Tezi Se Badalta Samaj
تیزی سے بدلتا سماج
عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو گزرا ہوا ماضی بھلا لگنے لگتا ہے۔ ضعیف اور ادھیڑ عمر لوگ بالخصوص گزرے ہوئے وقت کو موجودہ اور آنے والے وقت سے بہتر قرار دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بدلتی ہیں۔ جو کل تھا وہ آج نہیں اور جو آج ہے وہ کل نہیں ہوگا۔ ثبات کسی کو نہیں۔ تغیر اس کائنات کے نظام کا جزو لاینفک ہے۔ اگر تبدیلی کا عمل رک جائے تو معاشرہ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح بے کار ہوجائے اور بدبو دینے لگے۔ تبدیلی کا عمل جاری رہنا قانونِ قدرت ہے اور اس کے جاری رہنے میں ہی سب کی بقاء مضمر ہوتی ہے۔
تبدیلی کے اس عمل میں انسان کا کردار بہت اہم حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ افراد ہی ہوتے ہیں جو تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ قدرت کے دوسرے عوامل بھی اس تبدیلی کے عمل میں شریک کار ہوتے ہیں لیکن انسان کا کردار سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا یہ افراد ہی ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر ہوتی ہے۔ لہذا تبدیلی کا عمل مثبت ہونا چاہیے تاکہ اقوام کی حالت بدل جائے۔
اگر ہم اپنے معاشرے میں تبدیلی کے عمل کا جائزہ لیں تو ایک بات بہت نمایاں نظر آتی ہے کہ تبدیلی کا عمل چند سالوں میں بہت زیادہ سفر طے کرچکا ہے۔ شاید یہ ہماری کوتاہ اندیشی ہے یا حالات کی ستم ظریفی کہ تبدیلی کا یہ سفر کوئی زیادہ خوشگوار نہیں رہا۔ ہمارے معاشرے میں تبدیلی کا یہ عمل، عمل معکوس کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ آگے بڑھنے کی بجانے ہم غاروں کے دور میں واپس جارہے ہیں۔ کیا چند برسوں قبل ہم اس قدر متشدد تھے جتنے اب ہیں؟
رواداری ہماری نمایاں وصف ہواکرتی تھی۔ اختلافی مسائل تب بھی زیر بحث ہوتے تھے لیکن عبادت گاہوں کی چار دیواری کے اندر۔ لوگ میل جول بہرحال ترک نہیں کرتے تھے یعنی ترک تعلقات کی نوبت نہیں آتی تھی۔ پھر انٹرنیٹ نے ہر شخص کو کمانے کے مواقع فراہم کرنا شروع کردیئے۔ یوٹیوب پر چینلز سے ڈالروں میں کمائی ہونے لگی۔ اس بہتی گنگا سے بہت سارے لوگوں نے ہاتھ دھونے بلکہ پورا اشنان کرنے کا فیصلہ کیا اور ان اختلافی معاملات کو موضوع بحث بناکر خوب کمائی کی اور کررہے ہیں۔ نقصان کیا ہوا؟ نقصان یہ ہوا کہ ہر شخص کو دوسری فقہ والا شخص کافر اور ظالم لگنے لگا۔
تنگ نظری اور گھٹن بڑھی اور تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کفر کا فتویٰ لگانا تو اب ہر شخص کا خودساختہ حق بن چکا ہے۔ یہی المیہ سیاست کے ساتھ ہوا۔ گو کہ ہمارے سیاستدان اپنے سیاسی مخالفین پر ہمیشہ الزام تراشی کرتے آئے ہیں لیکن اب تو باقاعدہ نفرت کی سیاست ہونے لگی ہے۔ حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفیکٹ بنٹنے لگے ہیں۔ سیاسی مخالفیں کو اٹھا لینا، اغوا کر لینا، دشمن ملک کا باقاعدہ ایجنٹ قرار دینا اب تو معمول کی بات بن چکی ہے۔ یہ نفرت پورے معاشرے میں سرایت کرچکی ہے۔ سیاستدانوں کے طفیل اب عام لوگ بھی ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ جہاں بیٹھتے ہیں، اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں پر تبرے بھیجنا شروع کردیتے ہیں۔ آپس میں لایعنی بحث شروع کردیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ منفی تبدیلی جو رونما ہوئی ہے وہ لوگوں کو حق گویائی سے محروم کردینا ہے۔ راقم کا اشارہ بولنے کی اجازت نہ دینے کی طرف ہے۔ اس سے زیادہ ظلم اور کوئی نہیں کہ لوگوں کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع نہ دیا جائے۔ بولنے سے دل کا غبار ہلکا ہوجاتا ہے۔ اگر آپ کا اقتدار اتنا کمزور ہے کہ لوگوں کے بولنے سے ڈگمکا جائے گا تو پھر آپ کو اس ناقال اعتبار اور کمزر اقتدار کو فی الفور چھوڑ دینا چاہے۔
ہمیں یاد ہے کہ ایک مشہور عالم (جو اس وقت غالباً طالبعلم تھے) نے اپنے وقت کے بہت بڑے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے سامنے بھری بزم میں اس پر تنقید کے تیر چلا دیے تھے لیکن مشرف حکومت نے ان ریمارکس کو برداشت کیا۔ آج کے صاحب اقتدار لوگوں میں عوام کی آواز سننے کا حوصلہ نہیں رہا۔ غداری اور ملک دشمنی کا ٹھپہ فوراً لگ جاتا ہے۔
خدارا! لوگوں سے بولنے کا حق تو نہ چھینیں۔ انھیں بولنے دیں تاکہ ان کی بھڑاس نکلتی رہے ورنہ وہ لاوا بن کر کسی دن سب کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گی۔ آپ کی خامیوں کی نشاندہی کرنے والے سے زیادہ آپ سے مخلص کوئی نہیں ہوتا۔ خوشامدی ٹولہ حالات بدلتے ہی آنکھیں پھیر لیتا ہے اور بعض اوقات آپ کے خلاف ہی سلطانی گواہ بن جاتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہمارے صاحب اقتدار طبقے کی سمجھ میں نہیں آتی۔
بہرحال ہمارا معاشرہ بھی بہت بڑی تبدیلی سے گزررہا ہے۔ آج سے چند برس بعد جب اس تبدیلی کے ثمرات آنے لگیں گے تو نجانے ہمارے معاشرے کی کیا اٹھان ہوگی! نجانے آج سے چالیس پچاس سال بعد والی نسل کو اپنا وقت بھلا لگے گا یا یہ والا جو ہم گزاررہے ہیں۔