Pankh Pakheru
پنکھ پکھیرو
سفر کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں اور اطراف میں بہت جوش اور گہماگہمی۔ ماں نے مجھے انجانے دیس کی کئی کہانیاں سنائی ہے اور میرا جی چاہتا ہے کہ میں جادوئی قالین پر بیٹھ کر پلک جھپکتے میں ساری جگہیں دیکھ آؤں۔
ماں تم آج فکرمند کیوں لگ رہی ہو، کیا سفر کی طوالت سے گھبرا رہی ہو؟
نہیں جاں مادر! ایسی کوئی بات نہیں۔
ماں نے اسے اپنی مہربان آغوش میں لیتے ہوئے پیار کیا۔
چلو پھر مجھے انجانے دیس کی کہانی سناؤں۔
میں نے مچلتے ہوئے ہمیشہ والی ضد دہرائی۔
ہاں کیوں نہیں میرے لعل، ضرور سناؤ گی۔ ماں نے میرا سر سہلاتے ہوئے مدھم آواز میں کہانی شروع کی۔
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ!
یہ کہانی ہے بہت پرانی اور اس کو سناتی تھی میری نانی۔ اس دنیا میں ایک خطہ زمین ایسا بھی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ساری رعنائی و خوبصورتی یکجا کر دی ہے۔ بلند و بالا پہاڑ، مرغزار و کہسار۔ دلفریب وادیاں اور ان کے بیچ اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی ندیاں، جھاگ اڑاتے بپھرے گرجتے سمندر اور میلوں میل پھیلا دمکتا ریگستان۔ کیا نہیں دیا تھا رب کریم نے اس سرزمین کو! اس زمانے میں وہاں کے باسی بہت دیالو ہوا کرتے تھے اور مہمانوں کی تکریم ان کی روایت تھی۔ وہ پردیسیوں کی سیوا کو اپنا جزوِ ایمان جانتے تھے۔ تب ضرورتیں محدود تھیں اور خواہشوں کے سانپ نے پھن نہیں اٹھایا تھا۔ پھر جانے وقت بدلا یا شاید انسان بہت سیانا ہوگیا اور خواہشات کے کوہِ گراں تلے دب کر انسانیت مفلوج ہوئی، یوں بدلتے وقت نے بہت کچھ بدل دیا۔
یہ بہت زیادہ پرانی بات نہیں، یہی کوئی پانچ عشروں پہلے بابا بھٹائی کے دیس کے فرزند نے اپنی صدیوں پرانی ریت روایت دریا برد کی اور اپنی سہنری سندھڑی زمین پر آنے والے مہمانوں کا سودا کر دیا۔ یہ سودا بھی ظالم نے دوستی کے نام پر کیا۔ تیل کے نو دریافت کنوؤں کے شہزادوں کو اپنی مہربان ماٹی اور دریاؤں پہ اترتے پنکھ پکھیرو کے خون سے ہولی کھیلنے کی کھلی اجازت دے دی۔ تلور کے شکار کو عربوں سے سفارتی تعلقات کی چابی بنایا اور بدلے میں وصول کیے کچھ ڈالرز، ریال، ہسپتال اور شہر میں بسائی گئی لاتعداد کالونیاں۔ بیٹا معیشت بڑا قہر ڈھاتی ہے کہ یہ اکثر انسانیت اور اصولوں پر بھاری رہتی ہے اور رہے جزبات۔
تو وہ اس کے آگے بالکل ہی بے مول ہیں۔ اس خطے عطائے خداوندی میں حکومتیں آتی جاتی رہیں اور فرعون اپنے اپنے انجام کو پہنچتے رہے مگر شاید اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب پر مہریں لگا دیں تھیں کہ وہاں پھر کبھی کوئی دل والا بلند حوصلہ آیا ہی نہیں۔ بس کمی کمین ہی رچ کے راج کرتے رہے۔ بے بسوں کا مول لگا کر دادِ عیشِ دیتے رہے اور عام انسان بلکتا رہا بلبلاتا رہا۔
ہم یہاں برف زاروں سے پناہ لینے کے لیے ان گرم پانیوں کی سرزمین پر آتے۔ اسی جنت ارضی پر جہاں کبھی ہماری حفاظت کے لیے رکھوالے رکھے جاتے تھے اور ہمارے لیے زمین پر دانے بکھرائے جاتے تھے۔ اس سر زمین پر اب ہمارے لیے قدم قدم پر دام تھے اور ہمارے بے جان لاشوں کے دام۔ اس دھرتی پر ان شہزادوں نے ایسا ظلم ڈھایا کہ آسمان بھی کانپ اٹھا۔ ٹھٹھہ آج بھی اس سانحے کو یاد کرکے ٹھٹھر جاتا ہے۔ بھلا "آمی" اور "پھاپی" کو کون بے درد بھول سکتا ہے۔ دونوں نوخیز کلیاں آمنہ اور فاطمہ تیل کے سوداگروں کی بربریت کا شکار ہوئیں اور عوام نے زبردست احتجاج بھی کیا۔ عوام چونکہ عام تو بھلا خواص کو ان کی کیا پروا؟ پھر عوام کا دیرینہ مسئلہ یہ بھی کہ ان کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے۔
احتجاج کی لہر آتی ہے، کچھ دیر کے لیے ہلچل مچتی ہے اور پھر وہی بےحسی کا سکوت طاری یا شاید اپنے خالی پیٹ کی گڑگڑاہٹ دوسرے بے کسوں کی آہوں پر حاوی آ جاتی ہے۔ اب جس جہان میں بیٹیاں محفوظ نہیں، وہاں ہم تلور کی کیا اوقات!
عوام میں کچھ لال چانڈیو جیسے سر پھرے اور درد دل رکھنے والے درویش بھی ہیں جو ہم پردیسی پرندوں کے لیے حکومت سے بھڑ گئے اور اعلیٰ عدالت میں ہمارے تحفظ کے لیےکیس دائر کر دیا۔ سماعتیں ہوئیں، قانون بنا اور ساتھ ہی قانون کا مذاق بھی۔ قانون کے تحت ہمارے شکار کے محدود اجازت نامے جاری کیے گئے اور ان اجازت ناموں کی دھجیاں بھی صحرا اور لبِ دریا بکھرا دی گئیں۔ ہمارے خون کے عوض تیل کے شہزادوں سے مراعت اور وظیفے حاصل کیے گئے اور طرفہ تماشا کہ جن کو ہماری رکھوالی و حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی وہی ہمارے قاتل ٹھہرے یعنی وائلڈ لائف اور محکمہ جنگلات کے افسرانِ بالا۔ بھلا بتاؤ کہ
ہم کسے وکیل کریں کس منصفی چاہیں
اب دیکھو نا ہم تلور اکتوبر کے ابتدائی ایام سے ان برف زاروں اور دور دراز کے وسطی ایشیائی ملکوں کے سرد موسموں سے پناہ لینے کے لیے لمبی مسافتوں کی اڑان بھر کر سندھ اور ملک کے دیگر حصوں کے میدانی، صحرائی علاقوں اور پانیوں میں نقل مکانی کرتے ہیں مگر اب اِس ملک میں ہمارے لیے پناہ نہیں کیونکہ نومبر سے جنوری ایسے مہینے ہیں جس میں ہم پردیسی پرندوں کے شکار کے لیے شکاری شیوخ اور شہزادے پورے کرّ وفر اور دھمک کے ساتھ اس دھرتی پر اترتے ہیں۔
میرے بچے کچھ عرصہ پہلے ہی وہاں سے یہ خبرِ دل خراش آئی کہ دھابے جی پر ایک سر پھرے نے شاہ عبداللہ لطیف کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خلیجی مہمانوں کو ہمارے شکار سے روکا۔ کچھ نہ پوچھو کہ اس بے کس پہ کیا کیا نہ ستم ڈھایا گیا۔ ہمارے تحفظ کے لیے اس کی اٹھائی گئی آواز اس کا نا قابلِ معافی جرم ٹھہری۔ اس عام انسان کی فریاد و آہ و زاریاں بے اثر رہیں۔ اٹھائی گئی آواز کی پاداش، لوہے کے راڈ سے مار مار کر اس کی ایک ایک ہڈی توڑ دی گئی۔ اس کی معصوم دھی رانی رات بھر چوکھٹ سے لگی اپنے بابا کا رستہ تکتی رہی۔ صبح تڑکے ہی تڑکے اسے اپنے بابا کا بے جان، نیلو نیل اور لہو لہان لاشہ ملا۔ اس اعلان کے ساتھ کہ ہم سر اٹھانے والوں کو ایسے ہی کچلا کرتے ہیں۔
ہم پردیسی پنکھ پکھیرو کی خاطر "ناظم جوکھیو" اپنی جان سے گیا۔ اس کا درد ہم اپنے دلوں میں پالتے ہیں اور ہم اپنی نسلوں کو اس کی جواں مردی و جواں مرگی کا قصہ سناتے رہیں گے مگر میرے لعل سنو!
غور سے سنو!
اب ہم اس ظالم دیس نہیں جائیں گے کہ ظلم کبھی نہیں پنپتا! اب قیامت دور نہیں۔