر مرکزی توجہ دی ہے اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر رہنمائی فراہم کی جس سے وہ اک بہترین غلام با آسانی بن سکیں۔ اس کتاب کے تحت، مولانا نے مذہب کی روشنی میں صرف ان اصولوں پر توجہ دی ہے جو مردوں کو فائدہ دیتے ہیں۔ یہ کتاب عورت کی جانب سے مردوں کو مکمل امن اور خوشی فراہم کرنے کا ممتاز علاج تھی۔
اشرف تھانوی یقین رکھتے تھے کہ عورتوں کو صرف ان کتابوں کو پڑھنا چاہئے جو شوہروں کے حقوق پر توجہ دیتے ہیں۔ اس کتاب میں، مولانا نے عورتوں کو اچھی نوکرانی بننے کے لئے مختلف طریقوں اور آلات کا تفصیلی بیان دیا۔ دوسری طرف، انہوں نے مردوں کے لیے مغربی تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے عورتوں کی تعلیم کو صرف مذہبی تعلیم تک محدود رکھا اور اس کو بہت کم حد تک محدود کیا۔ وہ عورتوں کو دنیاوی سرگرمیوں سے دور رہنے اور گھریلو معاملات پر توجہ دینے کی تجویز کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں، حیا کا تصور عموماً صرف عورتوں سے منسوب ہوتا ہے۔
مولانا تھانوی کی فلسفہ نے عورتوں کو ان کے گھر کی چار دیواروں میں محدود کرنے کا بہت آدم خانہ اور پسماندہ رویہ اختیار کیا، اور بدقسمتی سے 21 ویں صدی میں بھی ہم انہی خیالات کے گرد گھوم رہے اور آج بھی ایک جاگیرداری معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں جہاں عورتوں کو کوئی جائیدادی حقوق نہیں دئے جاتے، بلکہ عورت کو خود مرد کی جاگیر سمجھا جاتا ہے۔
اس تمام صورتحال پر ہم اگر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ خواتین سے متعلق معاملات میں ہماری معاشرے میں عموماً مذہب کا استعمال مردوں کے فائدے کے لئے ہوتا ہے، یہ اس لئے کہ ہم ایک مردوں کے حکومت والی معاشرت میں رہتے ہیں۔ کارل مارکس نے ایک بار کہا تھا، "مذہب عوام کا افیون ہے"، اور مجھے لگتا ہے کہ یہ بیان ہماری معاشرے میں بخوبی جچتا ہے۔