Pichli Sadi Ka Bachpan (4)
پچھلی صدی کا بچپن(4)
گاؤں کی شام اور یادوں کا آنگن۔
کھلتی مسکراہٹیں، شوخ و شرارتی بچپن کی اچھل کود، بہتی ندی کا سکوت اور اس کے کنارے اگی گھاس، یہ شام کی پرسکون ہوا اور اس پہ جھومتے درخت، ڈھلتا سورج اور اس کی کرنوں سے رنگ پکڑتی لہلاتی فصلیں، اگر کوئی مصور اس کی تصویر بناتا تو ایک شاہکار وجود میں آتا اور اگر کوئی ذرا بلند جگہ کھڑے ہو کر اس سارے ماحول پر ایک نظر دوڑائے تو ایک سکون اس کی رگ و پے ہی نہیں روح تک کو سرشار کرتا چلا جائے۔
عصر کی نماز پڑھ کر ہم کرکٹ کھیلنے جاتے ہیں، بچے الگ کھیلتے ہیں کیونکہ اگر بڑوں کے ساتھ کھیلیں تو ہمیں باری سب سے آخر میں ملتی ہے اور اگر انہیں ساتھ کھلائیں تو ہماری گیند "پاٹ" (پھٹ) جانے کا اندیشہ ہے، ہمارے پاس دو بلے ہیں، وکٹیں کسی بھی درخت سے کاٹ کر بنائی جا سکتی ہیں البتہ مسئلہ ٹیپ کا ہے جس کیلئے ہر دوسرے دن سب سے ایک ایک روپیہ چندہ اکھٹا کرنا پڑتا ہے۔
ہم اکثر دوسرے محلے والوں کے ساتھ میچ بھی رکھتے ہیں اور کئی بار ایسا ہو جاتا ہے کہ ایک ٹیم مقررہ وقت پر پہنچ جاتی ہے مگر دوسری ٹیم کا کوئی نام و نشان نہیں لہٰذا انہیں ان کے گھروں سے بلا کر لانا پڑتا ہے۔ مغرب سے کچھ دیر پہلے واپسی ہوتی ہے، گھر پہنچ کر میں دودھ لینے جاتا ہوں جو اتنا خالص اور گاڑھا ہے کہ بڑے شہروں کے رہنے والوں نے تو شاید کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا ہو۔
گھروں سے کھانے بننے کی خوشبو آ رہی ہے، کچھ گھروں سے جو دھواں بلند ہو رہا ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ تندور پر روٹی پکانے کیلئے آس پڑوس کی خواتین وہاں جمع ہیں، تندور سے اتری گرم گرم روٹی مجھے بے حد پسند ہے بالخصوص اس کے خستہ خستہ کناروں کی تو کیا ہی بات ہے، میں انتظار میں ہوتا ہوں کہ جیسے ہی امی روٹیاں لگا کر آئیں ان سے یہ روٹی لے کر کھا سکوں، مغرب پڑھ کر فارغ ہوتے ہی کھانا لگ جاتا ہے والد محترم اور تایا جان بھی واپس آ گئے ہیں۔
موسم اب معتدل بلکہ قدرے گرم ہونے لگا ہے لہٰذا شام ہوتے ہی چارپائیاں صحن میں بچھا دی جاتی ہیں اور انہیں پر بیٹھ کر ہی ہم کھانا کھاتے ہیں۔ کھانے کے بعد اکثر پڑوس سے کچھ خواتین اور رشتہ دار آ جاتے ہیں، مرد حضرات باہر صحن میں ہی بیٹھ کر گپ شپ کرتے ہیں جبکہ خواتین اور بچے ٹی وی والے کمرے میں آ جاتے ہیں، پہلے مزاحیہ ڈرامہ اور پھر آٹھ بجے "اصلی" ڈرامہ نشر ہوتا ہے جس کے دوران گفتگو پر سختی سے پابندی عائد ہوتی ہے۔
تاہم بچے کھسر پھسر سے باز نہیں آتے اور اشتہارات کے وقفے میں تو خوب قہقے بلند ہوتے ہیں، اگر تصویر صاف نہ آ رہی ہو تو انٹینا کو ادھر ادھر گھما کر اسے ٹھیک کرنا پڑتا ہے، ہمارے ٹی وی کو ایک اور مرض بھی لاحق ہے اور وہ یہ کہ چلتے چلتے یک دم تصویر غائب ہو جاتی ہے تاہم ایک جوتا یا چپت کھا کر پھر سے رواں ہو جاتی ہے، ڈرامہ ختم ہوتے ہی بھیڑ چھٹ جاتی ہے، اور ٹی وی والد محترم اور تایا جان کے حوالے ہو جاتا ہے جو خبرنامہ دیکھتے ہیں۔
پی ٹی وی صرف ایک چینل کا نام نہیں ہے بلکہ اسے ہر گھر کے فرد کی حیثیت حاصل ہے جو صبح چھ بجے اٹھتا اور رات گیارہ بجے نشریات کا اختتام کر کے کسی کو مزید جاگنے کا بہانہ نہیں دیتا، اس کے باوجود تلاوت، خبریں، ڈرامے، کارٹون، سپورٹس اور تعلیمی پروگرام جانے کیا کیا دکھاتا ہے اور ہر عمر کے افراد کیلئے معیاری تفریح کا ذریعہ بنتا ہے۔
صحن میں بچھی چارپائیاں اور ان پر لگے بستر ہمارے منتظر ہیں، کبھی اس بات پر اختلاف ہوتا ہے کہ پنکھے کے سامنے والی چارپائی پر کون سوئے گا؟ تو فیصلہ اکثر سب سے چھوٹے بھائی کے حق میں آتا ہے، ابو جی ہم سے سکول کی کار گزاری سنتے ہیں، کہانیاں سناتے ہیں تو کبھی کسوٹی کھیلتے ہیں، ہسنی مذاق بھی ہوتا ہے، مختلف بجھارتیں (پہیلیاں) پوچھی جاتی ہیں، یوں ہلکے پھلکے انداز میں وہ ہماری علمی، اخلاقی اور ذہنی تربیت کرتے ہیں۔
دیہات کی رات کا منظر بھی کم دلکش نہیں ہوتا، ایک گہری مگر پر سکون خاموشی جس میں کسی وقت قریبی درخت پر بیٹھا کوئی ٹٹیر اپنی سیٹی بجا کر خلل ڈال دیتا ہے، ستاروں سے بھرا کھلا آسمان، ابھی اتنی سائنس نہیں پڑھی جس سے ستاروں کی حقیقت معلوم ہو لہٰذا یہ مجھے ہمیشہ ان موتیوں کی مانند لگتے ہیں جنہیں کسی نے ایک سیاہ چادر پر پھیلا دیا ہو، مجھے علم نہیں کہ ان میں سے کچھ زیادہ کیوں چمکتے ہیں اور کچھ اتنے مدھم سے کیوں ہیں؟
کیا یہ بھی آپس میں باتیں کرتے ہوں گے؟ یا چندا ماموں کے ڈر سے خاموش رہتے ہیں؟ چاند خود بھی تو نہ جانے کیوں روز اپنی شکل بدلتا رہتا ہے، سکول میں پڑھا ہے کہ پہلی کے چاند کو ہلال کہتے ہیں اور چودھویں کا چاند بدر کہلاتا ہے، مجھے تو یہ ہر شکل میں ہی اچھا لگتا ہے بالخصوص جس رات تھوڑے بادل ہوں تو اسے آنکھ مچولی کھیلنے میں بہت مزا آتا ہے۔
جب یہ مسکراتا ہے تو اس کی چاندنی ہر سو پھیل جاتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر شے نے نور کی اک چادر اپنے اوپر اوڑھ لی ہے، رات کو ہوا بھی ایک عجیب سرور کے ساتھ چلتی ہے، وہ ہلکے ہلکے مجھے لوریاں دے رہی ہے اور ان سب کے بیچ میں آہستہ آہستہ ستاروں کی آغوش میں سو جاتا ہوں۔
23 برس بعد۔
زمانے کی بدلیوں سے قطروں کی مانند برستے لمحے کب اکھٹے ہوتے ہوتے وقت کا تیز دھارا بن گئے پتا ہی نہیں چلا، 23 سال بیت گئے ہیں، پرائمری کا طالب علم بچپن سے لڑکپن اور جوانی کی دہلیز پار کرتا اب خود ایک معلم کہلایا جاتا ہے بہت کچھ بدل گیا ہے، رحیم و شفیق والد محترم سمیت جانے کتنے انمول لوگ جو کبھی رونق حیات تھے اب آسودہ خاک ہیں۔
دنیا سے چلے جانے والوں کا غم تو الگ وقت کی اڑتی دھول میں تو وہ دوست بھی گم ہو گئے ہیں جو ایک دن غیر حاضر رہتے تھے تو فکر لگ جاتی تھی کہ یہ آیا کیوں نہیں؟ وہ اساتذہ جن سے روز فیض حاصل کرتے تھے اب سالوں گزر جاتے ہیں ان سے شرف ملاقات تک حاصل نہیں ہو پاتا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے ڈھیروں سہولتیں پیدا کر دی ہیں، سفر کرنا اب بہت آرام دہ اور تیز رفتار ہو گیا ہے مگر دوران سفر جو جھولے بچپن میں آتے تھے وہ اب نہیں آتے۔
برگر، پیزے، شوارمے نا جانے کیا کیا کھاتے ہیں مگر تندور سے اتری گرم گرم روٹی اور گھر کے بنے اچار کا ذائقہ کہیں نہیں ملا، موبائل نے بیٹھے بٹھائے کوئی بھی اطلاع دینا بہت آسان بنا دیا ہے مگر جو لطف دوستوں کو گھروں سے بلا کر لانے میں ملتا تھا وہ اب ناپید ہے، انٹرنیٹ کی بدولت کسی بھی وقت کچھ بھی من پسند دیکھا جا سکتا ہے مگر رات آٹھ بجے کے ڈرامے کے انتظار کی کیفیت الگ تھی، کمپیوٹرز پر طرح طرح کی گیمز دستیاب ہیں مگر کھلے میدانوں میں بھاگتے پھرنے کا الگ ہی مزا تھا۔
تختی اور سلیٹ کا استعمال اب ترک ہو چکا ہے، وہ بہتی ندی تقریبا خشک ہو گئی ہے، تتلیاں تو اب بھی اڑتی ہیں مگر ان کے پیچھے کوئی نہیں بھاگتا، جگنووں نے اپنے ٹھکانے بدل لیے ہیں شاید جانتے ہیں کہ اب کوئی انہیں اپنی ننھی سے جیب میں بند کر کے ان کی ٹمٹماتی روشنی دیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا، مٹی سے بنے جانوروں کی منڈیاں اب کہیں نہیں لگتیں۔
چاند نکلتا ضرور ہے پر کوئی اس سے باتیں کرتا ہے نہ آنکھ مچولی کھیلتا ہے، بارشں بھی اب اس طرح جھوم کر نہیں برستی اسے خبر ہے کہ اب کاغذ کی کشتیاں بنائے کوئی اس کے انتظار میں کھڑا نہیں ہو گا، رات کو درختوں پہ بولنے والا ٹٹیر شاید اب بھی سیٹی بجاتا ہو گا پر کوئی توجہ نہیں دیتا، سنا ہے ستاروں کی آغوش بھی عرصہ ہوا کسی بچے کی راہ تکتی ہے۔
انٹرنیٹ، موبائل اور میڈیا نے بچوں سے ان کی معصومیت چھین لی ہے، جراثیم کا خوف ان کی کتنی شرارتوں کو نگل گیا ہے، رنگ برنگے فلسفوں نے ان کا رشتہ اپنے ہی والدین اور اساتذہ تک سے کمزور کر دیا ہے اور ہماری گرتی ہوئی معاشرتی اقدار نے ان کیلئے اپنے ہی محلے میں نکلنا بھی غیر محفوظ کر دیا ہے، شاید ہم ہی وہ آخری نسل تھے جنہوں نے بچپن کو اس کی اصل بے فکری، شوخیوں اور شرارتوں سمیت ہنستے کھیلتے اور اٹکھلیاں کرتے دیکھا ہے۔
اپنے آفس میں بیٹھا آنکھوں میں ہلکی سی نمی اور لبوں پر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اس تحریر کی آخری سطور لکھ رہا ہوں، یہ صرف میری کہانی نہیں ہے بلکہ معمولی کمی بیشی کے ساتھ اس دور کے ہر دیہاتی بچے کی داستان حیات کا سب سے سنہری باب ہے، جانتا ہوں کہ گزرا وقت کبھی واپس نہیں لایا جا سکتا، میں نے تو بس اپنی سی کوشش کی ہے کہ ان حسین یادوں کو زبان دے سکوں اور وقت کی گرد میں مدھم پڑتے ان مناظر میں پھر سے رنگ بھروں۔
امید ہے اس تحریر کو پڑھتے ہوئے بہت سے لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ضرور آئی ہو گی، وقت کے دریچوں سے کسی نے جھانک کر اک پل کیلئے اپنے بچپن کو پھر سے دیکھا ہو گا، آنکھوں کے سامنے کچھ سہانے منظر پھر سے لہرائے ہوں گے اور شاید مزید 23 سال بعد جب کوئی بوڑھا اپنے پوتے پوتیوں کو اپنے سنہرے بچپن کے بارے میں بتانا چاہے گا تو اسے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی کہ یہ تحریر ہی اس کا سرمایہ بنے گی۔
گزر جانے والے لمحے لوٹ کر نہیں آتے لہٰذا وقت کی قدر کیجیے کہ کل کو جب آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو آپ کے پاس خوشگوار اور بہترین یادیں ہوں نہ کہ حسرت و ندامت اور شرمندگی۔ اللہ عزوجل ہمیں اور ہمارے سب اہل و عیال کو ایمان و تقوی اور صحت و سلامتی سے بھری لمبی زندگی عطا فرمائے اور ہمیشہ ہمارا حامی و ناصر ہو آمین ثم آمین۔