Shabban Chacha (1)
شبن چچا (1)
شکاگو سے دوحہ، دوحہ سے کراچی لمبی فلائٹ اور پھر اکانومی کلاس، اب جسم تھک کر چور چور ہو جاتا ہے، مگر طیارے کے پہئیے جیسے ہی کراچی کی زمین چھوتے ہیں، ایک سرخوشی روم روم میں بس جاتی ہے۔ ایک قرار ایک طاقت سی محسوس ہوتی ہے۔ میں نے منیب سے کہاتم بھی ساتھ چلو مگر ان کا وہی کام کا بہانہ۔ منیب کو کراچی سے کوئی دلچسپی بھی تو نہیں، کہ وہاں نہ ان کا کوئی دوست ہے اور نہ ہی قریبی رشتہ دار۔ جب مکین نہ ہوں تو شاید مقام کشش نہیں رکھتے۔
منیب اپنے کام سے کام رکھنے والے کم گو اور اپنے حال میں مست بندے ہیں، کراچی کی ہاؤ ہو ان کے اعصاب کے لئے بہت زیادہ۔ وہ اپنے اوک پارک میں ہی خوش رہتے ہیں۔ جب میں کراچی سے بیاہ کر آئی تھی تو ان دنوں منیب بوسٹن میں تھے اور محب اور منیزہ وہیں پیدا ہوئے تھے۔ بوسٹن میں کوئی چھ سات برس گزار کر ہم لوگ شکاگو منتقل ہوئے اور یہیں کے ہو کے رہ گئے۔ پہلے تو مرکزی شہر میں رہتے رہے، پھر کوئی بیس برس قبل منیب نے یہ گھر اوک پارک سبرب (oak park suburb)میں خریدا اور گویا اپنے آپ کو گھر میں محبوس کر لیا۔ یہ گھر مانو منیب کی پہلی نظر کی محبت تھا۔
حق تو یہ ہے کہ گھر ہے بھی بہت خوبصورت اور آرام دہ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم لوگوں نے گھر کو اپنایا ہے یا گھر نے ہم لوگوں کو اون کر لیا ہے۔ واقعی اس کی لال اینٹیں سانس لیتی اور دکھ سکھ میں شریک لگتی ہیں۔ یہ ہمارے ساتھ اُداس ہوتا ہے اور ہماری خوشی میں سترنگی، شاید کچھ پڑھنے والوں کو یہ باتیں عجیب لگیں، مگر میں نے گھر کو اپنے مکین کے وچھوڑ میں بین کرتے بھی سنا ہے۔ میرا بچپن جس گھر میں گزرا وہ آج تک میری یاداشت میں سانس لیتا ہے۔
جہاز نے جب کراچی کی مٹی کو چوما تو سہ پہر ہو چکی تھی۔ جہاز سے باہر نکلتے ہی میں نے شعوری طور پر اپنے آپ کو دیسی موڈ میں لانے کی پوری کوشش کی۔ امیگریشن کے بے زار اسٹاف سے نمٹ کر، سامان کو کنوئیر بلٹ سے جھپٹا اور شیشے کے گھر سے باہر آ گئی۔ باہر کراچی کی خوبصورت سرما کی شام بےساختہ گلے سے لپٹ گئی۔ ایک گہری سانس لی اور شام سے کہا:لو!! اب میں دس دنوں کے لئے تمہارے حوالے۔
وسط دسمبر کی شام مجھے اداس لگی۔ اب میرے وطن واپسی کے ہر سفر میں کراچی، میرا شہر دلبرا اداسی سے میرا سواگت کرتا ہے، کیونکہ اب یہاں میرا اپنا سگا کوئی بھی نہیں۔ کراچی کی ٹکٹ بک کرتے ہوئے دل نے پوچھا"اب کالے کوسوں کا سفر کیوں؟ اب تو وہاں کوئی آنکھ بھی تمہاری منتظر نہیں۔"دل کو ڈپٹ تو دیا تھا پر بات دل نے صحیح کہی تھی۔ ہاں! اب شہر نگارا میں میرا کوئی منتظر نہیں، کیونکہ میرے منتظر دلوں نے اب شہر خموشاں آباد کر لیا ہے۔
اب دل کے بہلنے کو شہر آباد نہ سہی پر شہر خموشاں میں مٹی کی بہت ساری ڈھیریاں ہیں۔ اب جب جب کراچی واپسی ہوتی ہے تو وچھوڑ دل کو خون کرتا ہے۔ باہر بھانجا منتظر ملا۔ اس بار کراچی کے مختصر دورے کی وجہ فرسٹ کزن کی بیٹی کی شادی ٹھہری کہ تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے۔ حال احوال پوچھتے پاچھتے کب ڈرگ روڈ کراس کی اور گلبرگ پہنچے اندازہ ہی نہیں ہوا۔ چونکی تب جب پھولوں والی گلی کراس کر کے معروف حلیم (مزیدار حلیم) کی دکان کے قریب پہنچے، تب میں نے قصداً سڑک پار کھڑے تین منزلہ مکان سے نظریں پھیر لیں۔ اس سہ منزلہ کی تابندہ پیشانی پر سے اب "جمال الستان" کھرچ دیا گیا تھا۔ اب وہ نواز چچا کا گھر نہیں تھا جانے کس کی ملکیت تھا؟
گھر میں شادی کی مخصوص گہماگہمی اور افراتفری مچی ہوئی تھی۔ رات میں مہندی کی تقریب کی تیاریاں عروج پر تھی۔ وطن واپسی پر اگر کسی شادی کی تقریب میں شرکت کا موقع ملے، تو میں اسے اپنی خوش قسمتی گردانتی ہوں، کیونکہ تقریب دور و نزدیک کے عزیزوں سے ملاقات کی سبیل بن جاتی ہے ورنہ کراچی کی ٹریفک الاماں الاماں۔ بندے کے دانتوں میں پسینہ آجائے اور ٹریفک کے اژدھام اور بے ہنگم پن سے بلند فشار خون الگ۔
اس غریب پرور شہر کا تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ یہ شہر ناپرساں جس سے ملک کو سب سے زیادہ ریوینو(revenue) حاصل ہوتا ہے، اس پر حکومت کی بےحسی اور بے انصافی کی انتہا دیکھیے کہ اسی شہر کراچی کی بیچاری عوام بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔ ایسا اندھیر صرف پاکستان ہی میں ممکن ہے۔ شادی کی تقریب میں رخصتی کے بعد جب ہم سب گھر والے کھانا کھا رہے تھے تو میں نے نصرت سے پوچھا شبن چچا نظر نہیں آرہے؟
جی آئے تھے، جلدی چلے گئے، نصرت نے میری طرف میٹھا بڑھاتے ہوئے جواب دیا۔ کیسے ہیں اب؟ انہوں نے تو زمانے سے دنیا تیاگی ہوئی ہے، صباحت آپا، وہ ہیں اور ان کا سوشل ورک۔ ہزار فون کال کے بعد کبھی سال چھ ماہ پر شکل دکھا جاتے ہیں۔ نصرت کی آواز میں ملال تھا۔ واقعی وقت کبھی کبھی کیسے ہیرے کو رول کر بے مول کر دیتا ہے۔ مجھے ان سے نہ ملنے کا قلق تھا اور میں نے دل میں پکا تہیہ کر لیا کہ کل ولیمے کی تقریب میں ان سے ضرور ملنا ہے۔
شادی سے نپٹ کر صدف سے فون پر رابطہ کیا۔ صدف میری پیاری دوست، جو خوبصورتی میں بے مثال اور خوب سیرتی میں یکتا و کمال۔ اس نے سارا پروگرام پہلے ہی سیٹ کر لیا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ کل شیرٹن میں ہائی ٹی ہے اور وہ مجھے پک کر لے گی اور وہاں سے واپسی پر اس رات اسی کے گھر رکنا ہے۔ ویسے بھی صدف اور میرا چار چھ گھنٹوں کی مختصر ترین ملاقات سے گزرا ممکن تھا بھی نہیں کہ اتنے مختصر وقت میں تو آنکھوں کی پیاس نہیں بجھتی، دل کی سیری کب ممکن تھی؟
میں نے پوچھا کہ کون کون ہو گا؟ کہنے لگی سرپرائز ہے! پر زیادہ نہیں، چار پانچ ہی سہلیاں ہیں۔ میرے لیے تو یہ بھی بہت بڑا فیگر تھا کہ اس عہد بے مخلصی میں کوئی کسی کی خاطر دو گھڑی نکال لے تو میرے حساب سے یہ بہت بڑی بات ہے۔ صدف نے مجھے پک کیا اور حسب سابق ہم دونوں پہلے پہنچنے والوں میں سے تھے۔ پھر شہر خبرو تارا پہنچی۔ (یونیورسٹی میں ہمیں ساری خبریں خاص کر اسکینڈلز تارا کے توسط سے ہی پتہ چلتے تھے)، پھر نبیلہ اور نیلوفر اور آخر میں قدسیہ اور عزیزہ۔ میں تینتیس سال بعد سب سے مل رہی تھی۔
ہم سب خوب ایک دوسرے کو جھپی ڈال ڈال کر ملے اور جب سب پرسکون ہو کر بیٹھ گئے، تو ہم سبھوں کے منہ سے ایک بےساختہ قہقہہ نکلا، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب اب ناقابل شناخت تھے، ماضی کی پرچھائیاں۔ گزرتے وقت نے ہم سب کو کم از کم دس پندرہ کلو اضافی گوشت کی سوغات ضرور دی تھی۔ آپس کا حال احوال ہوا اور پھر اس سنہرے دور کو یاد کیا گیا۔ یونیورسٹی کا ذکر ہو اور میڈم انصاری کی لیب کا ذکر خیر رہ جائے ناممکن۔
لیب دو بجے شروع ہوتی تھی۔ لیب سے پہلے صدف اور میں کینٹین جاکر کھانا کھاتے۔ کیا بےفکرا گھریلو ماحول ہوتا تھا کینٹین کا۔ بلند آواز میں موسیقی بج رہی ہوتی اور دو، چار یا چھ کی ٹولیوں میں لڑکیاں میز کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھی ہوتیں، کچھ کرسیوں پر ٹانگ چڑھائے اور کچھ لٹکائے خوش گپیوں میں مصروف۔ کہیں راز و نیاز میں سکھی کو حکایت دل سنائی جا رہی ہوتی تھی، تو کہیں منگیتر سے ملاقات کی تفصیل دوستوں کے گوش گزار کی جا رہی ہوتی۔ کسی کسی ٹیبل پر اسانئٹمنٹ کا رولا اور کہیں ٹیچرز کی نیکیوں میں اضافہ بھی۔ پر آخری دو ٹوپک ذرا کم ہی زیربحث رہتے۔
کینٹین گویا ہائیڈ پارک تھا، ہر شخص اپنی اپنی کہنے کا شوقین۔ سب سے زیادہ مزہ تو تب آتا، جب کینٹین پالر کا روپ دھار لیتی، کوئی آئی بروز بنوا رہی ہے، کوئی نیا ہیر اسٹائل ٹرائی کر رہی ہے اور کوئی تو مہندی لگوا رہی ہے، اور کہیں نیل پالش کا نیا شیڈ آزمایا جا رہا ہوتا۔ اکثر کینٹین میں دھوم دھڑکے سے سالگِرہ بھی منائی جا رہی ہوتی تھی اور کبھی کبھی تو مایوں اور رخصتی کے گیت بھی الاپے جاتے تھے۔ کچھ خوش گلو ریڈیو کے ساتھ ساتھ خود بھی گانا شروع ہو جاتیں۔ غرض ایک رنگین اور زندگی سے بھرپور فضا ہوتی۔
ہم سائنس والے آرٹس والوں کی طرح فرصت سے ذرا کم ہی نوازے جاتے تھے، سو مختصر وقت میں ہم دونوں جلدی جلدی اپنی اپنی کہ سن کر لائبریری کے تہہ خانے میں اتر جاتے اور آرام سے ظہر کی نماز پڑھ کر واپسی میں شاہی سپاری کا ایک پیکٹ آدھا آدھا کھا کر خوش و کرم ڈیپارٹمنٹ آکر لیب کو پیارے ہو جاتے۔ اس زمانے میں خوش ہونا کتنا آسان تھا۔ بارش ہو گئی خوش، پسند کی کتاب پڑھ لی یا ٹھنڈی سڑک پر ٹہل لیے خوش، اور اگر ٹیچر نہیں آ سکے کلاس فری ہو گئی تو انتہائی خوش۔
شیرٹن میں چار گھنٹے کیسے ہوا ہوئے مت پوچھیے۔ واقعی پرانے دوست اور خوشگوار ماضی ٹونک ہوتے ہیں۔ ہم سب یقیناّ بہت عرصے بعد اس قدر کھل کر ہنسے تھے۔ گھور کر دیکھنے والوں اور منہ بنانے والوں کی قطعی پرواہ کیے بغیر، خاصے بےادب ہو گئے تھے ہم لوگ اس دن۔ دراصل ہم سب اس وقت لمحہ موجود سے کٹ کر خوبصورت ماضی کی امرت دھارا میں غوطہ زن تھے۔ چلتے چلتے نبیلہ کو جانے کیا سوجھی کہنے لگی چلو "جس کا اتنا ذکر کیا ہے کل چل کے اس کا دیدار بھی کر لیتے ہیں " گویا"ذکر یار چلے اور بار بار چلے۔"اور پوری جماعت بہ رضا و رغبت راضی ہو گئی۔ ایک بے حد خوشگوار دن خوبصورت یادیں دے کر اختتام پذیر ہوا۔
دوسرے دن یونیورسٹی گیٹ پر تارہ ہم سب کی منتظر تھی۔ حفاظتی چوکی پر آئی ڈی کارڈز وغیرہ کی معمول کی کارروائی کے بعد ڈھرکتے دل سے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلے۔ راہ میں ڈاک خانہ، ایڈمنسٹریشن بلڈنگ، جمنازیم، دور سے لائبریری اور پاس سے بینک اور مسجد سے ہوتے ہوئے اپنے ڈیپارٹمنٹ پہنچے۔ غالباً امتحانات چل رہے تھے اس لئے وہ معمول کی چہل پہل مفقود تھی، جو یونیورسٹی کا لازمہ ہوتی تھی۔
گول سیڑھی کے پاس کھڑے ہو کر ایک طائرانہ نظر ڈالی تو دل خوش گمان نے کیا کیا نظارے کرا دئیے۔ مسکراتے ہوئے سر وہرا کلاس کی جانب تیز قدموں سے لپکتے نظر آئے۔ پلیا کی طرف سے شلوار قمیض میں ملبوس ہاتھ میں ایک فائل پکڑے متوازن چال اور چہرے پر متانت لئے ڈاکٹر ارشاد آتے نظر آئے۔ ارے وہ دیکھو! لیب کی ریمپ سے چہکتے رنگ کی دھانی ساڑھی میں اترتی معاملہ فہم و اسمارٹ مسز ملک۔ اور وہ آڈیٹوریم کی طرف جاتے ہوئے دو رنگ کے موزے چڑھائے گم شدہ سے سر سمعی۔ کاریڈو میں آہستہ خرامی سے اپنی آفس کی طرف جاتی میڈم انصاری۔ تیزی سے چھٹتی لڑکوں کی بھیڑ اس بات کی غماز کے خوش لباس سر اعجاز کی آمد آمد ہے۔
ان دنوں آڈیٹوریم میں رینوویشن چل رہی تھی اور آڈیٹوریم کے بازو، احاطے میں کھڑا نیم کا درخت بوڑھا اور غم زدہ سا لگا۔ جی تو چاہا کہ بڑھ کر اس کو گلے لگا لیں مگر حجاب مانع رہا۔ فوٹو اسٹیٹ مشین کے پاس وہ پرانا ڈبہ جس پر بیٹھ کر رمضو سے چائے اور چاٹ آڈر کی جاتی تھی اور جہاں کبھی نہ ختم ہونے والی گپ شپ جاری رہتی تھی، وہ ہمنوا ڈبہ اب ندارد تھا۔ واٹر کولر پر بیکر اب بھی موجود تھا اور فیزکل لیب کے کاریڈو میں پانی بھی اسی طرح کھڑا تھا۔ ان اورگینک کے کیمیکلز کی وہی دم گھونٹ دینے والی مخصوص بو اور اندھا کوریڈور۔ وہاں وقت حنوط تھا مگر ساکنان سفر کر چکے تھے۔
ہمارے ساتھ تین چار ایسے کپل بھی پڑھتے تھے جو محبت سے شرابور تھے اور خوشبو کی طرح محسوس تو ہوتے تھے پر شنیدہ و دیدہ نہیں تھے۔ بس قیاس ہی قیاس، گمان ہی گمان تھا، پر بھید ہاتھ نہ آتا تھا۔ پوچھنے پر تارہ نے بتایا کہ نہیں ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں رہا۔ ہائے کیوں؟ دل یکایک ڈوب گیا۔ بس کہیں اخلاص میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی، تو کہیں زر و جوہر کی دیوار کھڑی ہو گئی، اور کہیں اماں اور ان کی ایموشنل بلیک میلنگ آڑے آئی۔