Sheher e Ashob (1)
شہر آشوب (1)
امی آج شاید مجھے اوور ٹائم کرنا پڑے کہ مہینے کی ستائیس تاریخ ہے اور کنسائنمنٹ جانے کی آخری تاریخ قریب تر۔ بےنظیر نے اپنی بےداغ کلائی پر گھڑی کے اسٹرپ کو کستے ہوئے، رات کی باسی روٹی تلتی ہوئی ماں کو اطلاع دی۔
مرتضیٰ کہاں ہے؟ اسے کالج کے لیے دیر نہیں ہوگئی آج؟
نہیں آج وہ کالج نہیں جائے گا، اسے بخار ہے۔ ماں نے پیڑھی پر بیٹھتی بے نظیر کو بتایا۔
ارے نہیں! کب سے!
بے نظیر نے بےقراری سے اٹھتے ہوئے کہا۔ تم بیٹھو اور جلدی جلدی ناشتا کرو۔ ابھی تمہاری فیکٹری کی ناس پیٹی بس، طبل بجاتی وارد ہو جائے گی اور روز کی طرح تمہارا ناشتا ادھورا رہ جائے گا۔ مرتضیٰ سو رہا ہے، اسے فجر کے وقت دوا دے دی تھی میں نے۔ ایک تو موا وائرل جان کو آ گیا ہے۔ جیسے دیکھو کھانس چھینک رہا ہے۔ موسم بدلے تو کھانسی جو نہ بدلے تو سُستی گویا چین کی کلی طور پر چھٹی۔
اف اماں! آپ کا بیٹا کیا ڈاکٹر بن رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ آپ بھی آدھی ڈاکٹر بن گئی ہیں۔ بے نظیر نے ہنستے ہوئے پلیٹ سنک میں رکھی اور ساتھ ہی بس کا گونج دار ہارن کان کے پردے پھاڑنے لگا۔
میرے ماں باپ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بڑی صعوبتیں سہتے، آگ کا دریا پار کرکے پاکستان پہنچے تھے۔ یہ لوگ رنگ پور کے رہائشی تھے اور بحثیت نئے شادی شدہ جوڑے، رنگارنگ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اندرونی سازش و شورش نے پاکستان کو دو لخت کیا۔ وہ بڑے ہولناک دن تھے۔ ان دنوں بربریت کی ایسی ایسی داستانیں رقم ہوئیں کہ سنائے نہ بنے اور جو سن لو تو پتھر کلیجہ بھی پانی ہو جائے۔
مشرقی پاکستان، محب وطن پاکستانیوں کے خون رنگی پدما میں ڈوبا اور دنیا کے نقشے پر لہو رنگ بنگلہ دیش نمودار ہوا۔ پر ملکوں کے اس مٹنے اور بننے میں لاکھوں اپنی جانوں سے گئے۔ عزتیں پامال ہوئیں، گھر بار جلا، کاروبار لٹا۔ جو بہتر حالات میں تھے وہ سو جتنوں سے مغربی پاکستان آنے میں کامیاب ہوئے۔ قریباً پانچ لاکھ مشرقی پاکستانی، نئی مملکت کے نا خداؤں کے ہاتھوں زندگی کی قید میں زندگی کا جبر سہنے پر مجبور ہوئے۔
اللہ بھلا کرے حضرت عیسٰیؑ کے پیروکاروں کا، انہوں نے بنگلہ دیش میں جگہ جگہ کیمپ کھول کر ان بدنصیبوں کو برائے نام ہی سہی مگر محفوظ زندگی دی۔ پہلے وہ بے وطن عرصے تک کھلے آسمانوں تلے، پھر چادر اور کمبل کے خیمے میں پھر ٹین کے چھت کے اٹھ بائی آٹھ کمرے میں پناہ گیر ہوئے۔ کیمپ کے حالات اتنے نا گفتہ بہ کے زندگی وہاں سے منہ چھپا کر بالا ہی بالا نکل جاتی ہے۔ جانوروں کے باڑے سے بد تر ان بے بسوں کی کھولیاں ہیں۔ اتنی غلیظ اور بدبو دار فضا کہ ناک پر رومال رکھنے کے باوجود آپ قے روکنے پر قادر نہ ہوں۔ ہماری دکھ و بےبسی کو زمین زادے محسوس کر ہی نہیں سکتے۔ وہ الم جو ایک بے وطن سہتا ہے۔ بھلا زمین زادے سفاک آسمان کی ستم ظریفی سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں؟
اپنے گھروں میں سکھ چین سے رہنے والوں کو کیمپ کی عبرت ناکی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتی۔ ممکن ہی نہیں کہ وہ یہ جان سکیں کہ گھنٹوں تپتی زمین پر قہر برساتے سورج کے نیچے بے انت قطار میں کھڑے پانی کا انتظار کیا معنی رکھتا ہے؟ اس پہ طرہ کہ وہ حاصل شدہ پانی ہمارے لیے آب حیات نہیں بلکہ تیزاب ہوتا ہے۔ کوئی یہ کیسے سمجھ سکتا ہے کہ جب اپنی ہی زمین جو زبردستی اجنبی بنا دی گئی ہو اس کی مانوس فضا میں سانس لینا جگر کو کیسے فگار کرتا ہے۔ بے زمینی و بے وطنی کا یہ جان لیوا دکھ، اس کا ادراک صرف وہی بد نصیب کر سکتا ہے جس نے یہ عذاب اپنے جسم و جاں پر جھیلا ہو۔
امی ابا بھی تقریباً اپنا دو تہائی خاندان گنوا کر، تین سال ان کیمپوں میں عبرت انگیز زندگی گزار کر سنہ پچھتر میں بد حال و نڈھال پاکستان پہنچے۔ یہاں مغربی پاکستان میں نئی آزمائشیں ان کی منتظر تھیں۔ سو جتن و کٹھنائیوں سے اورنگی ٹاؤن میں جھگی ڈال کر زندگی کا آغاز کیا۔ شکر کہ ابا رنگ پور میں سرکاری ملازم تھے اس لیے ڈیڑھ پونے دو سال دھکا کھانے کے بعد ادارہ شماریات میں بھرتی کر لیے گئے ورنہ اس سقوط کے سانحے نے کیسے کیسوں کو ایسا ویسا اور ایسے ویسوں کو کیسا کیسا کر دیا تھا۔
حالت یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کے لکھ پتی، ککھ پتی ہوکر نئے پاکستان میں رل رہے تھے اور کوئی انہیں پوچھتا نہ تھا۔ وہ بد نصیب چائے کی پتی مول لینے کے جوگے بھی نہ تھے۔ گو امی اور ابا پر وقت کا وار کاری تھا مگر انسان بھی ازلی ڈھیٹ۔ کیسے ہی برے حالات کیوں نہ ہو سروائو کر ہی جاتا ہے، زندہ رہنے کے سو بہانے آسرے ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے پرکھے کون سے مغل تاج دار شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی نسل سے تھے۔ پر جو سچ کہوں تو ہم شاہ کی نسل سے بہتر ہی رہے کہ وہ بیروت کی گلیوں میں بھیک مانگتے پھرتے تھے اور ہم یہاں کراچی کی سڑکوں پر پسینہ بہاتے رزق حلال کی جوکھم میں اپنی ہڈیاں گلاتے رہے۔
گرتے پڑتے ابا امی کی زندگیاں بھی چل نکلیں اور بالآخر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ زخم پر کھرنڈ آ ہی گیا۔ یہاں پاکستان میں خاندان کا سگا کوئی نہ تھا سو اڑوسی پڑوسی ہی ماں جائے ٹھہرے۔ ہم مشرقی پاکستانیوں میں سقوط کا غم و زخم تازہ تھا سو اس کرلاتے دکھ نے ہم مشرقی پاکستانیوں کو آپس میں باندھ رکھا تھا۔ یوں بھی یہاں کے بسے بسائے مغربی پاکستانی ہماری جانب کم ہی التفات برتتے کہ ان کا خیال تھا کہ ہم حرماں نصیب ان کے حق پر ڈاکا ڈال رہے ہیں۔ ان کی نوکریاں اور اسکولوں، کالجوں میں ان کے بچوں کی پوزیشنیں ہڑپ کر رہے ہیں۔
ہائے میرے اللہ! گویا مرے پہ سو درّے۔
اپنوں کے کرم ستم سہتے زندگی کی گاڑی گھسٹ رہی تھی کہ چھیاسی نے پھر سنہ اکہتر میں پہنچا دیا۔ بنگال میں سورش تھی، بغاوت تھی۔ نا انصافی نے دلوں میں دراڑ ڈال دی تھی پر یہاں کیا ہوا؟
چودہ دسمبر 1986 کا دن ہمارے بچپنے کو اپنے ساتھ لے کر ڈوبا۔ اورنگی قصبہ میں وہ آگ لگی اور ایسی خون ریزی ہوئی کہ بنگال کی بربریت اور بے پناہی یاد آ گئی۔ اماں نے سنہ اکہتر میں بنگال میں مکتی باہنی کے ظلم کے سبب یتیمی سہی تھی اور اپنے دونوں جوان بھائیوں کی گمشدگی سے ان کا داغ داغ سینہ فگار تھا۔ اب اسی پاک سر زمین پر پاک فوج کے ہوتے ہوئے بھی پٹھانوں کے قہر کے سبب بیوگی کے صدمے اٹھائے اور برسوں ڈار سے بچھڑی کونج کی طرح کرلاتی رہیں۔ پر کچھ بھی تو نہ ہوا۔ نہ کوئی سنوائی نہ دہائی اور نہ ہی انصاف۔ لٹیرے اور قاتل ہمھار آنکھوں کے سامنے دندناتے پھرتے ہیں اور زنگ آلود پیٹی میں پڑی ایف آئی آر کی نقل ہمارا منہ چڑھاتی ہے۔
جب قصبہ کالونی کے ہنگامے میں ابا یعنی شمس الدین شیخ کا قتل ہوا، پوری کی پوری سترہ گولیاں ابا کو چھلنی چھلنی کر گئی تھیں۔ اماں جو انہیں بچانے لپکی تو کلہاڑی کا وار اماں کی کمر چیرتا چلا گیا۔ تا خیر سے علاج کے سبب اماں کبڑی ہوگئی تھیں۔ شاید اماں کے سانحہ بنگلہ دیش کے سنائے ہوئے قصوں کی باز گشت ہی تھی جو گھر کی کواڑ کے ٹوٹتے ہی میں تیزی سے مرتضیٰ کو لیکر پچھلے کمرے میں پلنگ کے نیچے سرک گئی تھی۔ میں نے ایک ہاتھ سے مرتضیٰ کا منہ زور سے دبایا ہوا تھا اور اپنے ہونٹوں کو اتنی سختی سے بھینچا کہ میرے منہ میں اپنے ہی خون کا نمک گھل گیا۔ سانحہ قصبہ کے وقت میں اٹھ سال کی اور مرتضیٰ فقط پانچ سال کا تھا۔