Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sheikh Saifullah
  4. Mazhabi Pabandiyan Faida Ya Nuqsan?

Mazhabi Pabandiyan Faida Ya Nuqsan?

مذہبی پابندیاں فائدہ یا نقصان؟

یقیناً دین اسلام ایک سچا مذہب ہے اور قیامت تک آنے والے تمام رنگ ونسل کے مسلمانوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ اس کی تعلیمات انسان کے لیے یکسر رحمت ومحبت ہے۔ لیکن افسوس اس کے باوجود اسلام کے دشمنوں نے حقیقت سے منہ موڑ کر لوگوں کو دین سے دور کرنے اور اس کی نفرت ان کے دلوں میں ڈالنے کی کوشش کی اور آزاد خیالی کے بظاہر پرکشش نام سے دھوکہ دیتے رہے۔

آزاد خیالی سے مراد یہ ہے کہ دین کی باتوں کو ظلم سمجھنا اور یہ نظریہ اپنالینا کہ انسان اپنے کاموں میں آزاد ہونا چاہیے، کوئی بھی مذہب اس کو کسی قسم کا پابند رکھنے کا مجاز نہ ہو۔ یاد رکھیے یہ سوچ انسان کو تباہی کی طرف لے کر جاتی ہے۔

دنیا میں کوئی ایسا ملک موجود نہیں ہے جس نے نظام مملکت چلانے کے لیے قوانین لاگو اور حدود متعین نہ کی ہوں۔ آپ دنیا کے کسی بھی خطے میں چلے جائیں انسان کے انسانوں کی بہتری کے لیے بنائے قوانین موجود ہوں گے۔ ہم نے کبھی بھی قانون دانوں پر اعتراض نہیں کیا کیونکہ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ اصول وضوابط دراصل ہماری زندگی کے سکون اور حفاظت کے ضامن ہیں تبھی چاہ نہ چاہ کر ہم ان قوانین کی پاسداری کر رہے ہوتے ہیں۔

جیسے ہم عملی زندگی میں روڈ پر کھڑے ہوئے سرخ بتی پر رک جانے کو اپنی ذمہ داری گردانتے ہیں، اپنی لائن میں گاڑی چلاتے ہیں، دوسروں کو اس پر کاربند نہ پاکر سرزنش کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی ملک میں قتل ہوجاتا ہے تو قاتل کی پھانسی کو ہر طبقہ اچھی نگاہ سے دیکھتا ہے، اسی طرح چور کو سزا کے طور پر ملنے والی جیل سبھی جائز سمجھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

تو مجھے اس کھلے تضاد پر حیرت ہوتی ہے کہ ایسا مذہب کرے تو ظلم کیوں ہوتا ہے؟

عرض یہ ہے کہ جس طرح ٹریفک قوانین بنائے گئے ہیں تاکہ لوگ ایکسیڈنٹ سے بچ سکیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی جو قوانین وضع کیے ہیں اس میں انسان کے لیے خیر اور بھلائی ہے۔ اسی وجہ سے مرد وزن کے اختلاط کے موقع پر اسلام جو کچھ پابندیاں لگاتا ہے اس لیے کہ معاشرے کی بناء زنا اور شہوانیت کے بجائے پاک دامنی اور عصمت پر اٹھے۔ آج اہل مغرب عفت کو کھونے کے بعد کبھی ایڈز جیسے مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور کبھی خاندان کے ٹوٹ جانے کا رونا روتے ہیں جبکہ ہم عفت وعصمت کو تحفظ دے کر آج ان مسائل سے دوچار نہیں جن کا انھیں سامنا ہے۔

اس باب میں سب سے بڑا اعتراض جو کہ تجدید پسند حلقوں کی جانب سے اکثر کیا جاتا ہے کہ اسلام عورت کو معاشرے میں اس کا صحیح مقام دینے کے حامی نہیں ہیں اور اسلام نے آزادی نسواں کی مخالفت کی ہے۔ یہ اعتراض وہ لوگ کرتے ہیں جو آزادی نسواں کے صرف مغربی تصور کوپیش نظر رکھتے ہیں اور اس معاشرتی مقام سے بے خبر ہیں جو اسلام نے عورت کو دیا ہے۔

چنانچہ سب سے پہلے اس نام نہاد آزادی کا پس منظر کا بیان اہمیت کا حامل ہوگا۔ ہوا یہ کہ 1792ء میں"Mary Wollstonecraft" نامی عورت نے ایک کتاب لکھی اس کا نام "A Vandication of the Rights of Woman" یعنی "عورتوں کے حقوق کی حمایت" رکھا۔

اس کتاب میں اس خاتون نے عورت کے گھر پر بیٹھنے کو انکے لئے قید کا نام دیا اور یہ نظریہ بھی پیش کیا کہ عورت اور مرد بالکل برابر ہیں۔ عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی آزادی ہو، وہ اپنے پیسے خود کما سکے، اور بہت کچھ لکھا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ یہ خاتون اس فرقہ "تحریک نسواں" کی بانی ہیں۔ اس کی اس کتاب کو عالمی سطح پر بڑی پزیرائی حاصل ہوئی اور اس سے معاشرہ بہت متاثر ہوا۔ عورتوں نے گھروں سے باہر نکلنا شروع کر دیا۔ اس کتاب کا بہت پر چار کیا گیا جس کے نتیجے میں عورتوں کی بہت بڑی تعداد عورتوں کے حقوق کے نام پر گھروں سےنوکرانی بن کر باہر نکلنے لگیں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ جس عورت نے یہ کتاب لکھی اس کے اپنے شوہر "William Godwin" نے ٹھیک چھ سال بعد اپنی بیوی کی زندگی پر کتاب لکھی جس میں اس نے اپنی بیوی کی بربادی کی داستان رقم کی تھی جس میں اس نے اپنی بیوی کی ناجائز اولاد، بار بار مختلف مردوں کے ساتھ تعلقات، معاشرے میں اس کی وجہ سے پھیلنے والی خرابیاں اور زندگی سے عاجز آکر کئی بار خودکشی کی کوشش کا ذکر کیا۔

اس کا یہ کہنا تھا کہ یہ کتاب میری بیوی خود منظر عام پر لانا چاہتی تھی مگر اس کو اتنی مہلت نہ مل سکی اور وہ چل بسی لہٰذا میں نے اس کی خواہش کی تکمیل میں یہ کتاب شائع کروائی اور اس کتاب کا نام "Memoirs Of The Author Of Vindication Of The Rights Of Woman" یعنی "عورتوں کے حقوق کی حمایت لکھنے والی کی سوانح حیات" رکھا۔ اس کے ٹائٹل پیج پر اس کے شوہر نے اپنا نام نہیں لکھا کیونکہ یہ اس کی بیوی کی خود کی لکھی ہوئی کتاب تھی۔ مگر سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس کی پہلی کتاب سے اثر لیا ان لوگوں نے اس کی بربادی کی داستان سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اسی کی ڈگر پر چل کر بربادی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ یہ تو اس نام نہاد آزادی کا پس منظر تھا۔ اب ہم اسلام میں عورت کی آزادی کے تصور کو پیش کرتے ہیں۔

بلاشبہ اسلام نے عورت کو وہ مقام بخشا ہے جس کی نظیر دنیا کے کسی مذہب میں موجود نہیں۔ اسلام سے قبل معاشرے کا ہر کمزور طبقہ طاقتور کے زیرنگیں تھا۔ تاہم معاشرے میں خواتین کی حالت سب سے زیادہ ناگفتہ بہ تھی۔ اسلام کی حقوق نسواں کی تاریخ درخشاں روایات کی امین ہے۔ روزِ اول سے اسلام نے عورت کے مذہبی، سماجی، معاشرتی، قانونی، آئینی، سیاسی اور انتظامی کردار کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس کے جملہ حقوق کی ضمانت بھی فراہم کی۔ تاہم یہ ایک المیہ ہے کہ آج مغربی اہل علم جب بھی عورت کے حقوق کی تاریخ مرتب کرتے ہیں تو اس باب میں اسلام کی تاریخی خدمات اور بے مثال کردار سے یکسر صرف نظر کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔

اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہرہے، وہ قند

کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خرد مند

کیا چیز ہے آرائش وقیمت میں زیادہ
آزادئی نسواں کہ زمرد کا گلوبند!

Check Also

Itna Na Apne Jaame Se Bahir Nikal Ke Chal

By Prof. Riffat Mazhar