Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Wo Jo Chaha Na Gaya (1)

Wo Jo Chaha Na Gaya (1)

وہ جو چاہا نہ گیا (1)

آج سے تقریباً پونے دو صدی قبل یعنی 1853میں پن چکیوں اور ٹیولپ کے دیس میں ایک بچے نے آنکھیں کھولیں۔ تب بہار اپنے جوبن پر تھی اور فضا پھولوں کی خوشبو سے بوجھل محسوس ہوتی۔ مارچ کا چمکیلا سورج اپنی مہربان کرنیں چار سو پھیلائے خوشیاں بکھیر رہا تھا جب ایک مشنری سے وابستہ صاحبِ علم و فضل کے گھر ان کی پہلی اولاد نے آنکھیں کھولیں۔

نہیں ٹھہریے! وہ پہلی اولاد نہ تھا کہ ٹھیک ایک برس قبل اسی جوڑے گھر ایک بچے کی ولادت ہوئی تھی پر اس آنے والے بچے کو دنیا نہ بھائی سو وہ چند سانسیں ہی بھر کر یہ دنیا چھوڑ گیا۔ ماں باپ نے بڑی چاہ سے اُس بچے کا نام ونسنٹ رکھا تھا۔ غم زدہ جوڑے کے لیے اِس بچے کی ولادت جہاں بہت بڑی خوشی تھی وہیں دل کے ایک کونے میں پھر سے بچھڑنے کے خوف کا سانپ بھی کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔ انہیں خوشی کے ساتھ ساتھ انہونی کا اندیشہ و دھڑکہ بھی تھا۔ اس بچے کا نام بھی انہوں نے اس کے مرحوم بڑے بھائی اور دادا کے نام پر "ونسنٹ" ہی رکھا۔ اس بچے کی ہمراہی کے لیے سال، سال کے فرق سے مزید تین بھائی اور تین بہنیں والدین کے پیار میں حصہ بٹانے دنیا میں آن وارد ہوئے۔

باپ چرچ سے وابستہ تھے اور شہر کے معززین میں شمار کیے جاتے۔ گو کہ تنخواہ واجبی مگر چرچ کی طرف سے سہولتیں بےشمار۔ اوسط سے بہتر گھر، گھوڑے مع بگھی، باورچی، انٌا، دو خادمائیں اور مالی کی سہولت موجود تھی۔ ماں بھی ملازم پیشہ سو گھر کا انتظام و انصرام انٌا کے ہاتھوں میں تھا۔ سب بچے انٌا ہی کے ہاتھوں پلے، پر ونسنٹ سے انٌا کو خصوصی لگاؤ تھا۔

ونسنٹ اپنی ذات میں گم، بے حد کم گو، تنہائی پسند اور شرمیلا بچہ تھا۔ گھر کا ماحول کٹر عیسائی اور اماں شدت سے نظم و ضبط کی پابند بھی لہذا بچوں کو عام لوگوں میں گھلنے ملنے کی سختی سے ممانعت۔ ابتدائی تعلیم اماں اور انٌا نے گھر پر کی پھر قریبی اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ اماں نے ونسنٹ کو رنگدار پنسلوں کو برتنا سکھایا اور یوں اس کی تنہائی کو دوسرا ہٹ میسر آ گئی۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اس کی اپنے منجھلے بھائی تھیو اور مصوری سے دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔

یکایک زندگی نے کروٹ بدلی اور گیارہ سال کی عمر میں والدین نے اسے بورڈنگ اسکول میں داخل کر دیا۔ وہاں تنہائی اور بےزاری اُس پر اِس شدت سے حملہ آور ہوئی کہ اگلے ہی برس وہ دوبارہ کبھی بھی ہوسٹل واپس نہ جانے کے لیے گھر لوٹ آیا۔ اب اس کا داخلہ قریبی قصبے کے مڈل اسکول میں کروا گیا مگر پھر ونسنٹ کی چپ کے بن سے واپسی نہ ہوئی۔ طرفہ دکھ کہ اب وہ مصوری سے بھی روٹھ چکا تھا۔ اس کی بےکاری اور غیر عمل پسندی باپ کو سخت تاؤ دلاتی اور وہ برملا اسے سب کے سامنے اسے جھاڑ پلا دیتا۔ باپ کا ناروا رویہ ونسنٹ کو مزید تنہا کرتا چلا گیا۔ ان دنوں اس کا واحد مشغلہ میدانوں اور ویرانوں میں بے مقصد چکراتے پھرنا تھا۔

اِسی سرد گرم میں وہ اسکول سے فارغ ہوا، ابھی ونسنٹ نے آگے کا لائحہ عمل طے بھی نہ کیا تھا کہ چچا نے اسے لندن بلا کر آرٹ ڈیلر شپ کے کورس میں داخل کروا دیا۔ آرٹ ڈیلر شپ ان کا خاندانی پیشہ بھی کہ لکڑ دادا کے وقت سے سب اِسی پیشے سے منسلک تھے۔ ونسنٹ کے پانچوں چچا آرٹ ڈیلر تھے۔

تین سال کی سخت ترین ٹریننگ کے بعد اس نے کامیابی سے آرٹ ڈیلنگ کے پیشے میں قدم رکھا اور اس سلسلے میں دور و نزدیک کا سفر اختیار کیا۔ لندن میں وہ بہت خوش تھا کہ کمائی بھی اچھی اور ماحول بھی سازگار۔ ابھی پیشہ ورانہ زندگی کی شروعات ہی تھی کہ ونسنٹ کیوپڈ کے تیر سے گھائل ہوگیا۔ وہ اپنے مالکِ مکان کی کم سن طرحدار دختر کے زلف گرہ گیر کا اسیر ہوا۔ سادہ لوح ونسنٹ زمانے کے چھل پیچ سے نا آشنا اپنی محبوبہ کے عشوہ و ناز سے نیم جاں و بسمل تھا۔ اب اس کا کیا اپائے کہ بد قسمتی کا داؤ چل چکا تھا۔

شاطر حسینہ نے جی بھر کر ونسنٹ سے کھیلا، رچ کے اس کی سادگی کا فائدہ اٹھایا اور طبیعت اوب جانے پر اسے کسی پرانے کھلونے کی طرح کونے میں ڈال کر بھول گئی۔ وہ اس لڑکی کے لیے محض اسٹپنی تھا کہ اپنے پرانے عاشق کے لوٹتے ہی اُس مشاق حسینہ دلربا نے ونسنٹ سے نگاہیں پھیر لی۔ ونسنٹ کا معصوم دل اپنی پہلی پہلی محبت کی تذلیل اور دھوکہ سہار نہ سکا۔ اپنے ٹھکرائے جانے کی ہزیمت اور بے وفائی و جگ ہنسائی کا یہ جانکاہ صدمہ اس کے لیے نا قابل برداشت تھا۔ وہ جینے سے بے زار ہوا اور اپنا سامان باندھ کر لندن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا۔

گھر پہنچ کر ماں کی مہربان قربت اور انّا کی گرم جوش محبت کے صدقے جب ذرا گھائل دل شانت ہوا تو اس نے قصبے کے کتب فروش کے یہاں ملازمت اختیار کر لی۔ اس کا مضروب دل دنیا سے اچاٹ ہو چکا تھا اور مداوا ٹھہرا قریبی ویرانہ اور تنہائی۔ کام کے بعد اس کا بیشتر وقت ویرانوں کی سیر میں گزرتا۔ دن بہ دن ونسنٹ کی آدم بیزاری اور مذہب سے رغبت بڑھتی چلی گئی۔

بائیبل سے انسیت کا یہ عالم ہوا کہ وہ بائبل کا ترجمہ بیک وقت انگریزی، فرانسیسی اور جرمنی میں کرنے لگا۔ اس کی نیند روٹھ چکی تھی اور بھوک برائے نام ہی رہ گئی تھی۔ مذہبی شدت پسندی میں اس نے گوشت خوری سے مکمل طور پر اجتناب کر لیا تھا۔ باپ، ونسنٹ کی اس ابتری سے سخت برگشتہ تھا اور ایک دن عالم طیش میں اُس نے اعلان کر دیا کہ ونسنٹ کی جگہ گھر نہیں بلکہ پاگل خانہ ہے۔ یہ بات ونسنٹ کے زخمی دل پر تیر کی طرح لگی اور وہ باپ کا گھر چھوڑ کر اپنے چھوٹے بھائی تھیو کے پاس چلا آیا۔

تھیو دنیا کا وہ واحد شخص تھا جو ونسنٹ سے غیر مشروط محبت کرتا اور اسے سمجھتا تھا۔ تھیو نے اپنے بڑے بھائی دلداری میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا اور بڑی دقتوں سے اسے دوبارہ زندگی کی طرف راغب کیا۔ اس عرصے میں ونسنٹ نے پریسٹ بننے کی بھر پور کوشش کی مگر ناکام رہا۔ تھیو سے ونسنٹ پہروں آرٹ پر باتیں کیا کرتا تھا، بالآخر تھیو کے پر زور اصرار پر 1880 میں اس نے آرٹ اسکول میں داخلہ لے لیا۔ پر کالج میں بھی اس کی تعلیمی سرگرمی مخدوش ہی رہی کہ کبھی استاد کی حکم عدولی تو کبھی ہم جماعت سے چپقلش۔ استاد کے بتائے گئے اصول سے انحراف و اختلاف پر ونسنٹ آرٹ اسکول سے نکالا گیا۔

کرسمس کی چھٹیاں آئیں تو دل برداشتہ ونسنٹ کو ماں کی محبت گھر کھینچ لائی۔ انہیں دنوں ونسنٹ کی کزن "کورنیلا کی" جو تازہ تازہ بیوہ ہوئی تھی، تبدیلی ماحول کے لیے اپنے آٹھ سالہ بیٹے کے ہمراہ ونسنٹ کے گھر مہمان تھی۔ نرم خو ونسنٹ اپنے سے سات سالہ بڑی کزن کی دلجوئی میں منہمک ہوا۔ اس کے ساتھ پہروں اپنی پسندیدہ گزرگاہ پر میلوں پیدل چلتا اور اس کی دلداری کرتا۔ ونسنٹ کے ٹوٹے پھوٹے دل نے دل جوئی کرتے کرتے کب آس کا چولا پہن لیا اسے خود بھی خبر نہ ہوئی۔ اپنی بیوہ کزن کے عشقِ بے ثمر میں وہ مزید نڈھال و پژمردہ ہوا۔ جانے یہ کیسی طلب تھی جو اسے محبت کی راہِ دشوار میں سرپٹ دوڑائے چلی جاتی تھی۔

سردی کی طویل چھٹیاں ختم ہونے پر ونسنٹ نے پیرس کے آرٹ اسکول میں داخلہ لے لیا۔ اب تک وہ اِسٹل اور مزدوروں کے خاکے بنا چکا تھا اور اس کے میڈیم چارکول اور واٹر کلر تھے۔ ونسنٹ کا سارا خرچ تھیو برداشت کرتا، یہاں تک کہ ونسنٹ کو ماڈل کی فراہمی بھی تھیو کی ذمہ داری تھی۔ چھٹیاں ہوئیں تو ونسنٹ پروانے کی طرح لپکتا ہوا اپنی شمعِ محبت، اپنی کزن کے در دولت ایمسٹرڈیم، جا پہنچا اور خلوص دل سے کورنیلا کی کے ساتھ کا طلب گار ہوا۔ یہاں ونسنٹ کی غربت آڑے آئی اور وہ بے دردی سے یہ کہہ کر ٹھکرایا گیا کہ بھائی کے ٹکڑوں پر پلنے والا بیوی کے خرچے و نخرے کیسے اٹھائے گا؟

شکستہ دل اور مجروح انا کے ساتھ ونسنٹ ناکام و نامراد پیرس واپس لوٹ آیا۔ شدتِ غم میں اس نے اپنے آپ کو شراب میں غرق کر دیا۔ شراب اپنا لازمہ یعنی شباب کے در تک اسے گھسیٹتی لے آئی اور ونسنٹ ایک پیشہ ور طوائف "مریا" کا سگِ در ہوا۔ اس وقت وہ طوائف حاملہ تھی اور ساتھ ہی ایک پانچ سالہ بیٹی کی ماں بھی۔ ونسنٹ جیسے تیسے سخت محنت کرتے ہوئے ان ماں بیٹی کا خرچا اٹھانے لگا کہ دوسراہٹ کا یہ سکھ اسے بے حد عزیز تھا۔ یہ خبر جب ونسنٹ کے باپ کے کانوں تک پہنچی تو وہ نہایت غضب ناک ہوا اور شدید غصے میں تھیو پر دباؤ ڈالا کہ وہ ونسنٹ کی مدد سے ہاتھ اٹھا لے۔ تھیو بھی ونسنٹ کو خاندانی وقار و مرتبے کا واسطہ دے دے کر تھک چکا تھا مگر ونسنٹ کسی صورت اس طوائف سے ترکِ تعلق پر آمادہ نہ تھا۔

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi