Munni Nahi Manti (2)
مُنّی نہیں مانتی (2)
میری سسرال میں صرف مرد ہی مرد تھے، میرے سسر، مستنصر اور دیور انصر، چھوٹا سا خاندان۔ میں بہت آسانی سے اپنے سسرال میں ایڈجسٹ ہوگئ۔ شادی کے شروع کے دن اچھے گزرے، مستنصر شاید بہت کم گو تھے، بلکہ اس گھر میں کوئی بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتا تھا۔ مستنصر زیادہ تر سمندری سفر پر ہوتے اور جب مہینوں بعد گھر لوٹتے تو سو سو کر اپنی تھکن اتارتے۔ میں نے مستنصر سے دل و جان سے محبت کی کہ ایک اس جذبے کو میں بچپن سے ترسی بلکی ہوئی تھی۔ مستنصر پر میں نے دونوں ہاتھوں سے بھر بھر محبت کے خم لنڈھائے مگر شاید بہتات بھی اہمیت کم کر دیتی ہے۔
میں بھول گئی تھی کہ فراوانی ہمیشہ ارزانی ہی لاتی ہے یا شاید مجھے محبت کرنی نہ آئی کہ میں بیوی تو بنی اور ماں کی طرح میاں کا خیال بھی رکھا مگر شاید محبوبہ اور دوست کا روپ سروپ نہ دھار سکی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مستنصر نے اس محبت کو اپنا ازدواجی حق جانا لہزا انہوں نے صرف وصول کیا اور محبت دینا یکسر بھول بیٹھے۔ کیا کیا جائے کہ محبت کا اپنا وکھڑا مزاج ہے، یہ اگر یک طرفہ ہو تو زندہ تو بےشک رہتی ہے مگر پھلتی پھولتی نہیں کہ اس کو ہمیشہ توجہ کا پانی اور لمس کی گوڈی چاہیے ورنہ شجر محبت مرجھا اور چر مرا جاتا ہے۔
ان کی بے مہری و بے قدری نے میری محبت کی شوریدہ سری کو کم کرتے کرتے محض تین چار سال کے مختصر عرصے ہی میں فرائض کی بجا آوری تک محدود کر دیا۔ ہم دونوں چپ کی گھپا میں تھے۔ وہ باہر کی دنیا کے باسی اور میں گھر کی قیدی۔ اس حبس اور گھٹن میں ہمارے دو بیٹے تبریز اور گلریز ہو گئے اور اسی محبت کی حدت سے عاری گلیشیر میں پروان چڑھتے رہے۔
مستنصر مجھ سے جتنا بھی لاتعلق سہی مگر بچوں میں دلچسپی ضرور رکھتے تھے کہ ان کے معمولات پر ان کی نظر رہتی تھی۔ انہیں مجھ سے جو شکایتیں تھی وہ باخدا میرے سر پر سے گزر جاتی تھیں۔ انہیں ہائی ہیل پسند تھی اور میں نے ان کی خاطر اپنی پوری جان کھپا کر گھر میں ہائی ہیل پہن کر سر پر ایک موٹی سی کتاب رکھ کر سہج سہج چلنے کی کئی بار مشق کی مگر خاطر خواہ کامیابی نہ ملی، الٹا دو دفعہ پیروں میں موچ کے عوض مستقل درد مول لیا۔ یہی حال کتابوں اور موسیقی کا تھا، انہیں روشن آرا اور بڑے غلام علی محبوب اور مجھے ان قد آوروں کی ٹھمریوں اور دادروں کے مقابلے میں نور جہاں کی آواز میں"تو چھٹی لے کر آ جا بالما" زیادہ سریلا لگتا اور لتا اور رفیع بھی سماعت کو بھاتے۔ مجھ سے ممتاز مفتی کا فلسفہ ہضم نہیں ہوتا تھا اور میکسم گورکی اور مارکیز تو سر پر سے گزر جاتے کہ ان کی دنیا بہت مختلف تھی۔
دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر مستنصر کا ہماری ذہنی ہم آہنگی کے فقدان کے مستقل رونے نے میری مجلسی زندگی تقریباً ختم کر دی اور میں بالکل ہی نکو بنا کر دیوار سے لگا دی گئی۔ میں اندرو اندر جھلستی کڑھتی رہی پر مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگ اپنے علمیت کے زعم میں اتنی شدت سے کیوں مبتلا ہوتے ہیں اور موٹی موٹی کتابوں کے پڑھنے والے ڈائجسٹ پڑھنے والوں کو رینگتی ہوئی مخلوق کیوں گردانتے ہیں؟
آخر محبت سیدھے سادھے انسان سے ممکن کیوں نہیں؟ محبت اپنی پسند کے سانچے میں ڈھلے پیکر ہی کی متلاشی کیوں؟ میرے پاس ڈھیروں سارے سوالات ہیں مگر ان کے جواب میں ٹکر ٹکر دیکھتی بس ایک جامد چپ۔
یہ سچ ہے کہ مستنصر اور میں بہت مختلف تھے مگر اس فرق کے باوجود میں نے مستنصر سے محبت کی اور بہت کی۔ انہیں بھی تو کوکب خواجہ کے کوکنگ شوز زہر لگتے تھے اور ٹیلی تھیٹر محض وقت کا زیاں، اور میں ان کی پسند کی پاسداری میں اپنی پسند سے کنارہ کش ہوتی چلی گئی۔ میں نے ہمیشہ ان کی پسند کا احترام کیا اور اپنی ہجو کہ باوجود پوری دیانت داری سے محبت کی سعی میں مبتلا رہی مگر کب تک؟ میں کوئی بھگتی یا پجارن تو تھی نہیں کہ تپسیا میں لگی رہتی، میں بھی تو ایک جیتا جاگتا، دھڑکتا خواہشوں سے چھلکتا وجود تھی جیسے محبت کی حدت سے محروم رکھ کر رفتہ رفتہ برف کی سل میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
مستنصر کا سب سے بڑا سنگ دلانہ فیصلہ جو میرے لیے نا قابل قبول تھا اور جس پر میں نے اپنی بساط بھر احتجاج بھی کیا تھا، وہ دونوں بیٹوں کو ہوسٹل بھیجنے کا تھا۔ مستنصر کے اس فیصلے پر معترض ہونے پر مجھے یہ جواب ملا کہ وہ میری دقیانوسی اور دیہاتی مامتا سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ بچوں کے ہوسٹل بھیجے جانے کے بعد تو میری زندگی میں مقصدیت کا باب ہی بند ہوگیا۔
اس گھن زدہ ازدواجی سفر کے اٹھارویں سال یکایک انہوں نے اپنے راستے الگ کر لیے۔ مستنصر نے نئے سرے سے اپنا دل اور گھر آباد کر لیا اور گھر چھوڑ کر نئی بیگم کے ساتھ جدید اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گئے۔ دونوں لڑکوں نے اس فیصلے کو ناپسند کیا اور کمزور سا احتجاج بھی مگر وہ دونوں چونکہ بچپن ہی سے ہوسٹل میں رہتے آئے تھے اس لیے یہ دوری ان کے لیے قابل برداشت تھی اور یوں بھی انہوں نے کب اپنے ماں باپ کو بطور ایک یونٹ کے دیکھا تھا۔ تبریز کو تو اب ویسے بھی اے لیول کے بعد آسٹریلیا اپنے دادا اور چچا کے پاس چلے جانا تھا۔
تنہا گھر میں میرا وقت کاٹے نہ کٹتا تھا بلکہ حقیقتاً مجھے کاٹنے کو دوڑتا۔ ایسے اداس اور تاریک دنوں میں میرے ہنر نے ایک دیا روشن کیا اور اپنی پڑوسن کی مدد سے میں رنگون والا میں کوکنگ کلاسز دینے لگی۔ پہلے میں نے اپنی دوسراہٹ کے خیال سے ایک طوطا پالا پھر جانے کہاں سے ایک زخمی بلونگڑے نے آ کر اپنے آپ کو اس گھر کا مستقل مکین کر لیا اور آخر میں، میں نے حفاظت کے پیش نظر گلی کے ایک کتے کو کیا پرکایا کہ اس نے تو گویا گھر کی دہلیز ہی پکڑ لی۔
رنگون والا کی کوکنگ کلاسز سے ہونے والی آمدن میری اکیلی جان کی کفالت کے لیے مناسب تھی اور کبھی کبھار میرے سسر بھی آسٹریلیا سے کچھ رقم بھیج دیا کرتے تھے سو زندگی لشٹم پشٹم گزرنے لگی۔ گلریز اور تبریز دونوں ہی آسڑیلیا میں اپنے دادا اور چچا کی سر پرستی میں تھے اور میرا ان سے فون بھر ہی رابطہ تھا۔ میرے گھونسلے کے پنچھی اب اپنے زور بازو سے اڑان بھرنے کے لائق ہو چلے تھے۔ ان کے لیے دنیا وسیع و رنگین تھی سو اس ہما ہمی اور تمناؤں کے میلے ٹھیلے میں فلحال انہیں اس دقیانوسی ماں کی یاد نہیں تڑپاتی تھی۔
میری زندگی بھی ایک لگی بندھی ڈگر پر چل پڑی اور میں اپنے تینوں دوستوں کے ساتھ مطمئن تھی کہ میری زندگی پہلے بھی کب رونقوں سے عبارت تھی۔ طوطا میٹھری اپنی بولی سے دن بھر گھر میں رونق لگائے رکھتا اور بلی نازلی، سدا کی من موجی ٹھہری، کبھی تو دوست دیرینہ و ہمدم طرح کی طرح خر خر کرتی لپٹی جاتی اور کبھی فوراً ہی پینترا بدل کر سوتن کی طرح پنجے نکال لیتی۔ کتا ٹربو البتہ ازل کا جان نثار و وفادار ایک مہربان مربی کی طرح پیش آتا۔
چھ سال بعد میری تقدیر نے پھر پلٹا کھایا اور ایک اور یک طرفہ فیصلہ مجھ پر کوڑے کی طرح برسا۔ مستنصر نڈھال بکھرے بکھرے اپنے پرانے گھر وآپس لوٹ آئے کہ وہ جو بڑے طمطراق سے مستنصر کی زندگی میں جلوہ افروز ہو کر دل کی مکین ہوئی تھیں، بد قسمتی سے مستنصر ان کے معیار کے نہ تھے کہ یہ بڑے غلام علی کے شیدا اور وہ میڈونا کی دلدادہ سو زندگی کی ناؤ اتھلے پانی کے ریت میں دھنس دھنس گئی۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ اب میں کیا کروں؟ اس چوبیس سالہ بےنام رفاقت میں، محبت تو دو چار سالوں کے بعد ہی منہ چھپا کے روپوش ہو چکی تھی اور پیچھے بچا تھا لحاظ۔ اب میں اس لحاظ کی ردا کی آخر کتنی اور کہاں تک رفو گری کروں؟
مزید کتنی دفعہ ٹوٹ کر بکھروں؟
میں تو شاید مان بھی لوں مگر اب اس ڈھنڈر اور ویران پڑے دل میں بیٹھی بھوتنی مُنّی نہیں مانتی۔