Lahoo Bolta Bhi Hai
لہو بولتا بھی ہے
بائیس جنوری 1957 کی ٹھٹھرتی ہوئی صبح تھی جب ایک بچی نے اس عالم حیرت میں آنکھیں کھولیں۔ موہنی صورت اور ستارہ آنکھیں۔ باپ نے دلار سے اس چمکتی کالی آنکھوں والی گڑیا کا نام پروین رکھا۔ 1967 میں رحمان صاحب کے خاندان نے ہندوستان کے صوبہ بہار سے پاکستان ہجرت کی اور مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ کو اپنا مستقر کیا۔ بدنصیبی سے جلد ہی مشرقی پاکستان میں شورشیں برپا ہوئی اور اس خاندان کو راتوں رات ہجرت کرنی پڑی۔ یوں پروین کو کمسنی ہی میں ہجرت کے الام و ابتلا سے آشنائی ہوئی۔
کراچی کہ غریب پرور شہر ہے، اس نے اس بدحال کنبے کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیا اور پروین نے اس شہر میں تعلیم کے تمام مدارج طے کیے۔ 1982 میں داؤد کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی سے آرکیٹیکچر کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے فائنل پروجیکٹ کے لیے پروین رحمان نے قائدِ آباد جیسے پسماندہ علاقے کو چنا اور انتہائی جانفشانی کے ساتھ اس علاقے میں موجود شہری اور ترقیاتی مسائل کی نشاندھی سے لے کر ان کے حل تک پر سیر حاصل مواد جمع کیا۔
1983 میں اختر حمید خان جو اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے ڈائریکٹر تھے، انہوں نے پروین کو اپنی ٹیم کا حصہ بنا لیا۔ پروین وہاں جوائنٹ ڈائریکٹر لگ گئیں۔ پروین رحمان نے اورنگی میں لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت سیوریج لائن انتہائی سستے طریقوں سے ڈالنا سیکھائیں۔ وہ عام آدمی کے ساتھ بیٹھ کر اور لوگوں کے گھروں میں جا کر ان کی تکالیف کو محسوس کرتی پھر اس کے تدارک کے لیے جی جان سے کوشاں ہو جاتی تھیں۔ ہجرتوں کی ماری پروین کا موٹو تھا سب کی اپنی چھت۔
پروین نے 1986 میں نیدرلینڈ کے روٹرڈم میں واقع ہاؤسنگ اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ سے رہائش، عمارت اور شہری منصوبہ بندی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما حاصل کیا۔ 1988 میں، او پی پی کو چار تنظیموں میں تقسیم کر دیا گیا، اور پروین رحمٰن او پی پی آر ٹی آئی (اورنگی پائلٹ پروجیکٹ - ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ) کی ڈائریکٹر بن گئیں، تعلیم، نوجوانوں کی تربیت، پانی کی فراہمی اور محفوظ رہائش کے پروگراموں کا انتظام بھی کرتی تھیں۔
1989ء میں انہوں نے کراچی میں ایک غیر سرکاری تنظیم اربن ریسورس سنٹر کی بنیاد رکھی اور وہ کم آمدنی والے مکانات کے لیے مختص ایک اور این جی او، او پی پی او سی ٹی (اورنگی چیریٹیبل ٹرسٹ، او پی پی کی مائیکرو فنانس برانچ) سیبین کے بورڈ کا بھی حصہ تھی۔ وہ کراچی یونیورسٹی، این ای ڈی یونیورسٹی، انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر اور داؤد کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، جو سب کراچی میں واقع تھیں میں پڑھاتی تھیں۔
ایوارڈز۔
اوسلو، ناروے میں واقع انٹرنیشنل واٹر اکیڈمی کی اعزازی زندگی بھر کی رکنیت۔
1986 میں جیسس ایوارڈ برائے معاشرتی کام۔
1994 ہاؤسنگ کے لئے قومی عمارت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ایوارڈ۔
1996 میں اقوام متحدہ کے ہیبی ٹیٹ کی بہترین پریکٹس (او پی پی آر ٹی آئی کے ساتھ)
کمیونٹی ریسرچ کے لیے 1997 فیض فاؤنڈیشن ایوارڈ۔
2001 پیشہ ورانہ خدمات کے لئے روٹری کلب ایوارڈ۔
2001 ورلڈ ہیبی ٹیٹ ایوارڈ یافتہ (او پی پی آر ٹی آئی کے ساتھ)۔
2013 ستارہِ شجاعت، صدر پاکستان نے 23 مارچ 2013 کو دیا۔
اورنگی میں عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے اور سیوریج لائن کی بحالی کے لیے کوششیں کرتی پروین کی تحقیقات کا دائرہ کراچی کی سیوریج لائن تک وسیع ہوگیا۔ انہوں نے کراچی کے تمام نالوں کا سروے کیا اور کراچی میں گرنے والے تمام نالوں کی ابتداء و انتہاء معلوم کی۔ اس کے ساتھ ہی اس روح فرسا حقیقت سے آشنائی بھی حاصل کی، کہ کراچی میں نالوں کی فروخت سرکاری سطح پر ہو رہی ہے۔
سیوریج نالوں سے شروع ہونے والی یہ تحقیق انہیں کراچی میں پانی کی عدم فراہمی تک لے آئی اور اس حقیقت نے انہیں ششدر کر دیا کہ کراچی کے محافظ ہی اس شہر کو لوٹ رہے ہیں۔ ان ظالموں نے جگہ جگہ واٹر ہائیڈرنٹس بنا رکھے تھے اور عوام کو ملنے والا مفت پانی چھین کر اسی شہر کے مظلوم عوام کو منہ مانگے داموں بیچ رہے تھے اور نالوں پر قبضہ کر کے وہاں بستیاں بسا رہے تھے۔
پروین رحمان نے تمام ثبوت و شواہد اکٹھے کیے اور بتا دیا کہ جس دن بھی کراچی میں ایک حد سے زیادہ بارش ہوگی، اس دن کراچی کے مضافات اور پوش علاقے ایک جیسی آفت کا شکار ہوں گے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں زمین کے قبضہ مافیا اور ہائیڈرنٹ مافیا کا نام بھی لیا اور مجرموں کی یہ نقاب کشائی ہی ان کا سنگین جرم ٹھہری۔ تیرہ مارچ 2013 کا وہ دن بھی موسم بہار کا خوب صورت روشن دن تھا۔ پروین دن بھر کی بھاگ دوڑ کے بعد گھر کی جانب روانہ تھیں جب منگھو پیر روڈ پر پختون مارکیٹ کے قریب اسپیڈ بریکر کے باعث ڈرائیور نے گاڑی کی رفتار دھیمی کی اور اس کے ساتھ ہی چار مسلح افراد نے انکی گاڑی پر فائرنگ کر دی۔
پچھلی سیٹ پر بیٹھی پروین رحمان کے گردن پہ گولیاں لگیں، ڈرائیور گاڑی بھگاتا ہوا عباسی شہید ہسپتال لایا مگر ٹریٹمنٹ کے دوران ہی سب کچھ ختم ہوگیا۔ وہ درد دل رکھنے والی لڑکی جو دوسروں کی زندگیوں میں اجالا بکھیرا کرتی تھی اس کی دمکتی فعال زندگی کو بجھا دیا گیا۔ وہ جس نے پاکستان کے غریبوں کے لیے زمین اور بنیادی خدمات کے حقوق کے لیے سخت جدوجہد کی اس کے 28 سالہ طویل کیریئر کا یک لخت خاتمہ کر دیا گیا۔ پروین رحمان کا سنگین ترین جرم بس اتنا کہ وہ کراچی میں لینڈ مافیاز اور ان کے سیاسی سرپرستوں کی ناقد رہی تھیں۔
پروین رحمان نے ماضی میں شکایت کی تھی کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ ایک موقع پر، کچھ مسلح افراد نے ان کے دفاتر پر دھاوا بول دیا اور ان کے عملے کو وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا۔ پروین رحمٰن کے قتل میں اہم مشتبہ شخص جیسے کراچی اور مانسہرہ پولیس کی طرف سے کیے گئے ایک مشترکہ آپریشن کے دوران مانسہرہ سے گرفتار کیا گیا تھا، اس کا نام احمد خان عرف پپو کشمیری تھا۔ اگلے ہی دن پولیس نے قاری بلال نامی طالبان کے ایک کارکن کو ایک جعلی ان کاؤنٹر میں مار ڈالا اور دعویٰ کیا کہ وہی قاتل تھا جس کے نتیجے میں یہ کیس بند ہوگیا۔
چھ ماہ تک جب پروین کے کیس میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے انصاف کے حصول کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم ایک بینچ نے کراچی کے ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو پندرہ اپریل 2014 میں اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے لیے مقرر کیا۔ انکوائری کرنے والے جج نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا کہ پولیس کی جانب سے قتل کے شواہد کو بری طرح مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے۔
جوڈیشل انکوائری کی سفارشات کے پیشِ نظر سپریم کورٹ نے صوبہ سندھ کے محکمہ داخلہ کو حکم دیا کہ قتل کی از سر نو تفتیش کے لیے مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران پر مشتمل ایک جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی جائے۔ اس کے بعد کراچی پولیس نے پروین رحمٰن قتل کیس میں پانچ ملزمان کو گرفتار کیا جن کے نام ایاز شامزئی، رحیم سواتی، احمد علی عرف پپو کشمیری، امجد حسین آفریدی اور عمران سواتی تھے۔
نومبر 2014 میں ایک اعلیٰ پولیس افسر نے سپریم کورٹ میں یہ بیان دیا کہ پروین رحمان نے سرکاری زمینوں کا ایک نقشہ تیار کیا تھا، جس پر مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے غیر قانونی طور پر قبضے کر رکھے تھے۔ 2015 میں پروین رحمان کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ایک ملزم احمد خان عرف پپو کشمیری کو مانسہرہ سے گرفتار کیا جبکہ 2016 میں کراچی سے ایک مجرم رحیم سواتی کو گرفتار کیا۔ وہ ماضی میں اس علاقے سے عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے کونسلر منتخب ہوا تھا۔ اس کے بعد پولیس نے رحیم سواتی کے بیٹے عمران سواتی، ایاز شامزئی اور محمد امجد حسین کو گرفتار کیا۔
مارچ 2018 میں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پانچوں گرفتار ملزمان پر فرد جرم عائد کی لیکن انہوں نے جرم قبولنے سے انکار کیا اور کیس لڑنے کا فیصلہ کیا۔ استغاثہ کے مطابق ملزمان ایاز شامزئی اور رحیم سواتی اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے پیر آباد میں قائم دفتر کے قریب رہتے تھے اور انہوں نے پروین رحمان سے ان کے دفتر کی جگہ ایک جم کھولنے کے لیے زمین مانگی۔ محترمہ پروین کے انکار پر، جنوری 2013 میں رحیم سواتی کے گھر پر ملزمان نے ایک میٹنگ کی جس میں پروین رحمان کے قتل کی سازش تیار کی گئی۔ ملزمان نے کلعدم تحریک طالبان پاکستان کے مقامی لیڈر موسیٰ اور محفوظ اللہ عرف بھولو کو قتل کے عوض چالیس لاکھ دینے کا وعدہ کیا۔
بالاآخر آٹھ سال بعد 17 دسمبر 2021 کو کراچی سنٹرل جیل میں انسداد دہشت گردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نے فیصلہ سنایا۔ مجرم ثابت ہونے پر چار سزا پانے والوں میں محمد رحیم سواتی، ایاز شامزئی، محمد امجد حسین خان اور احمد خان عرف پپو کشمیری کو دو دو بار عمر قید کی سزا اور دو دو لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔ جب کہ کیس کے پانچویں ملزم عمران سواتی کو سہولت کاری کرنے کے جرم میں سات سال قید کی سزا سنائی۔
سچائی اور حق گوئی کی پاداش میں ایک چمکتا دمکتا روشن ستارہ بجھا دیا گیا۔ پروین رحمان پاکستان کی جرات مند بیٹی، ہنستی مسکراتی پروین جیسے لال رنگ پسند تھا، وہ مجرموں کو بے نقاب کرنے کے سبب اپنے ہی خون میں نہلا دی گئی۔
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے