Nawa e Rafta Ki Bazgasht (1)
نوائے رفتہ کی بازگشت (1)
میں شاید غنودگی میں تھی کہ مجھے آوازیں تو سنائی دے رہی تھی، پر لوگ جیسے دھندلکوں میں گم تھے اورمیری پوری زندگی چشم زدن میں میرے سامنے۔
میں شہوار جمال گھر بھر کی لاڈلی اور چہیتی، کہ اماں واری صدقے جاتی تو ابا میاں نثار ہو ہو جاتے۔ تین بھائیوں کی اکلوتی چھوٹی بہن۔ زندگی اچھی نہیں بلکہ شاندار تھی کہ، سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوئی اور محبت کے جھولے میں ہلکورے لیتی بڑھتی گئی۔ سبزی باغ میں پرکھوں کی کوٹھی، دھمول میں زرعی اراضی اور جہان آباد اور پٹنہ، میں ابا میاں کی کئی اور جائیدادیں تھیں۔ البتہ اماں کو جہیز میں ملی دونوں دکانیں اور ایک شاندار کوٹھی مرشد آباد میں تھی۔
برصغیر کی تقسیم خاندان کے لیے معاشی دھچکا ثابت ہوئی، مگر کہتے ہیں نا کہ" مرا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا" سو کچھ ایسے ہی حالات ہمارے بھی رہے۔ خاندان میں کافی اکھاڑ پچھاڑ رہی کہ خاندان کے بیشتر افراد اپنے کنبوں سمیت نوزائیدہ پاک ملک چلے گئے، پر دادا اور ابا میاں اپنے بزرگوں کی قبروں کو کسی طور چھوڑنے پر راضی نہ تھے، سو بدلے حالات کی سختی کو حوصلے اور صبر سے برداشت کیا اور اپنی جڑوں سے لپٹے رہے۔
میں تقسیم کے وقت سات آٹھ سال کی تھی اور مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ، بڑے بھیا علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہو کر سینتالیس کے شروع ہی میں برطانیہ جا چکے تھے۔ ان کی روانگی سے قبل ان کا دھوم دھڑکے سے صولت آپا سے نکاح، میرے بچپن کی سنہری یادوں میں سے ایک دلکش یاد ہے۔ فسادات کے دوران منجھلے بھیا علی گڑھ سے بھاگ کر ننھیال مرشدا آباد چلے گئے کہ، ابا میاں ہم سب گھر والوں کو لیکر جولائی ہی کے مہینے دارجلنگ منتقل ہو گئے تھے۔ ویسے تو ہر سال گرمیاں عموماً دارجلنگ اور کبھی کبھار نینی تال میں گزاری جاتی تھیں۔
ددھیال سے بڑے ابا، چھوٹے ابا اور پھوپھی اماں اور ننھیال سے نانا جان، بڑے ماموں، چھوٹے ماموں اور حسنہ خالہ اور کچھ دور کے رشتے دار سب دارجلنگ کی لال کوٹھی اور موتی محل میں جمع ہوجاتے تھے۔ ان دو مہینوں میں بچوں کے لیے گھر کے اصول و ضوابط خاصے نرم کر دیے جاتے تھے، اور ہم بچوں کی ٹولی اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا سارا دن کوٹھی اور اس سےملحقہ امرود اور کیلے کے باغ میں ادھم مچائے رہتی۔ وہ دو مہینے پلک جھپکتے گزر جایا کرتے، اور ہم بچے اور جوان سبھی بقیہ کے دس مہینے ان جادوئی دو مہینوں کا شدت سے انتظار کرتے۔
سینتالیس کا اگست بہت مختلف تھا کہ اس سال تو ہم لوگوں نے لال کوٹھی یا موتی محل میں قدم بھی نہیں رکھا، بلکہ ہمارا سارا خاندان رمیش رائے جنھیں ہم سب چچا صاحب کہا کرتے تھے، کی حویلی کے تہہ خانے میں گزارا تھا۔ اکتوبر میں منجھلے بھیا وکرم دادا(رمیش چچا کے بڑے بیٹے) کے ساتھ پٹنہ گئے۔ ہم لوگوں کی کوٹھی کا تمام اسباب لوٹ لیا گیا تھا اور کوٹھی جزوی طور پرجلی ہوئی تھی۔ نومبر کے وسط میں ہم سب پٹنہ وآپس آ گئے، کرسمس کی چھٹیوں کے بعد منجھلے بھیا بھی خاموشی سے بحری راستے ولایت چلے گئے۔
گھر میں اب برائے نام لوگ تھے اور وہ دروازہ جہاں کبھی ہاتھی جھولتے تھے، وہاں اب دھول اڑتی تھی۔ ابا میاں نے بھی کوٹھی کو اسی اجڑے حالوں میں رہنے دیا اور اب ہم لوگوں کی رہائش، کوٹھی کے نسبتاً محفوظ پچھلے حصے میں تھی۔ ساری شان و شوکت اور طمطراق قصہ پارینہ ہوئے، اور نوکروں میں صرف برکت چچا، نتھو اور تنبولن بوا رہ گئے تھے۔ شہر کے مرکز میں واقع ابا میاں کا مطب بھی جل کر خاکستر ہو چکا تھا، سو ابا میاں نے کوٹھی کی مردانی بیٹھک کو مطب میں تبدیل کر دیا اور زندگی لشٹم پشٹم چلنے لگی۔ انچاس تک میں نے اسکول کی شکل نہیں دیکھی، اور مجھے گھر ہی پر چھوٹے بھیا اور ابا میاں انگریزی اور حساب کے اسباق دیتے رہے۔
عجیب بربریت کا دور تھا کہ، ہمسائیگی کا لحاظ اور آنکھوں کی شرم سب جاتی رہی تھی۔ ایک آپا دھاپی مچی ہوئی تھی، اور بے برکتی اور بےرونقی اپنے عروج پر تھی۔ اماں کے کمزور اعصاب ان تمام وحشتوں اور خون خرابے کو سہار نہ سکے اور وہ مستقل اختلاج قلب کی مریض بن گئیں، اور ابا میاں کے کشتے اور معجون بھی ان کے مرض میں قطعاً بہتری نہ لا سکے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ سنہ اکاون میں، دادا جان اور اماں پانچ مہینوں کے فرق سے آگے پیچھے دار باقی کو رخصت ہوئے۔
پہ در پہ کے سانحات اور حالات کی تبدیلیوں نے مجھ سے میرا بچپنا چھین کر، مجھے خاموش اور ذمہ دار بنا دیا تھا۔ گھر پر ایک ویرانی مسلط تھی اور ابا میاں کی چپ ہولاتی تھی۔ بڑے ابا اب کراچی میں سکونت پذیر تھے، اور سنہ باون میں بڑوں کے مشورے سے صولت آپا سادگی کے ساتھ وداع کر دی گئیں، اور انہیں بابل کی دعاؤں کی ضامنی میں کراچی سے جہاز میں بیٹھا کر، برطانیہ بڑے بھیا کے پاس رخصت کر دیا گیا۔ اس خاندان کے بڑے بیٹے کی شادی اس قدر سادگی سے ہوئی کہ، اس سے زیادہ اہتمام تو ہمارے یہاں چھٹی چھلے میں ہوا کرتا تھا۔ بڑے ابا کراچی اور چھوٹے ابا اور پھوپھی اماں، اپنے کنبے کے ساتھ ڈھاکہ براجتے تھے۔
ہندوستان میں زندگی سہمی ہوئی دبے پاؤں گزر رہی تھی اور میں پٹنہ کالج سے انٹر کے امتحانات سے فارغ ہوکر تنبولن بوا، جنہیں اب سجھائی اور سنائی کم کم ہی دیتا تھا، سے طرح طرح کے پکوان میں مہارت حاصل کر رہی تھی۔ تنبولن بوا کی مہارت میٹھے پکوان میں تھی، کہ پشتینی حلوائی ٹھہریں۔ انہیں خاموش سرد دوپہروں کی ایک زرد دوپہر، ڈھاکہ سے چھوٹے ابا کی ٹرنک کال آئی۔ سلام دعا اور " آواز آ رہی ہے نا! آواز آ رہی ہے نا!" کی پیہم تکرار کے بعد حاصلِ کلام یہ تھا کہ، چھوٹے ابا نے اپنے منجھلے بیٹے منور کمال کے لیے میرا ہاتھ مانگا، اور آن کی آن میں وہ زرد سرمائی دوپہر میرے لیے نوید بہار بن کر مجھے خوشیوں کا دوشالہ اڑھا گئی۔
مدت بعد میرا دل خوشی سے دھڑکا اور میں بیک وقت روئی اور ہنسی۔ اماں کی یاد نے جہاں اداس کیا، وہیں من (منور) کے ساتھ پر دل نے شادیانے بجائے کہ، منور اور میں بچپن کے سنگی ساتھی تھے۔ ہر کھیل میں منور بھیا کی ساتھی میں ہی ہوتی تھی۔ وہ درختوں سے جتنے بیر، امرود اور کیریاں توڑا کرتے اس میں سے بہترین پھل کی حقدار میں ہوتی، حالانکہ ہماری عمروں میں سات سال کا فرق تھا مگر بچپن میں بڑی پکی دوستی تھی۔ دل نے جب بھی سرگوشیوں میں ان کا نام لیا، میں نے ہمیشہ ہمیشہ دل کو ڈپٹا کہ جانتی تھی کہ ابا میاں مجھ اکلوتی کو کبھی بھی سرحد پار نہیں بھیجے گے، مگر انہونی ہو کر رہی اور میں دل سے شکر گزار اور اپنے مقدر پر نازاں تھی۔
یہ تو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ، اس رشتے کے حق میں بڑے بھیا نے ابا میاں کو رام کیا تھا۔ شادی کراچی میں ہونا قرار پائی کہ چھوٹے ابا اب ڈھاکہ سے اپنا کاروبار سمیٹ کر کراچی منتقل ہو رہے تھے، یوں میرا سنہرے ریشے کی خوبصورت سرزمین دیکھنے کا ارمان، ارمان ہی رہ گیا۔ پھوپھی اماں کی بیٹی انجم سے مشرقی پاکستان کے اتنے قصیدے سنے تھے، وہ شہر میرے لیے ایک خواب ناک طلسماتی شہر بن گیا تھا، مگر وائے نصیب کہ اس کی دید میرے مقدر میں نہ تھی۔ ہمارا تین افراد پر مشتمل مختصر سا کنبہ یعنی ابا میاں، چھوٹے بھیا اور میں کراچی بڑے ابا کے گھر اترے اور وہیں سے میری رخصتی ہوئی۔
پٹنہ چھوڑنے کا بے پناہ دکھ تھا کہ، جانے کیوں مجھے یقین سا تھا کہ اب دوبارا یہاں لوٹ کر آنا ممکن نہیں ہو گا۔ میں تنبولن بوا کے گلے لگ کر بے طرح روئی کہ اماں کے بعد انہوں نے ہی مجھے سمیٹا تھا، اور وہ میرے لیے بہت اہم تھیں۔ ابا میاں کے بڑھاپے اور تنہائی کا بھی احساس تھا، سو بڑے بھرے دل سے ہندوستان کی مٹی چھوڑی۔ انیس سو ساٹھ کے دوسرے مہینے کی پہلی اتوار کی کہر بھری صبح کو جہاز کے پہیوں نے پاک سر زمین کی پاک مٹی کو چھوا، اور میرا دل بےپناہ عقیدت سے معمور ہوا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کب پاکستان میرے دل میں آ بسا تھا مگر حاشیہ و کلا میں اس لمحے صدق دل سے پاکستانی تھی، اور پھر نگری نگری گھومنے اور کینیڈین سیٹیزن ہونے کے باوجود تا حیات دل سے پاکستانی رہی۔
شادی کے انتظام و انصرام کے لیے بڑے اور منجھلے بھیا بھی ولایت سے کراچی آ گئے تھے۔ کراچی میں منجھلے بھیا کی دولہن، بھابھی ثروت آرا سے پہلی بارملاقات ہوئی اور دونوں بھائیوں کے بچوں کو کلیجے سے لگا کر، اور پھوپھی جیسا پیارا لفظ سن کر جی جان سے سرشار ہوئی۔ ان دنوں لگتا تھا کہ، خوشیوں نے نارتھ ناظم آباد میں واقع بڑے ابا کے دو منزلہ گھر پر مستقل پڑاؤ ڈال لیا ہے۔ عرصے بعد میرا سارا ددھیال ایک چھت کے نیچے تھا، اور میرے چھوٹے ماموں اور حسنہ خالہ بھی پاکستان کے دوسرے شہروں سے شادی میں شرکت کے لیے کراچی آ گئے تھے۔ اماں کی کمی اور یاد نے بہت تڑپایا مگر شاید اس دنیا میں سبھی انسانوں کے مقدر میں کچھ کاش اور اگر، مرقوم ہوتے ہیں۔