Sufism, Islah Ya Inheraf?
صوفی ازم، اصلاح یا انحراف؟
صوفی ازم کا آغاز اسلامی تاریخ میں روحانیت اور اللہ سے قربت کے حصول کی ایک صورت کے طور پر ہوا، اور اس نے مختلف ادوار میں مسلم معاشروں پر گہرا اثر ڈالا۔ ترکی میں عثمانی خلافت کے دور میں صوفی ازم ایک خاص اہمیت رکھتا تھا، جہاں یہ نہ صرف روحانی بلکہ سیاسی اور سماجی زندگی کا بھی حصہ بن گیا۔ صوفیاء کا عوام میں گہرا اثر تھا اور وہ معاشرتی اور روحانی رہنمائی فراہم کرتے تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت کئی غلط فہمیوں اور بدعتوں کا شکار ہوگئی۔
عثمانی دور میں صوفی خانقاہوں کا کردار نمایاں تھا۔ یہاں لوگ روحانی تربیت کے لیے آتے، جہاں صوفی اساتذہ انہیں وظائف اور ذکر کی تعلیم دیتے۔ ابتدا میں یہ وظائف اللہ کی قربت کے لیے تھے، مگر آہستہ آہستہ ان میں کچھ ایسی رسوم شامل ہوگئیں جن کا تعلق اسلامی تعلیمات سے کم اور مقامی روایات اور عقائد سے زیادہ تھا۔ پیری مریدی کا سلسلہ بڑھنے لگا اور بعض درباروں پر ایسی خرافات جنم لینے لگیں جن کا اسلام کی اصل روح سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
برصغیر میں مسلمانوں نے جب ترکوں اور مغلوں کی حکمرانی دیکھی، تو یہاں بھی صوفی ازم کا اثر پھیلنے لگا۔ ابتدا میں صوفیاء نے برصغیر کے لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرایا اور توحید کا پیغام دیا، لیکن وقت کے ساتھ یہاں بھی پیری مریدی، گدی نشینی، اور قبر پرستی کا رجحان فروغ پانے لگا۔ درباروں پر ایسی ایسی رسوم کا رواج ہوا جو ہندوؤں کی عبادت گاہوں کا تصور پیش کرتی تھیں۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے اللہ کی بجائے درباروں اور مزارات کا رخ کرنے لگے، جس سے توحید کا تصور کمزور ہوا۔
یہ صورتحال مسلمانوں کو ان کے بنیادی فرائض سے دور لے جانے لگی۔ نماز، روزہ، زکوة اور دیگر اسلامی فرائض سے غفلت برتی جانے لگی، اور ان کی جگہ وظائف اور چلہ کشی جیسے اعمال نے لے لی۔ لوگ یہ سمجھنے لگے کہ صرف دربار پر جانا اور وہاں منت مانگنا کافی ہے، جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان کو خود اپنے اعمال کے ذریعے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنی چاہیے۔
صوفی ازم کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ یہ فلسفہ محبت اور امن کا پیغام دیتا ہے، اور یہ یقیناً ایک مثبت پہلو ہے۔ لیکن جب یہ محبت اور امن کا تصور اسلامی اصولوں کی جگہ لے لے، تو یہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے۔ عثمانی دور میں بھی کچھ صوفی سلسلے اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے شریعت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا، اور صرف روحانی تجربات کو اہمیت دینے لگے۔ اسی طرح برصغیر میں بھی لوگوں نے فرائض کی ادائیگی کو چھوڑ کر صرف وظائف اور دعاؤں پر بھروسہ کرنا شروع کر دیا۔
یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ برصغیر میں صوفی ازم کی آڑ میں جو رسوم و رواج پروان چڑھے، وہ اسلامی تعلیمات سے زیادہ مقامی روایات پر مبنی تھے۔ مزارات پر چراغ جلانا، قبروں پر چادریں چڑھانا، اور مریدین کا اپنے پیروں کے سامنے سر جھکانا ایسی رسمیں ہیں جن کا قرآن و حدیث میں کوئی ذکر نہیں۔ یہ بدعات رفتہ رفتہ مسلمانوں کے معاشرتی اور دینی شعور کا حصہ بن گئیں، اور آج تک ان کی جڑیں گہری ہیں۔
صوفی ازم کا ایک بڑا تضاد اس وقت سامنے آتا ہے جب ہم اسے مشرق وسطیٰ کے اسلامی علم سے موازنہ کرتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے علما ہمیشہ قرآن و سنت کی بنیاد پر شریعت کی تعلیم دیتے رہے ہیں، جہاں ہر چیز کو اسلامی اصولوں کے مطابق پرکھا جاتا ہے۔ جبکہ برصغیر میں صوفی ازم کے تحت کچھ ایسے تصورات اور اعمال کو فروغ ملا جو اسلامی عقائد کے ساتھ ٹکراتے ہیں۔ یہ تنازع اس وقت مزید گہرا ہو جاتا ہے جب بعض صوفی سلسلے اسلامی شریعت کی بجائے اپنے ذاتی روحانی تجربات کو دین کی اصل سمجھنے لگتے ہیں۔
برصغیر کے کچھ علماء کا کردار اور تصوف کے ساتھ ان کی کشمکش ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ ان علماء نے ہمیشہ توحید کی تعلیمات کو فروغ دینے کی کوشش کی اور مسلمانوں کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلایا۔ تاہم، ان میں سے بہت سے علماء پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی مالی مدد پر ہیں اور ان کا مقصد برصغیر میں اسلام کو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پھیلانا ہے۔
یہ تنازعہ اس بات کا سبب بنا کہ برصغیر میں مذہب مختلف مکاتبِ فکر میں تقسیم ہوگیا، جہاں ہر مکتبہ فکر اپنے الگ نظریات اور طریقہ کار رکھتا ہے۔ اس اختلاف نے نہ صرف دین کو مختلف فرقوں میں بانٹ دیا بلکہ معاشرے کو بھی مختلف مذہبی دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
ایک طرف علماء کی توحید کے پیغام کو سراہا گیا، جبکہ دوسری طرف ان کے طرزِ عمل کو تصوف اور روایتی اسلام سے متصادم قرار دیا گیا۔ تصوف جو کہ محبت، برداشت اور روحانیت پر زور دیتا ہے، اکثر علماء کی طرف سے بدعت یا گمراہی قرار دیا جاتا ہے۔ اس اختلاف نے برصغیر کے مسلمانوں میں اختلافات کو مزید گہرا کر دیا ہے، جس کا نتیجہ آج ہم مذہبی اور معاشرتی سطح پر دیکھ رہے ہیں۔
مسلمانوں کو اپنی اصلاح کے لیے قرآن و سنت کی تعلیمات کی طرف لوٹنا ہوگا اور اپنی مذہبی اور روحانی زندگی کو ان بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ صوفی ازم کی جو غلط رسومات اور بدعات وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھی ہیں، ان کو چھوڑ کر اسلامی تعلیمات کے اصل جوہر یعنی توحید، شریعت اور فرائض کی ادائیگی پر زور دینا ہوگا۔
مسلمانوں کو اپنی عبادات اور اعمال میں توازن قائم کرنا چاہیے، جہاں محبت، امن اور روحانیت ہو، لیکن یہ سب کچھ شریعت کے دائرے میں رہ کر ہو۔ اللہ کی خوشنودی اور قربت کے لیے اعمال پر انحصار ضروری ہے نہ کہ مزاروں اور درباروں پر۔