Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Muhafiz

Muhafiz

محافظ

بھلا یادوں سے کس کو مفر ہے۔ کچھ یادیں بیک وقت لبوں کو مسکراہٹ اور آنکھوں کو نمی عطا کرتی، تو کچھ بے ساختہ مسکراہٹ سے نوازتی ہیں۔ کچھ منہ کا مزہ اس قدر کڑوا کر دیتی ہیں، کہ اس کڑواہٹ کو دنیا کی بہترین چاکلیٹ بھی مٹھاس میں تبدیل کرنے سے قاصر۔ غرض رنگ رنگ اور طرح طرح کی کھٹی میٹھی یادوں کی گٹھڑی سب کے پاس ہوتی ہے۔ میں شرطیہ کہ سکتی ہوں کہ دنیا میں بہت کم لوگ ہوں گے جن کے پاس ایسی یاد ہو، جس سے وہ دیدہ و دانستہ نظریں چراتے ہوں یا جن کے دہرائے جانے پر پابندی عائد ہو۔ میری زندگی کا ایک طویل عرصہ ایسی ہی ایک یاد سے بوجھل ہے۔

امی نے مجھ سے اس یاد کو بھولنے کا وعدہ ضرور لیا تھا، صد شکر کہ کسی سے ذکر نہ کرنے کا وعدہ نہیں لیا۔ ویسے بھی جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں۔ اب اس یاد کے ذکر سے نہ کسی کا فائدہ اور نہ ہی نقصان ہے، البتہ میرا بوجھ ضرور ہلکا ہو جائے گا، اور شاید عرصے سے سہتی اس خلش اور چبھن میں کچھ کمی بھی واقع ہو۔ میرا بچپن اس فسوں کار دیار میں بسر ہوا، جہاں کا جادو سر چڑھ کر بولتا اور جس کا کاٹا پانی نہیں مانگتا۔ تقسیم سے بھی پہلے میرے نانا اپنی دفتری ذمہ داری نبھانے اس سنہرے ریشے کی سر زمین پر آئے تھے، اور اس کی سحر کاریوں کے ایسے اسیر ہوئے کہ اپنی نئی نویلی دلہن کو لیکر یہیں آباد ہو گئے۔

ہمارے گھرانے میں جہاں شین قاف سے آرستہ اُردو بولی جاتی تھی، وہیں اہل زبان کی طرح بنگلہ بھی مروجہ تھی۔ امی اور دونوں ماموں کی پیدائش ڈھاکہ ہی کی تھی اور عرصے بعد نانا نانی کی قبریں بھی اسی ڈھاکہ میں بنیں، گویا یہیں مٹی، مٹی سے ملی اور یہیں ہماری نال بھی گڑی۔ نانا بنگال کی ثقافت میں مکمل طور پر رنگے رچے تھے۔ اس حد تک کہ امی کتھک کی ماہر تھیں پر منی پوری، امی کا پسندیدہ ڈانس تھا۔ میرے دونوں ماموں اپنی پروفیشنل ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ فنکار بھی، دراصل یہ اس زرخیز مٹی کی اثر انگیزی تھی کہ وہ عام آدمی کو بھی کلاکار بنا دیتی۔ امی ڈھاکہ میڈیکل کالج کی فارغ التحصیل اور شہر کی بہت جانی مانی گائنیکالوجسٹ تھیں۔

میں اور میرے تینوں بھائی بھی اسی شہر جمال کے پروردہ تھے۔ امی نے بلاشبہ بہت خوب صورت بچپن اور جوانی گزاری، مگر ہمارا بچپن سیاسی بحران کا شکار اور شورش زدہ تھا۔ ان دنوں بنگال کی سرمئی شامیں، خوں رنگ ہونے لگی تھیں۔ وہ غیر بنگالی جو جنموں سے یہاں آباد تھے، اچانک غیر مقامی اور عرف عام میں بہاری کہلانے لگے، اور بنگال کی سر زمین سے ان کی وفاداری مخدوش ٹھہرائی جانے لگی۔ ہم لوگ دھان منڈی میں سبزے سے ڈھکے، لال پختہ اینٹوں اور سفید دروازوں والے بے حد خوب صورت گھر میں رہتے تھے، جہان باغیچے کی ہریالی، لال اینٹوں کے پس منظر میں زیادہ شوخ اور ہری دکھتی۔

ہمارے گھر کے عین سامنے تالاب تھا، جسے ہر شام درختوں کی اوٹ میں ڈوبتا سورج پگھلے تانبے کا روپ عطا کرتا، اور جہاں پورے چاند کی رات ناریل کے پتوں کی مدھر موسیقی میں پریاں رقص کیا کرتیں تھیں۔ میری یادداشت میں آج بھی وہ دن اپنی تمام جزیات کے ساتھ جھمجھماتا ہے۔ اپریل کے آخری ایام تھے، اور بہار اپنے پنکھ سمیٹ کر گرمیوں کو صحنوں اور آنگنوں میں پھیلاتی جا رہی تھی۔ فوجی آپریشن (آپریشن سرچ لائٹ) کے بعد اسکول کھل چکے تھے، اور بظاہر زندگی اپنی پرانی ڈگر پر رواں دواں تھی اور غیر مقامیوں کے چہروں پر چھائی وحشت، اب طمانیت میں بدلتی جا رہی تھی۔

امی آج کل ہسپتال سے شام گئے لوٹا کرتیں، بلکہ کبھی کبھی تو رات بھی ہو جاتی تھی اور اشرفی بوا ہی ہم لوگوں کے سارے کام، یعنی یونی فارم بدلوانے سے لیکر کھلانے پلانے تک کی ذمہ دار تھیں۔ دراصل امی اب ہسپتال سے محمد پور کیمپ چلی جایا کرتیں تھیں۔ شہر کے تمام کیمپ مشرقی پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں سے، لٹ پٹ کر آنے والے پناہ گزینوں سے بھرے پڑے تھے۔ کسی بھی کیمپ میں جوان مرد تو ڈھونڈے سے بھی نہ ملتے، البتہ بوڑھی عورتوں کی کثرت تھی۔ لڑکیاں بھی بہت کم تھیں اور جو تھیں بھی وہ یا تو انتہائی زخمی یا پھر مخبوط الحواس۔

اس شام امی کے ہمراہ ایک ڈری سہمی وحشت زدہ لڑکی تھی، جو اپنے پراگندہ اور ابتر حلیے کے باوجود مبہوت کر دینے والی حسین مورت تھی، نہایت ملیحہ اور نمکین۔ انتہائی دلفریب نین نقش اور کومل بدن۔ میں اس لڑکی کے حسن کامل کو دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی۔ امی اور اشرفی بؤا نے صدمے سے بے حال اس لڑکی کو سنبھالا۔ دوسرے دن اسکول سے وآپسی پر میرے پوچھنے پر اشرفی بؤا نے بتایا کہ وہ سو رہی ہے۔ ہفتہ دس دن اس کے ایسے ہی سوتے جاگتے گزرے، میں چپکے سے باغیچے کی شمالی دیوار کے ساتھ بنے اشرفی بؤا کے کواٹر کی کھڑی کی جالی سے، ناک چپکائے اس کے بے سدھ پڑے وجود کو تکا کرتی کہ وہ مجھے بالکل سوتی جاگتی بڑی سی گڑیا لگتی تھی۔

امی نے اشرفی بؤا کو کلی طور پر اسی لڑکی کے لیے مختص کر دیا تھا، اور ہم لوگوں کی دیکھ رکھ پر، اب ڈرائیور چچا کی بیٹی بیلا مامور تھی۔ شاید اسے آئے مہینے سے اوپر ہو چلا تھا، مگر اب اس کی طبیعت اور زیادہ خراب رہنے لگی تھی۔ وہ ہر وقت الٹیاں کرتی اور کبھی کبھی اسے دورا سا پڑتا اور وہ چیختی چلاتی، زور زور سے روتی اور ایسے میں جو شخص بھی اس کے قریب آنے کی کوشش کرتا، اسے نوچتی کھسوٹتی اور مارتی۔ اب مجھے اس سے ڈر لگنے لگا تھا۔ وہ عجیب بے ڈھنگی سی ہوگئی تھی، روز بروز سوکھتی جا رہی تھی اور اس کا چمکتا، لشکتا کندن جیسا رنگ خاکستری ہو رہا تھا، جیسے راکھ ہوتی لکڑی۔

جب وہ نارمل ہوتی تب بھی کسی سے باتیں نہیں کرتی حالانکہ وہ گونگی نہیں تھی، وہ بس یا تو روتی رہتی یا پھر ایک ٹک خلا میں کچھ گھورتی رہتی۔ اشرفی بؤا نے مجھے بتایا تھا کہ اس کا نام " مہتاب" ہے، اور وہ یقیناً چودھویں کا چاند ہی تھی مگر اب تو گہنائی گئی تھی۔ اشرفی بؤا اس کا بیٹیوں کی طرح خیال رکھتی، اور بہت زور زبردستی اور محبت سے اسے کھانا اور پھل کھلایا کرتی تھیں۔ پھر ایک رات، جب ہم سب رات کا کھانا کھا ہی رہے تھے، کہ اشرفی بؤا اپنے کواٹر سے ننگے سر پیر، امی کو آوازیں دیتی بھاگتی آئیں، اور امی جلدی سے کھانا ادھورا چھوڑ کر آپنا بیگ سنبھالتی کواٹر کی جانب بھاگیں۔

وہ چاند، ایک نکھری اجلی چاندنی کو جنم دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روپوش ہوا، مگر چاندنی کو بھی دنیا نہ بھائی، اور وہ بھی چاند کے ساتھ رات کی اتھاہ گہرائیوں میں گم ہوئی۔ دوسری صبح میں نے تدفین سے پہلے مہتاب کو دیکھا، وہ دوبارہ پہلے کی طرح خوب صورت ہوگئی تھی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ، کہ اب اس کے چہرے پر وحشت نہیں بلکہ ابدی سکون تھا۔ اس کی بچی اپنی ملیحہ ماں کے برعکس نہایت گوری چٹی تھی۔ حبس بھری دوپہر میں دونوں ماں بیٹی محمد پور کے قبرستان میں دفنائیں گئیں۔ اس کے بعد ہمارے گھر میں خاموشیوں نے ڈیرا ڈال دیا۔ سارے کام میکانی انداز میں انجام دیے جاتے پر گھر کی جامِد چپ نہیں ٹوٹتی، حتیٰ کہ ہم بھائی بہن بھی لان میں کھیلنا چھوڑ چکے تھے۔

تیزی سے بدلتے حالات کے سبب ڈیڈی مسلسل امی سے مغربی پاکستان چلنے پر اصرار کرتے رہے، اور امی گم سم ہوتیں گئیں، یہاں تک کہ سقوط کی صبحِ سیاہ آ گئ، اور ہم لوگ بڑی مشکلوں سے بلوائیوں سے جان بچا کر intercontinentalہوٹل میں پناہ گزیں ہوئے، اور پھر تین دن کے بعد بھارتیوں کے اسیر۔ لکھنؤ کیمپ میں لمبے عرصے پی او ڈبلیو رہنے کے بعد پاکستان آئے، جو نہ جانے کس وجہ سے نیا پاکستان کہلایا جانے لگا تھا؟ سمجھ سے باہر تھا یہ بے تکا ٹائٹل۔ زندگی پھر سے رواں ہوگئی اور رفتہ رفتہ سب کچھ معمول پر آ گیا۔ سقوط مشرقی پاکستان قصہ پارینہ ہوا، اس حد تک کہ نصاب کی کتابوں میں سکڑ کر بمشکل ایک پیراگراف میں سما گیا۔ نئی نسل اس المیے سے تقریباًنا واقف و نا آشنا ہی رہی۔

وہ محبانِ وطن جو مشرقی بازو میں اسیرِِ وفا تھے اور اب، تین نسلوں کے بعد بھی خود کو پاکستانی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، انہیں ان کے مغربی بازو نے عضو معطل جانا اور ان کو اپنایا ہی نہیں۔ وہ جو وطن کی محبت میں دار پر وارے گئے، ان کا کہیں نام ہی نہیں۔ حکومتیں آتیں رہیں جاتیں رہیں، جمہوریت کا غوغا بھی رہا اور بوٹوں کی دھمک بھی مگر ان محبانِ وطن کی آہ و کراہ اور بے بسی، ہر حکومت کی نظروں سے اوجھل ہی رہی۔ یہاں تک کہ عام پاکستانیوں نے بھی انہیں بھلا دیا۔

میں ڈاؤ میڈیکل کالج سے فارغ ہوئی اور امی کی طرح گائنی کا شعبہ اپنایا۔ یہ میری شادی سے کوئی ڈیڑھ دو مہینے پہلے کی بات ہے۔ میں ایک بہت ہی پیچیدہ کیس نبٹا کر تھکی ہاری رات گئے گھر پہنچی، ڈیڈی سونے جا چکے تھے۔ امی اور میں دیر تک اس کیس پر باتیں کرتے رہے، کہ ایک دم امی کے منہ سے نکلا، کہ مہتاب کا کیس بھی ایسا ہی پیچیدہ تھا۔ میں نے امی سے کہا کہ "امی آپ ہمیشہ مہتاب کا قصہ ٹال جاتی ہیں، مگر پلیز آج مجھے اس کی کہانی سنا ہی دیجیے۔ " امی مجھے دیکھتی رہیں پھر انہوں نے ایک گہری سانس لی، جیسے وہ بھی اب اس بوجھ سے مکت ہونا چاہتی ہوں۔

مہتاب مجھے بہت برے حالوں میں محمد پور کیمپ میں ملِی تھی۔ اسے اور بہت سی دوسری لڑکیوں کو، پانچ دن پہلے آرمی والے اندرون بنگال سے ریسکیو کرکے، کیمپ میں چھوڑ گئے تھے۔ سب لڑکیوں کا برا حال تھا، وہ زخموں سے چور چور تھیں۔ کسی کی چھاتی کٹی ہوئی تھی، تو کسی کے سینے پر خنجر کی نوک سے جئے بنگلہ لکھا ہوا تھا، اور کچھ کی اندام نہانی انتہائی مخدوش حالت میں تھی۔ ہماری ٹیم سے جو علاج معالجہ بن پڑا وہ ہم لوگوں نے کیا، پر دو لڑکیاں اندام نہانی کے پھٹنے کے باعث جاں بر نہ ہو سکیں۔

مہتاب کا مسئلہ یہ تھا، کہ یہ دو بار خودکشی کی کوشش کر چکی تھی۔ کیمپ کی منتظمین کا کہنا تھا، کہ ان کے پاس افرادی قوت بہت کم ہے، سو وہ اس کی نگرانی نہیں کر سکتیں۔ ان کے کہنے پر میں مہتاب کو گھر لے آئی، اور اشرفی بؤا کو اس کی نگرانی اور دیکھ رکھ پر متعین کر دیا۔ شروع کے آٹھ دس دن تو میں نے اسے مسکن دواؤں ہی پر رکھا، مگر جب اس کا حمل خود اس پر آشکارا ہوا تو وہ پھر نیم دیوانی ہوگئی، ظاہر ہے ایک پندرہ سولہ سال کی لڑکی جس ٹراما سے گزر رہی تھی، اس میں یہی سب متوقع تھا۔

کیمپ میں جو فوجی ان لڑکیوں کو چھوڑنے آئے تھے، انہوں نے بتایا کہ ان اٹھارہ لڑکیوں کا گروہ انہیں بیچ جنگل میں ملا تھا۔ جہاں وہ راستہ بھٹک کر پہنچ گئے تھے۔ گھنے جنگل میں چھوٹا سا قطعہ زمین صاف کرکے، وہاں ایک جھونپڑی بنی ہوئی تھی جہاں سے یہ سب لڑکیاں، مادر زاد برہنہ اور زخمی حالت میں ملی تھیں۔ فوجیوں کا خیال تھا کہ وہ عارضی کیمپ تھا، جہاں لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی جاتی تھی، اور بعد میں کچھ کو زندہ رکھ کر کلکتے اسمگل کر دیا جاتا تھا، کہ ان دنوں پاکستان کی بیٹیوں سے بھارتی منڈی سر پلس تھی۔ پاکستانی فوجیوں کی خبر پاتے ہی، مکتی باہنی والے ان لڑکیوں کو چھوڑ چھاڑ کر بھاگ گئے۔

اشرفی بؤا کی مسلسل شفقت اور محبت کے باعث، مہتاب ان پر کچھ کچھ کھلنے لگی تھی۔ وقت سے قبل زچگی کے باعث، وہ اور اس کی اٹھ ماسو بچی بچ نہ سکیں، اور دونوں ہی اس سنگ دِل دنیا سے پردہ کر گئیں۔ میرے لیے مہتاب کی گوری چٹی بیٹی، کسی پہیلی سے کم نہ تھی۔ مہتاب کی موت کے چوتھے دن، اشرفی بؤا نے مجھے روتے ہوئے بتایا کہ مہتاب کو مکتی باہنی والوں نے اٹھایا ضرور تھا، مگر اس کو بے آبرو کرنے سے پہلے ہی، ان لوگوں کو پاکستان آرمی کی سن گن مل گئی اور وہ لوگ ہبڑ دھبڑ میں بھاگ گئے۔ بد قسمتی سے مہتاب کو گہنانے والے اس کے اپنے محافظ تھے۔

Check Also

Shaitan Ke Agent

By Javed Chaudhry