Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Wo Jo Chaha Na Gaya (2)

Wo Jo Chaha Na Gaya (2)

وہ جو چاہا نہ گیا (2)

ونسنٹ کی روش سے آزردہ تھیو نے بد دل ہو کر بھائی کو اس کے حالوں پہ چھوڑ دیا اور اس کی مالی معاونت سے مکمل طور پر دست کش ہوا۔ مالی پریشانیاں، تھیو کی جدائی اور ماں باپ کی خفگی، یہ تمام باتیں ونسنٹ کے شکستہ اعصاب سہار نہ سکے اور وہ منتشر و بے حال داخلِ ہسپتال ہوا۔ وہاں عرصے تک علاج چلتا رہا۔ اپنے ہمدرد ڈاکڑ سے متاثر ہوکر ونسنٹ نے اس کا پورٹریٹ بھی پینٹ کیا۔ وہ جب ہسپتال سے لوٹا تو شکستہ دلی و درماندگی اور زندگی کی سفاک حقیقتیں اسے اپنی محبت سے منحرف کر چکی تھیں۔ ونسنٹ کی قطع تعلقی سے مجبور ہو کر بے بس مریا نے اپنی بیٹی اور نومولود بیٹے کو اپنی ماں اور بھائی کے حوالے کیا اور دوبارہ واپس اپنی بدی کی پرانی دنیا میں لوٹ گئی۔

بکھرا و شکستہ ونسنٹ گھر لوٹا، اب اس کے دوروں میں شدت آ چکی تھی۔ اسے ہیولے نظر آتے اور آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ وہ آوازیں جو اسے کسی کل سکون نہ لینے دیتی۔ طبیعت کی خرابی اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب ونسنٹ انتہائی لاغر ہو چکا تھا۔ اس کی خوراک برائے نام تھی پر سگریٹ اور شراب، دونوں اس کے دائمی اور اٹوٹ ساتھی بن چکے تھے۔

وہ 1884 کا ٹھنڈا یخ جاڑا تھا جب ونسنٹ کی پڑوسن جو بیوہ اور صاحب اولاد تھی اور ونسنٹ سے عمر میں دس برس بڑی بھی۔ اس نے ٹوٹے بکھرے ونسنٹ کے لیے اپنی آغوشِ محبت وا کی اور محبت کے لیے ترستے بلکتے ونسنٹ نے جھجھکتے ہوئے اس کی محبت قبول کر لی۔ ونسنٹ کی بد قسمتی کہ محبت کی لکیر سرے سے اس کے ہاتھوں میں تھی ہی نہیں۔ اس کا نامراد کا کاسہء دل سدا محبت سے خالی ہی رہا۔ وہ حرماں نصیب محبت کے لیے بلکتا، ترستا اور رستا ہی رہا پر یہ سیرابی و شادابی اس کے مقدر میں نہیں تھی۔ ونسنٹ اور اس کی پڑوسن، دونوں کے والدین اس رشتے پر راضی نہ تھے۔ والدین کے انکار سے دل برداشتہ پڑوسن نے خودکشی کر لی اور بڑی مشکلوں سے ونسنٹ اسے بروقت قصبے کے ہسپتال میں پہنچانے میں کامیاب ہوا۔

یہ ونسنٹ کی آخری محبت تھی۔ اب اس کے ویران محرومِ تمنا دل اور کھوکھلے جسم میں محبت کو بسانے یا سہارنے کی مزید طاقت نہ تھی۔ وہ اب مکمل طور پر بجھ چکا تھا، ٹوٹ چکا تھا اور اس نے تھک کر اپنے نصیب کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ انہی گھور اندھیر دنوں میں تھیو پھر اپنے چہیتے بھائی اور دوست کے سہارے کو آگے آیا اور ونسنٹ کی دل و جان سے تیمارداری کی۔ تھیو جو خود بھی آرٹ ڈیلر تھا اور آرٹ کی باریکیوں سے واقف بھی مگر وہ بھی ونسنٹ کی تصاویر کی فروخت پر قدرت نہ رکھتا کہ ونسنٹ کی تصویریں بہت ہی پھیک اور بے جان رنگوں پر مشتمل ہوتی تھیں۔

1886 میں ونسنٹ پیرس چلا آیا اور 1887 کے موسم سرما میں اس کی ملاقات گوگئن Gauguin سے ہوئی اور جلد ہی دونوں بہت اچھے دوست بن گئے۔ ونسنٹ پر گوگئن کی ہمراہی نے خوش گوار اثرات مرتب کیے اور اب ونسنٹ اپنی تصاویر میں تیز پیلے رنگ، کوبالٹ بلو اور الماسی سبز رنگ کا استمال کرنے لگا تھا۔ اس خوش آئند تبدیلی کے باعث تھیو اس کی تصاویر کی ایک سولو کامیاب نمائش کرانے پر قادر ہوا۔ اس نمائش میں ونسنٹ کی زیتون کے درخت، گندم کے کھیت اور سورج مکھی کے پھولوں کی سیریز شامل تھی۔ ان تمام کامیابیوں کے باوجود ونسنٹ کی صحت کثرت شراب نوشی کے باعث تیزی سے روبہ زوال تھی۔ اس کی بھوک بالکل ختم ہو چکی تھی اور کثرتِ مے کشی اور سگریٹ کے مسلسل کش اس کا حلیہ بگاڑ چکے تھے۔

اس کے دوروں میں شدت آ چکی تھی اور ہیلوسینیشن نے اسے تقریباً باولا کر دیا تھا۔ شہر کے لوگ نہ صرف اس سے دور دور رہتے بلکہ اب اسے برملا پاگل بھی پکارتے تھے۔ ونسنٹ کی ذہنی ابتری، اس کے اور گوگئن کی دوستی پر بھی اثر انداز ہوئی۔ ان دونوں کے تعلقات میں دراڑ پڑ چکی تھی۔ ونسنٹ اکثر گوگئن سے قرض لیتا رہتا تھا۔ روپیہ دونوں دوستوں کے درمیان وجہ تنازعہ بنا اور تئیس دسمبر 1888کی سرد شام قرضے کی واپسی کا تقاضا اتنا بڑھا کہ جھگڑے کی شدت میں ونسنٹ نے برافروختگی کے عالم میں استرے سے اپنے بائیں کان کی لو کاٹ کر گوگئن کے آگے یہ کہتے ہوئے پھینک دی کہ، "لو اسے بیچ کر اپنا قرض چکتا کرو"۔

ونسنٹ کے اس عمل پر گوگئن بکتا جھکتا سڑھیاں اتر گیا تو زخمی ونسنٹ نے خود ہی اپنے کان کی مرہم پٹی کی اور خون سے تر بتر وہ کان، کاغذ میں لپیٹ کر اپنی اور گوگئن کی مشترکہ داشتا کو دے آیا۔ اگلی صبح، پولیس اہلکار کو بے ہوش ونسنٹ سڑک کنارے ملا، جس نے اُسے ہسپتال میں داخل کروا دیا۔ ونسنٹ کی طبیعت اب بہت بگڑ چکی تھی۔ گوگئن اور ونسنٹ کے رشتے کے خاتمے نے دل برداشتہ گوگئن کو شہرِ یار ہی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

ان تمام صورتحال نے ونسنٹ کے اعصاب پر بہت برا اثر ڈالا اور اس کی حالت اتنی نازک ہوئی کہ اسے سینٹ پال نفسیاتی ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ 1888 سے 1890 ان دو سالوں میں ونسنٹ کا زیادہ تر وقت اسی پاگل خانے میں گزرا۔ اس پاگل خانے میں ونسنٹ کو محدود نقل و حرکت کی آزادی میسر تھی۔ اپنی کوٹھری کی ایک کھڑکی کو اس نے اپنا اسٹوڈیو بنا لیا تھا۔ مقامِ حیرت کہ ونسنٹ کی معرکۃ الآرا پینٹنگز انہی دو سالوں میں تخلیق ہوئیں۔

مضطرب و مضروب ونسنٹ اب اپنی حیاتِ لاحاصل سے تھک چکا تھا اور سرابِ محبت کی آبلہ پائی اسے ریزہ ریزہ کر چکی تھی۔ بے مراد زندگی کا مزید بوجھ ڈھونے کی نہ تو اس میں سکت تھی اور نہ ہی آرزو۔

کون جینے کے لیے مرتا رہے

لو سنبھالو اپنی دنیا ہم چلے

ستائیس جولائی 1890 کی گرم زرد دوپہر کو ونسنٹ نے کھیت کے وسط میں کھڑے ہو جھلستی فضا کو اپنی تھکی افسردہ آنکھوں سے اپنی ناشاد روح میں اتارا اور ایک گہری سانس بھرتے ہوئے ریوالور کی نالی اپنے دھڑکتے دل پر رکھ کر لبلبی دبا دی، پر ہاتھ کانپا اور گولی پسلی سے ٹکرا کر دل کو چھوتی ہوئی ریڑھ کی ہڈی کے قریب دھنس گئی۔ زخمی ونسنٹ خون میں تر بتر لڑکھڑاتا ہوا خود ہی ہسپتال پہنچا۔ ڈیوٹی پر موجود دونوں ڈاکٹروں سے جو بن پڑا انہوں نے کیا مگر سرجن کی غیر موجودگی کے باعث وہ گولی نکالنے پر قادر نہ تھے۔

تھیو حادثے کی خبر پاتے ہی ہسپتال دوڑا اور زخمی بھائی کی تیمارداری میں جی جان سے لگ گیا۔ ونسنٹ کا خون بے طرح بہہ چکا تھا پر وہ خطرے سے باہر تھا۔ تیس جولائی کی صبح ونسنٹ کی طبیعت قدرے بحال تھی اور وہ ہسپتال میں اپنے بستر پر بیٹھا پائپ کے کش لیتے ہوئے کھلی کھڑکی سے فطرت کا نظارہ کر رہا تھا۔ تھیو اس کی طرف سے قدرے اطمینان محسوس کرتے ہوئے کچھ ضروری کام نپٹانے کے غرض سے باہر چلا گیا۔ اجل نے موقع غنیمت جانا اور لپک کر تنہا و بے بس ونسنٹ کو جس کی عمر محض سینتیس سال تھی دبوچ لیا۔

یوں آرٹ کی دنیا کا روشن ستارہ بجھ گیا۔

***

یہ درد انگیز بیتی دنیا کے مشہور و معروف ترین ولینذری ما بعد تاثریتی آرٹسٹ "ونسنٹ ولیم وین گوخ" کی ہے۔

ونسنٹ کی زندگی میں اس کے کام کو بہت کم سراہا گیا اور اس کی اصل شہرت کا آغاز اس کی موت کے بعد اس وقت ہوا جب تھیو کی بیوی نے ونسنٹ اور تھیو کے خطوط جو وہ ایک دوسرے کو اکثر لکھتے رہتے تھے، شائع کروائے۔ ان خطوط کی روشنی میں آرٹ کے ناقدین نے ونسنٹ کے خیالات کو جانا اور اس کی سوچ کے زاویوں کو پرکھا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں دنیا نے اس ذہین مصور کو پہچانا جس کی اپنے جیتے جی بڑی ناقدری ہوئی تھی۔

ونسنٹ نے اپنی دس سالہ فنٌی زندگی میں دو ہزار سے زائد فن پارے تخلیق کیے، جن میں 900 تصاویر اور 1100 خاکے تھے۔

ونسنٹ سیلفی بنانے والا پہلا آرٹسٹ تھا اور اس کا سیلف پورٹریٹ 1998 میں سات کروڑ پندرہ لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا۔ دنیا کی تیس بہترین اور قیمتی ترین تصاویر میں سے چار تصاویر ونسنٹ کی ہیں۔ اس کی پینٹنگ "اسٹاری نائٹ"جسے اس نے پاگل خانے میں رہتے ہوئے اپنی کوٹھری میں تخلیق کیا اسے دنیا میں"مونا لیزا" کے بعد سب سے زیادہ مقبول فن پارہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ سو ملین ڈالر کی یہ قیمتی و نایاب پینٹنگ نیویارک کے ماڈرن آرٹ میوزیم کی شان ہے۔

ونسنٹ ولیم وان گوخ کے آخری الفاظ جو شاید حتمی سچ بھی

"اداسی ابدی ہے"

Check Also

Itna Na Apne Jaame Se Bahir Nikal Ke Chal

By Prof. Riffat Mazhar