Mera Kya Qasoor Hai?
میرا کیا قصور ہے؟
جلسے جلوسوں، دھرنوں، لانگ مارچوں، الزامات، سازشوں اور عدم اعتماد کی قراردادوں اور غداری کے سرٹیفکیٹس اس ساری دھینگا مشتی میں اگر کسی کا نقصان ہو رہا ہے تو وہ نہ تحریک انصاف ہے، نہ مسلم لیگ ہے اور ناں ہی پیپلز پارٹی۔ رگڑا اس سارے کھیل میں ملک اور اس کی معیشت اور 75 سال سے پستے اس ملک کے عوام کو لگ رہا ہے۔
سیاسی جماعتوں کا کیا ہے کہ اپوزیشن میں رہ کر وہ حکومت کو کام نہیں کرنے دیتیں اور حکومت میں آ کر وہ خود کام نہیں کرتیں۔ باریاں لگی ہیں۔ پہلے اس کھیل میں دو جماعتیں تھیں۔ کچھ سالوں سے تیسری کی انٹری بھی ہو گئی ہے۔ کل تک جو چور تھے آج وہ حکمران ہیں۔ جو ایک صفحے پر تھے وہ اس کے پھٹنے پر رنجیدہ ہیں۔ جن کے بغیر کوئی چوائس نہ تھی وہ سڑکوں پر ہیں۔ پورا ملک ان کے نزدیک غدار ہے۔
وہ جن کو نیوٹرل ہونا چاہیے، نیوٹرل ہو چکے مسئلہ لیکن یہ ہے کہ آج بھی ان کو نہیں بخشا جا رہا۔ المیہ یہ ہے کہ اقتدار سے نکلتے ہی ہمارا ہر لیڈر انقلابی بن جاتا ہے۔ اس میں نیلسن منڈیلا اور ماؤزے تنگ جاگ جاتا ہے۔ اقتدار جب اس کو سونپ دیا جاتا ہے تو اس کے نظریات کہیں دفن ہو جاتے ہیں۔ پھر اس کو ووٹ کو عزت دینا بھی بھول جاتا ہے۔ پھر وہ ڈاکوؤں اور چوروں کو بھی ساتھ ملا لیتا ہے۔
اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہے کہ ہر کوئی اس کو پانے کے لیے ہر تھوکا چاٹنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ اخلاقیات کی تو بات ہی چھوڑیں۔ ہماری سیاست میں اخلاقیات کی بات کرنا ہی خود اس لفظ کی توہین ہے۔ کہ یہاں روز سمجھوتے ہوتے ہیں۔ پھر اس کو یوٹرن کہہ کر لیڈر شپ کی نشانی قرار دیا جاتا ہے یا وقت کے تقاضے کا نام دیا جاتا ہے۔
کسی قومی لیڈر کی اس سے ذیادہ توہین نہیں ہو سکتی کہ اس کو اسی کے پرانے بیانات کا حوالہ دیا جائے یا کوئی دو کلپ چلا دیے جائیں۔ وہ دو منٹ میں آپ کے گلے پڑنے کو تیار ہوگا۔ المیہ تو یہ ہے کہ اپنے موجودہ کرتوتوں کو اپنے سابقہ "نظریات" کے مخالف پا کر وہ شرمندہ نہیں ہو گا بلکہ آپ جانبدار ہوں گے۔ یا تو آپ شو کی ریٹنگ بڑھانا چاہتے ہیں یا آپ کو لفافہ ملا ہوا ہے۔
اس ساری دھینگا مشتی میں اب ملک کو بھی تو چلنا ہے ناں کہ اس کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں۔ تو کیوں ناں چند باتوں پر اتفاق کر لیا جائے۔ مسئلہ مگر سیاسی میچوریٹی کا ہے۔ ورنہ میثاق معیشت کی جو پیشکش آئی تھی اسے قبول کرنے میں فائدہ ہی تھا۔ سیاست اگرچہ بات چیت اور مسائل کو فہم و فراست سے حل کرنے کا نام ہے۔ ہمارے ملک میں اس کو مگر دھوکے بازی، جھوٹ اور فریب کا مترادف مانا جاتا ہے۔ معیشت پر سیاست نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔
موجودہ وزیراعظم ماضی میں اس ارادے کا اظہار کر چکے۔ اب بات آگے بڑھانے کے لیے ابتدا بھی ان کو کرنی چاہیے کہ ان کے ساتھ اقتدار میں اکثر جماعتیں شریک ہیں۔ سابقہ حکمراں جماعت کو مگر اس سے باہر نکالنا ٹھیک نہیں کیونکہ وہ اب اس ملک کی سیاسی حقیقت بن چکی ہے۔ ان کو بھی میچوریٹی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ورنہ دوسری صورت میں اس ملک کا چلنا ممکن نہیں۔ اگر پاپولر بیانیہ ہی بنانا ہے تو خدانخواستہ کیا ہو گا اس ملک کا، کچھ پتا نہیں۔
عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتوں کا مسلسل بڑھنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ قیمتیں منجمد کرنے سے ہر ماہ حکومت تقریباً 600 ارب کا نقصان کر رہی ہے مگر مجبوری ہے کہ عوامی غضب کا سامنا کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ آنے والی ہر حکومت گزشتہ حکومت کے سارے منصوبوں کو یا تو روک دیتی ہے یا ان میں کرپشن کا الزام لگاتی ہے۔ کریڈٹ لینے کا چکر اتنا بڑھ چکا ہے کہ طویل مدتی منصوبہ بندی اس ملک میں رہ ہی نہیں گئی۔ ہر کوئی پانچ سالوں کو دیکھتا ہے۔ ترقی کے لیے مگر لانگ ٹرم پلین ضروری ہوتا ہے۔ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی نہیں چلنے والی۔
ہر حکومت آنے والی کے لیے بارودی سرنگیں بچھا کر جاتی ہے۔ اپوزیشن میں رہ کر آئی ایم ایف پر تنقید ہوتی ہے مگر دور اقتدار میں اسی کو مسیحا ثابت کیا جاتا ہے۔ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی خسارہ ہمارے سر پر کھڑا ہے۔ امیدیں ایک بار پھر دوست ممالک سے ہیں کہ وہ آ کر اس گھڑے سے نکالیں گے۔ یہی ہوتا رہے گا اگر اہل سیاست دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ سیاست کے بھی کچھ پیرامیٹرز طے کر لیے جائیں کہ بس! اس سے آگے نہیں۔ یہ وقت ہے اپنی ذات اور اقتدار کی سوچ سے باہر آ کر کچھ ملک کے لیے سوچنے کا۔ کچھ پاکستان کے لیے۔ ورنہ ہم یوں ہی دنیا بھر میں کشکول لے کر پھرتے رہیں گے۔
خدارا معیشت کے معاملے میں عوام کو گمراہ نہ کیا جائے۔ ورنہ اس ملک کا ہر آدمی پوچھے گا کہ تم تو باریاں لے رہے ہو مگر میرا کیا قصور ہے؟ یہ ملک سوال کرے گا۔ 75 سال سے مجھے تختہ مشق بنا رکھا ہے میرا کیا قصور ہے؟