Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Lamhati Mohabbat

Lamhati Mohabbat

لمحاتی محبت

ہنستے ہنستے یک دم ہنسی کو بریک لگ جاتا تھا اور پسندیدہ کھانا کھاتے ہوئے ٹیسٹ بڈ ذائقے سے نا آشنا ہونے لگتے تھے۔

وجہ! وجہ انہونی کا ہراس جو سب کے دل پر کاسنی سانپ کی طرح لپٹا ہوا تھا۔ سرحدوں پر غیر اعلانیہ جنگ چھڑ چکی تھی اور فضا مسموم تھی۔ مستقبل کے دیکھے گئے خوش رنگ خواب بےیقینی کی دھند میں تحلیل ہورہے تھے۔ اعتبار اور بھروسہ جسے جزبات ہیلیئم گیس بھرے غبارے کی طرح ہوا برد۔

گو کے شہروں میں حتی الامکان زندگی کو معمول کے مطابق گزارنے کا جتن جاری تھا، دفاتر اور کالج کھلے ہوئے تھے اور ہم چاروں بچپن کے لنگوٹیا کالج کی کینٹین میں چائے اور سموسہ اڑاتے ہوئے زیبا کے حسن جہاں سوز کو ڈسکس کرتے کرتے جانے کیسے گفتگو متوقع جنگ کی جانب موڑ بیٹھتے اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔

ہم چاروں سیکنڈ ئیر میں تھے اور جگمگاتے خوابوں سے ہماری آنکھیں روشن اور دل پر امنگ تھے۔

چاروں ہی متوسط طبقے کے آدرشی جوان بلکہ جوان بھی کیا نوجوان تھے۔ میں ان دونوں زیبا کی فلم " انسان اور ادمی"کے نشے سے شرسار اور تازہ تازہ زیبا کا گرفتار تھا۔

اب نئی مصیبت یہ تھی کہ زیبا فزکس کی کتاب کے صفحات پر بھی طلوع ہوجاتی جس کی وجہ سے میری رٹافیکیشن بہت متاثر ہوتی تھی۔ میں یعنی صمد گھر میں اپنی دو بہنوں بڑی آپا اور چھوٹی آپا سے چھوٹا تھا لہذا خوب ہی رگیدا جاتا تھا۔ میں اترتی شام میں آنگن میں نیم کی گھنیری چھاؤں تلے کیمیاء کی کلیات سے نبردآزما تھا۔ بڑی آپا رات کے کھانے کی تیاری میں جتی بھات ابالنے کے لیےچڑھا کر رہو مچھلی کے سالن کے لیے دل بٹے پر مسالہ پیس رہی تھیں کہ اچانک چھوٹی آپا نے کرچھل میں دال بگھارتے ہوئے کہا کہ

"آپا اپنے صمدو کے لیے عصمت کیسی رہے گی؟"

میرے تو پیروں سے لگی اور سر پہ بجھی ایک تو مجھے اپنے اچھے بھلے نام صمد کو بگاڑنا ہی زہر لگتا تھا اور اوپر سے وہ نخریلی زرد رو عصمت۔

مجھے اپنی چچازاد عصمت چغل خور بچپن ہی سے زہر لگتی تھی اور میں نے جھنجھلا تے ہوئے چیخ کر کہا تھا کہ میں کسی عصمت وسمت سے شادی نہیں کرونگا میں تو زیبا جیسی خوبصورت لڑکی سے شادی کروں گا۔ دونوں آپا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئی تھیں اور اس چکر میں ابلتا بھات گیلا ہو کر گل ہت ہوگیا اور میرا جو ریکارڈ لگا تھا سو الگ۔

رات میں دسترخوان پر اماں کی کراری ڈانٹ بھی نہ چاولوں کی ہیئت میں کوئی تبدیلی لا سکی اور نہ ہی دونوں آپاؤں کی ہنسوڑہ طبیعتوں پر اثر انداز ہو سکی۔ اماں رزق کے معاملے میں بہت حساس تھیں۔ اماں کی بڑبڑاہٹ کو ابا میاں نے شانت کیا۔

ان دنوں الیاس ایک پری پیکر پر نثار تھا۔ وہ تین لڑکیوں اور دو لڑکوں پر مشتمل ایک گروپ تھا اور معاشی آسودگی ان کے حال اور حلیے سے عیاں تھی۔ وہ پانچوں ہنستے اٹکھیلیاں کرتے ہمیشہ ساتھ ہوتے۔ الیاس دل کے ہاتھوں مجبور تھا اور اس لڑکی کا ٹھور ٹھکانہ سب کھوج لایا تھا۔ اس لڑکی کے نام سے ناواقفیت کی بنا پر ہم اسے پری کہا کرتے تھے کہ وہ واقعی پریوں جیسا حسن و معصومیت رکھتی تھی۔

اس کا شاہانہ دو منزلہ گھر "مرتضٰی منزل" گھاٹ کےکنارے تھا۔ اس گروپ میں پری اور پری کا ایک بھائی اور بہن تھے اور دوسرا لمبا چھریرا گھنگھریالے بالوں والا متین سا جوان اور اسی سے ملتی جلتی گڑیا جیسی لڑکی شاید اس کی چھوٹی بہن تھی۔ یہ پری کا پڑوسی تھا اور شاندار اور پرشکوہ " کاشانہ" کا مکین۔

شاید ہم چاروں (میں، الیاس، سکندر اور ناصر) کی طرح یہ پانچوں بھی بچپن کے سنگی ساتھی تھے پر الیاس نے اس لڑکے کو اپنا رقیب رو سیاہ مانتے ہوئے اس سے رقابت کا رشتہ استوار کر لیا تھا اور آج کل آہیں بھرنے اور سلگنے کے علاؤہ کسی جوگے نہیں رہا تھا۔

مجھے پری اور اس لڑکے کے مابین سادی سی دوستی کے علاوہ اور کوئی رشتہ نظر نہیں آتا تھا پر عاشق کا کیا علاج کہ اسے تو محبوب کے قریب سے گزرتی ہوا اور چٹکتی چاندنی بھی رقیب لگتی ہے۔

ملک کی سیاسی صورتحال مخدوش تھی اور فضا کثیف۔ پڑھائی سے بھی دل اچٹ اچٹ جاتا تھا کہ جانے امتحانات ہوں گے بھی کہ نہیں؟

سال کے ضائع ہونے کی فکر بھی دامن گیر تھی اور ڈھاکہ میڈیکل کالج دسترس سے دور ہوتا محسوس ہوتا تھا۔ میرا شہر چھوٹا سا تھا سو پری اور اس کا گروپ نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں ہر جگہ نظر آ جاتا تھا یا شاید انجانے میں ہم چاروں ہر اس جگہ موجود ہوتے تھے جہاں وہ گروپ متوقع ہوتا۔ ان دنوں لگتا تھا ہر راستہ ہر گلی پری کی طرف ہی جاتی ہے۔ الیاس کو وہ سرخ رنگ کے لباس میں گل لالہ لگتی تھی۔ میرا تبصرا کرنا مناسب نہ تھا مگر سچ تو یہ ہے کہ نارنجی رنگ گویا بنا ہی اسی کے لیے تھا۔ اس رنگ میں وہ بالکل سرما کی دھوپ لگتی تھی راحت جاں و دل۔

پری کے گھر کے سامنے والے بڑے میدان میں آرمی والوں نے عارضی ریکروٹنگ کیمپ کھولا تھا اور وہاں رضا کار بھرتی کئے جا رہے تھے۔ ان رضاکاروں کو معمولی سی ٹرینڈنگ دے کر فوجیوں کی مدد کے لیے محاذ پر بھیجا جا رہا تھا۔ ایک دو دن چھوڑ کر ٹرک بھر کر نوجوان نامعلوم منزل کی طرف روانہ کیے جاتے۔

ہم چاروں بھی میدان سے گزرتی سڑک کی پلیا پر بوڑھے برگد کی چھاؤں تلے بیٹھ کر یہ منظر دیکھا کرتے۔ وہاں گونجتے قومی نغمے خون میں جوار بھاٹا کی سی کیفیت پیدا کرتے اور وطن پر مر مٹنے کا جزبہ عود کر آتا۔ آخر ایک دن ہم چاروں بھی جزبے حب الوطنی سے سرشار اس کیمپ میں داخل ہو گئے اور منتخب بھی ہو گئے۔

میں جب مختصر سا سامان لینے گھر آیا اور اماں کو سلیکشن کی خبر ملی تو اماں صدمے سے بے ہوش ہوگئی۔ بڑی اور چھوٹی آپا کے چہرے بالکل نچڑ گئے اور ابا میاں ساکت کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ سب سے پہلے ابا میاں نے خود کو سنبھالا پھر اماں کا بکھرا وجود سمیٹ کر انہیں تسلی دلاسہ دیا اور جہاد کی فضیلت پر مختصر تقریر بھی کر دی۔ اماں نے جب ہندوستان سے ہجرت کی تھی تو آگ اور خون کا دریا پار کرتے ہوئے سارے رشتے کھو چکی تھیں۔

وہ بڑی ہمت کر کہ اٹھیں اور آنسؤں کی آبشار میں میرا مختصر سا سامان پیک کیا۔ بڑی آپا نے جلدی سے روغنی روٹی کپڑے میں لپیٹ کر میرے چرمی تھیلے میں رکھ دی۔ چھوٹی آپا ٹکر ٹکر خالی خالی آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہیں۔ اماں اور دونوں آپاوں کا پیار لیکر دہلیز سے نکلنے لگا تو ابا میاں نے گلے لگاتے ہوئے اپنی کلائی سے گھڑی اتار کر میری کلائی پر باندھ دی اور میرے ساتھ لڑکھڑاتے قدموں سے کیمپ کی سمت چلے۔ راستے میں الیاس، سکندر اور ناصر بھی مل گئے سب کے گھروں میں کم و بیش یہی صورت گریہ تھی۔ ناصر تو ویسے بھی بیوہ ماں کا اکلوتا سہارا تھا۔

کیمپ میں معمول کی گہما گہمی تھی اور نوجوانوں کا بڑھتا ہوا رش، کچھ لڑکے تو اس قدر کم عمر تھے کہ ان کے چہروں پر ابھی جوانی کا سبزہ بھی ٹھیک طرح سے نہیں اگا تھا۔ کمیپ کی پلیا پر پہنچتے ہی الیاس کی نظریں بےساختہ مرتضیٰ منزل کا طواف کرنے لگیں۔ شاید دل کی لگن ہی تھی کہ پری ٹیرس پر کھڑی نظر آ گئی۔

اماں کے خیال سے میں نے ابا کو زبردستی رخصت کر دیا تھا۔ جب کوچ کا اعلان ہوا تو ہم سب اپنے سامان سمیت ٹرکوں پر چڑھنے لگے۔ کلمہ شہادت کی تکرار اور جی کو گرماتا ہوا نعرہ تکبیر بڑی ہی ہیجان انگیز فضا تھی۔ آگے پیچھے دونوں ٹرک روانہ ہوئے اتفاق سے ہم چاروں پیچھے والے ٹرک میں تھے اور پری کے گھر کے قریب پہچنے پر اضطراری طور پر الیاس اور اس کی دیکھا دیکھی ہم تینوں بھی اٹھ کر ٹرک کا راڈ پکڑے کنارے کی طرف آ گئے۔ ٹرک سست رفتاری سے آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک مرتضیٰ منزل کا پھاٹک کھلا اور پری اپنی دھانی اوڑھنی میں بھرے ہوئے پھول ٹرکوں پر نچھاور کرنے لگی۔

وہ آج نارنجی رنگ میں گویا سرما کی گرماتی خوشنما دھوپ لگ رہی تھی۔ عجیب بات کے ہماری ٹرک پر اس کے برسائے ہوئے بیشتر پھول راستے کے دھول ہوئے مگر ایک اڑتا ہوا سرخ گلاب ٹرک کے اندر الیاس کے لوکنے سے پہلے ہی میں نے بڑھ کر ہوا میں لپک لیا اور اسی دم میری اور پری کی نگاہیں چار ہوئیں اور میں وارفتگی سے اسے ہاتھ ہلاتا دیکھ کر بے ساختہ ہاتھ ہلانے لگا۔ جب وہ دلآویز سرما کی دھوپ نقطہ بھی نہ رہی تو میں پلٹ کر تختے پر بیٹھا اور میری نظریں بے اختیار الیاس پر پڑی وہاں ایک جامد چپ تھی۔

میں نے خاموشی اور نرمی سے اس پھول کو دل کے قریب اپنی پاکٹ میں رکھ لیا۔ میرا دل اس وقت اس بھری دنیا کا سب سے زیادہ شانت اور خوش نصیب دل تھا کہ وہ سرما کی دھوپ میرے دل کے قریب تھی۔

مضافات میں پانچ دنوں کی ٹرینگ کے بعد ہم کچے پکے لڑکے ناکافی ہتھیاروں سمیت فوجی کانوائے کے ساتھ جیسور کے باڈر پر پہنچے۔ یہاں گمسان کی جنگ تھی اور ہمارا سارا دارومدار توکل اللہ۔ میں اور سکندر سپلائی پر مامور تھے اور الیاس اور ناصر وائرلیس کی ڈیوٹی نبھا رہے تھے۔ آج چوتھا دن تھا اور ہماری تین توپیں ناکارہ ہو چکیں تھیں۔ ہمارے پاس اب بس ایک ہلکی توپ اور بہت تھوڑے سے گولے بارود رہ گئے تھے۔ ہمارے دو تہائی سے زیادہ ساتھی شہید ہو چکے تھے چنانچہ میجر قدیر نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا۔ دشمن ٹینکوں کی آہنی دیوار لے کر تیزی سے آگے بڑھتا چلا آ رہا تھا اور ہمارے پاس وقتی پسپائی کے علاؤہ کوئی چارہ نہ تھا۔ خیال یہی تھا پیچھے ہٹتے ہوئے پچھلی چوکی کی مدد سے دشمن پر ایک بھرپور حملہ

کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پیچھے ہٹتے ہوئے ایک گولہ میرے اور سکندر کے قریب پھٹا اور سکندر کو میں نے چیتھڑے میں تبدیل ہوتے اور اپنے آدھے دھڑ کو خود سے جدا ہو کر پھڑکتے دیکھا۔

میرے دل کے قریب پاکٹ میں رکھا سرخ گلاب جو اب سوکھ کر سیاہی مائل ہو چکا تھا میرے ہی خون میں تر بتر ہو کر پھر سرخ ہو رہا تھا اور میری بجھتی پتلیوں میں نارنجی سرما کی دھوپ ہاتھ ہلاتی ہوئی ساکت ہو رہی تھی۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo