Shabban Chacha (2)
شبن چچا (2)
صدف نے بڑے دکھ سے کہا کہ" لوگ کیسے اپنے ہی بچوں کے دل سے کھیل جاتے ہیں "؟ صدف نے بڑے دل گیر لہجے میں کہا۔ اس کی یہ بات دل میں ترازو ہو گئی، واقعی اتنے محبت کرنے والے ماں باپ جو ہر لمحے اپنے بچے کی خوشی چاہتے ہیں۔ ان کی چھوٹی سے چھوٹی فرمائش پورا کرنا اپنا نصب العین جانتے ہیں وہ اولاد کے دل کو کیونکر بلی چڑھا دیتے ہیں؟ عجب گورکھ دھندہ ہے یہ بھی۔ ہم سب گم سم سے ہو گئے۔ عزیزہ نے کہا چھوڑو سب قسمت کا گھپلا ہے۔ چلو لائبریری چلیں۔
میرا بڑا جی چاہتا ہے کہ میں محبت میں ناکام دلوں سے ملوں اور پوچھوں کہ" بنا دل کے جینا کیسا ہے"؟ لائبریری جاتے ہوئے چاچا کے سموسے بھی کھائے اور کمال بات کے ذائقہ بلکل وہی پر کیا کیجیے کہ اب معدہ وہ نہیں رہا تھا، بعد میں دو دن کھچڑی اور ایموڈیم پر گزرا کیا۔ ڈیپارٹمنٹ کی طرف واپس آتے ہوئے ہم سب کا دل بھاری تھا۔ کسی نے کتنا سچ کہا ہے کہ جہاں تم نے اچھا وقت گزارا ہو، وہاں واپس کبھی مت جاؤ کہ وہاں صرف پرچھائیاں ہوتی ہیں، ملال ہوتا ہے۔
دم واپسی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ہزار نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظر سڑک پار اس ڈیپارٹمنٹ پر پڑ گئی اور دل نے ایک بیٹ مس کر دی۔ صدف نے بھی عین اسی لمحے ادھر دیکھا اور میرا ہاتھ کھینچ کر گاڑی میں بیٹھا لیا۔ کیسے ہیں وہ؟ اس نے آزردگی سے پوچھا۔ زندہ ہیں! زندگی سے جنگ بدستور جاری ہے۔ آخر اس قصے کی حقیقت کیا تھی صباحت؟ فائنل کے فوراً بعد ہی تمہاری رخصتی ہو گئی تھی اور تم بوسٹن پرواز کر گئی تھیں۔ ادھر ادھر سے میں، کہانیاں تو سنتی رہی پر دل نہ مانا۔ پھر ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف تر ہوتے چلے گئے۔ ویسے بھی پرائے درد کب دل زخماتے ہیں۔ آج تو تم ان کی کہانی سنا ہی دو۔
ہاں! ابھی چار روز قبل ہی تو ان سے ملی ہوں میں۔ اب وہ واقعی کہانی بنے والے ہیں صدف۔ چراغ سحری ہیں۔ شبن چچا ابا جان کے رشتے کے ماموں جمال الدین کی چھٹی اولاد ہیں۔ تین بھائی اور تین بہنوں میں آخری اولاد " شہاب الدین"۔ گھر بھر میں سب سے مختلف، درد مند دل رکھنے والے، ہنس مکھ، ملنسار شبن چچا۔ جمال دادا کا اچھا چلتا ہوا کاروبار تھا اور وہ لوگ گلبرگ میں مزےدار حلیم کے بالمقابل تین منزلہ گھر"جمال الستان" میں سکونت پزیر تھے۔
شبن چچا کے منجھلے بھائی غیاث الدین اور ابا جان ہم عمر اور دوست تھے۔ ابا جان ان دنوں ثمن آباد میں 5c کے آخری اسٹاپ کے پاس رہتے تھے۔ پرانا وقت تھا، مروتوں بھرا زمانہ۔ آپس میں بہت اچھے تعلقات تھے۔ جب میں پیدا ہوئی تو ان دنوں شبن چچا بی۔ ایس۔ سی کے فائنل کے ایگزام کی تیاری میں مشغول تھے، بلکہ وہی اس رات ایمرجینسی میں، نواز چچا کی فورڈ میں امی کو لے کر ہسپتال بھاگے تھے۔ میں سدا کی جلد باز، گاڑی ہی میں پیدا ہو گئی تھی اور عرصے تک شبن چچا اس بات کو میری چڑ بنائے رہے۔
میں کوئی پانچ چھ سال کی تھی تو شبن چچا جرمنی چلے گئے تھے پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے، Berlin university Freieسے فزکس میں پی۔ ایچ۔ ڈی کی۔ ان کا پڑھائی کا ٹریک ریکارڈ ہمیشہ سے شاندار رہا تھا۔ شبن چچا فل اسکالر شپ پر جرمنی گئے تھے۔ یہ اپنے خاندان کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے بندے ہیں۔ وہیں ان کا دل اپنی کلاس فیلو" لینا مولر"پر آ گیا۔ ان کی خواہش لینا سے شادی کی تھی مگر دادی اور پھوپھیوں نے طوفان کھڑا کر دیا۔ یہ واپس پاکستان آنے سے انکاری ہو گئے۔ ضددم ضدی چلتی رہی۔ نہ یہ جھکے نہ دادی مانیں۔
دادی نے اپنی بیماری کا ڈھونگ رچایا اور وہ ماں کی محبت میں پاکستان لوٹ آئے، پھر وہی میلو ڈرامہ" دودھ نہ بخشنے اور میرا مرا منہ دیکھو " وغیرہ وغیرہ۔ اس ایموشنل بلیک میلنگ سے یہ زیر ہو گئے اور پھر یہیں کے ہو رہے اور کراچی یونیورسٹی جوائن کر لی۔ دادی اور پھوپھیوں نے شادی کے لئے بہترا زور لگایا مگر یہ اپنی "نہیں " پر ڈٹ گئے۔ ایک عالم ان پر مرتا تھا، بلکہ محلے کی کئی باجیوں کے خطوط کی کبوتر تو میں خود تھی۔ ان کے ناکام عشق نے ان کو رومیو بنا دیا تھا۔ ان کے سرد رویے سے باقی سب تو پیچھے ہٹ گئیں پر بلقیس باجی ثابت قدم رہیں۔
ہم لوگ جب بی۔ ایس۔ سی میں تھے تب بلقیس باجی نے، اپنی اماں کی قسما قسمی اور زہر کھانے کی دھمکی اور شاید اپنی بڑھتی عمر سے خائف ہو کر مجبوراً ایک رینڈوے سے شادی پر رضا مندی دی تھی۔ شبن چچا سرخے ہیں پر دہریہ نہیں۔ بخدا مجھے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی کہ وہ نماز روزہ کے پابند اور سب کے بہی خواہ و ہمدرد۔ ہاں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے سخت خلاف اور دولت کے گردش نہ کرنے سے سخت نالاں۔
دراصل شبن چچا بہت شریف آدمی ہیں۔ میں نے آج تک ان کو کسی سے تو تڑاخ کرتے نہیں سنا اور یہ محلے کے کمزور طبقے میں مشہور و معتبر۔ نچلے طبقے کے نہ صرف حماہتی بلکہ ان میں گھل مل جانے والے۔ بس امیروں سے ان کی کبھی نہیں بنی۔ یونیورسٹی میں طلباء میں مقبول اور ہر دل عزیز استاد، مگر اپنے ہم عصروں میں پسند نہیں کیے جاتے تھے۔ وجہ دو تھی۔ پہلی سماجی ناہمواری کے خلاف ان کا با آواز بلند معترض ہونا اور دوسرا پڑھانے میں نئی نئی اختراع کہ وہ لکیر کے فقیر نہیں تھے۔ جبکہ ان کے ساتھیوں میں بیشتر اساتذۂ اپنا وہی پرانا سنہ ساٹھ کا کورس دوہرائے جا رہے تھے۔
شبن چچا کے سرخے ہونے کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر ان کے خلاف استعمال کیا گیا۔ بخت کی خرابی کہو یا دل کی نادانی۔ اب دل نابکار کے آنے کا کوئی لگا بندھا فارمولا تو ہے نہیں۔ آنے پر مائل ہو تو کم رو بھی ابلا پری، اور نہیں تو اندرسبھا کی رانی بھی کانی۔ تمہیں یاد ہے نا صدف!! جب ہم لوگ فائنل میں آئے تھے تو ایک حسینہ، گل خنداں مینگل کوئٹہ سے مائیگریٹ ہو کر آئی تھی؟ پتہ نہیں اس کی نیلی آنکھوں کے اسیر ہوئے تھے یا مکافات عمل کا شکار۔
اس لڑکی کی نیلی آنکھوں اور بلونڈ بالوں پر تو آدھی یونیورسٹی دوسرے دن ہی فدا ہو گئی تھی، بھئی بڑی بولڈ لڑکی تھی۔ صدف نے آہستگی سے لقمہ دیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے صباحت کہ فائنل کے امتحانات سے کچھ دن پہلے، ہم دونوں محض اس قتالہ عالم کو قریب سے دیکھنے کے لیے شبن چچا کی کلاس میں جا کر بیٹھ گئے تھے کہ کچھ اڑتی اڑتی خبریں تھیں، شبن چچا اور گل خنداں کے سلسلے میں۔ بھئی کیا چیز تھی وہ بھی! بھری کلاس میں جب شبن چچا کلاس ختم کر کے نکل رہے تھے تو کس آرام سے کہ دیا تھا کہ Sir!! steel gray is made for you
اور شبن چچا کے کان بلکل سرخ ہو گئے تھے اور ہم سارے طلباء حق دق۔ تم نے ٹھیک کہا صدف، وہ واقعہ گویا تابوت کی آخری کیل ثابت ہوا، حالانکہ یونیورسٹی میں ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے بھی استاد اور شاگرد کی محبت کئی مثالیں موجود تھیں۔ مگر شاید وہ سب ڈھکا چھپا تھا اور یہاں سب کچھ تشت از بام۔ پتہ نہیں یہ سب پری پلین تھا؟ پا گل خنداں کسی کی آلہ کار تھی؟ کچھ تو گڑبڑ ضرور تھی۔
جس دن ہم لوگوں کا آخری پرچہ تھا، تمہارے جانے کے بعد میں شبن چچا کی طرف چلی گئی تھی کہ ان سے منیب کے لئے تحفہ کی خریداری کے سلسلے میں مشورہ کر نا تھا۔ جب میں ان کے آفس کے قریب پہنچی تو اندر سے کسی لڑکی کی تیز تیز بولنے کی آواز آ رہی تھی اور پھر دھڑاک سے دروازہ کھلا اور گل خنداں ہاتھ میں اسائنمنٹ پکڑے تیزی سے نکلتی چلی گئی۔ میرے تو پیر کانپنے لگے اور میں خاموشی سے اپنے ڈیپارٹمنٹ لوٹ کر اگلے پوائنٹ کا انتظار کرنے لگی، مگر یقین کرو صدف!! صرف اور صرف پینتالیس منٹ کے اندر اندر میں نے لڑکوں کے غول کے غول کو ایڈمنسٹریشن بلڈنگ اور فزکس ڈیپارٹمنٹ کی طرف مارچ کرتے دیکھا۔ اتنے کم وقت میں اتنا منظم پروٹسٹ!! سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ کچھ تو دال میں کالا تھا۔
شبن چچا پر ٹرائل بھی ہوا اور سزا بھی تجویز کر دی گئی۔ ایک بار بھی وی۔ سی نے گل خنداں کو نہیں بلایا، بلکہ وہ تو اس دن کے بعد یونیورسٹی سے سرے سے غائب ہی ہو گئی تھی۔ شبن چچا کو ایک سال کے لیے معطل کر دیا گیا تھا۔ پھر جب ہم لوگ پریکٹیکل امتحانات کے لیے واپس یونیورسٹی گئے تو گل خنداں کے اسائنمنٹ کے آخری صفحہ کی فوٹو کاپی یونیورسٹی کے ہر ڈیپارٹمنٹ کے نوٹس بورڈ کی زینت تھی۔ طالب علموں کا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا مگر اس کیس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ کوئی ایسا بڑا گناہ تو نہیں کیا تھا شبن چچا نے۔بس اتنا ہی تو تحریر تھا آخری صفحے پر۔
عشق سے میں ڈر چکا تھا، ڈر چکا تو تم ملے
دل تو کب کا مر چکا تھا، مر چکا تو تم ملے
بےقراری، پھر محبت، پھر سے دھوکہ! اب نہیں
فیصلہ میں کر چکا تھا، کر چکا تو تم ملے
آپ کے فیصلے کا منتظرشہاب الدین
اب بتاؤ یہ کون سی ایسی گردن زدنی بات تھی؟ پوری یونیورسٹی گواہی دیتی کہ پہل گل خنداں کی طرف سے ہوئی تھی مگر جانے اس کیس کو توڑ موڑ کر کیا رنگ دیا گیا کہ شبن چچا پر یونیورسٹی واپسی کے تمام دروازے بند ہو گئے۔ دو سال بعد انہوں نے پشاور اور ملتان یونیورسٹی میں نوکری کی کوشش کی مگر"مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے"کے مصداق گل خنداں کی کہانی وہاں بھی استقبال کے لیے موجود تھی۔
ایک دفعہ جب میں پاکستان آئی تھی تو میں نے ہمت کر کے ان سے پوچھا تھا اس کیس کے متعلق۔ خاصی دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگے وہ کیس "لینا" سے بے وفائی کی سزاہے۔ میں نے کہا، "میں نہیں مانتی اس بات کو شبن چچا!! لینا ایک چیپٹر تھی پوری کتاب تو نہیں؟ آخر آپ کب تک ناکردہ بھوگتے رہے گے؟ "مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور کہنے لگے جانے دو بیٹیا اب تو زندگی بسر گئی۔
آج کل جوہر موڑ پر ایک فلیٹ میں رہتے ہیں اور مفت موبائل اسکول چلاتے ہیں۔ ان کے شاگرد زیادہ تر افغان بچے ہیں۔ وہ آج بھی اتنے ہی سرخے ہیں جتنے یونیورسٹی کے دور میں تھے۔ ہفتے میں دو دن ڈرگ ری ہیب سنٹر میں والنٹیر کرتے ہیں۔ اب تو ضعیف ہو گے ہیں مگر ابھی بھی وقت اور حالات سے شکست نہیں مانی۔ جب نصرت مجھے ائیرپورٹ چھوڑنے آئی تو اس نے مجھے شبن چچا کا تحفہ دیا۔
انتظار گاہ میں بیٹھ کر میں نے بےتابی اور احتیاط سے تحفے پر سے خوشنما ریپر اتارا، حسب توقع اس میں کتاب تھی۔ ارے یہ کیا؟ یہ تو وہی کتاب ہے جس کی تلاش میں، میں نے طارق روڈ اور فرئیر ہال چھان مارا تھا۔ مجھے بےاختیار ولیمے کی تقریب کی ملاقات یاد آ گئی۔ شبن چچا نے مجھ سے پوچھا تھا کہ آج کل کیا پڑھ رہی ہو؟ آج کل کتابوں کی دکان پر پرانے لکھنے والوں کی کتابیں ہی نہیں ملتیں، میں کب سے قرت العین کی" پت جھڑ کی آواز " ڈھونڈ رہی ہو مگر کہیں ملی ہی نہیں، جدھر دیکھو عمیرہ اور نمرہ کی کتابوں کی بھرمار ہے، میرے شکایتی انداز میں پر شبن چچا بے ساختہ ہنس دیے تھے۔
فرنٹ پیج پر شبن چچا کی خوبصورت لکھائی میں تحریر تھا۔ پیاری بیٹی صباحت کے لیےدعاگو ہوں کہ تمہاری زندگی میں کبھی پت جھڑ نہ آئے۔ آمین۔ شبن چچا۔ کتاب کے کور پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بے اختیار میری آنکھوں میں نمی اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ تھی۔ ایسے ہی ہیں میرے شبن چچا، سب کا خیال رکھنے والے درد مند و درویش۔ خود ہمیشہ تشنہ کام رہے پر دنیا کو سیراب رکھا۔
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم