Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Kahin Ke Nahi (2)

Kahin Ke Nahi (2)

کہیں کے نہیں (2)

فجر کے قریب لاشوں تلے دبے، معجزاتی طور پر زخمی حبیب احمد کو ہوش آیا اور وہ پورے گھر میں ڈگمگاتے پھرے۔ صحن میں ان کی بڑی بہو کی لاش پڑی تھی جو سات ماہ کی حاملہ تھی اور اس کا پیٹ چاک تھا، ماں کے ساتھ ہی اس کا نوزائیدہ بھی فرش خاک پہ چاک چاک خدا کے بندوں کی ستم گری پہ نوحہ کناں تھا۔ وہ واحد جوان عورت کی لاش تھی باقی ساتوں لڑکیوں کا کوئی پتہ نشان نہ تھا۔ بھنڈار کے ٹوٹے دروازے کے پاس ہی فیاض، نیاز اور دلاور کی مسخ شدہ لاشیں تھیں۔

پچھلے کمرے میں بھی کوئی زندہ نہیں تھا۔ حبیب احمد چکرا کر کمرے کی دہلیز پر ہی گر گئے۔ دوبارہ جب ہوش آیا تو کوئی ان کے سینے سے لپٹا ہوا تھا۔ دیکھا تو اکلوتا نواسہ کبیر سسک رہا تھا۔ مشکلوں سے اٹھے اسے اوک سے پانی پلایا اور وہیں دلان میں دیوار کے سہارے نواسے کو سینے سے لگائے بیٹھے زار و قطار روتے رہے۔ تنہا اوس بھری بھیگی رات ان کے ساتھ ماتم کناں ٹھہری رہی۔ انڈین آرمی نے جب محلے کا چکر لگایا تو انہیں اس قتل گاہ میں ایک مخبوط الحواس بوڑھا اور ایک دہشت زدہ بچہ ملا۔ ان دونوں کو مرکزی کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔

کچھ عرصے کے بعد یہ دونوں ڈھاکہ، محمد پور کے جینوا کیمپ میں پہنچا دیے گئے۔ کبیر بولنا بھول چکا تھا، بس نانا کے کرتے کا دامن تھامے خاموش بیٹھا رہتا۔ حبیب صاحب جب جب شعور کی چوکھٹ کو چھوتے تو نیند کی انجیکشن ہی ان کا مداوا ٹھہرتی۔

جانے کتنے مہینوں کے بعد کیمپ میں دریدہ دلوں اور فگار جسموں کا ایک اور قافلہ آیا۔ اس زخموں سے چور چور قافلے میں بد نصیب روشن بھی تھی۔ دمکتی روشن اب بجھا ہوا ستارا بھی نہ تھی۔

اتنے برے حالوں میں تھی کہ اپنی جان کبیر کو بھی نہ پہچان سکی۔ جانے کبیر نے اپنی اجڑی، زخمی ماں کو کیسے شناخت کر لیا؟ اس تمام عرصے میں وہ پہلی بار روشن کے پلو کو پکڑ کر بلک بلک کر رویا تھا۔ بیٹی کو زندہ پا کر گویا حبیب صاحب بھی جی اٹھے اور ہما وقت بیٹی تیمارداری و دلداری میں لگے رہتے۔ روشن پر جب جب پہچان کا لمحہ حاوی ہوتا تو باپ کے گلے لگ کر چیخ چیخ کر روتی ورنہ ڈری سہمی کسی کونے کھدرے میں چھپی رہتی۔ بیٹی کی حالت زار نے حبیب احمد کو نڈھال کر دیا تھا اور وہ اپنے آپ سے بھی نظریں چرانے پہ مجبور تھے۔ بد نصیب روشن حاملہ تھی۔

روشن نے کیمپ میں بچے کو جنم دیا۔ آنے والا ایسا بد نصیب بچہ کہ کسی نے اس کے کانوں میں اذان تک نہ دی۔ نہ اسے ماں کی گود میسر تھی اور نہ ہی دودھ مگر سخت جان ایسا کہ جی ہی گیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ روشن کے جسمانی زخم تقریباً بھر گئے، بال بھی بڑھ گئے مگر دل کا ناسور رستا ہی رہا۔ وہ جنون میں اکثر اس چھوٹی سی جان کو بری طرح پیٹ دیتی اور پھر گھنٹوں روتی، کرلاتی اور بین کرتی رہتی۔ کیمپ میں کئیوں کی یہی داستان تھی سو کون کس کے آنسو پونچھتا۔ سب ہی روتے بھی خود اور چپ بھی خود ہی ہو جاتے تھے۔

دن گزرتے رہے اور کیمپ کے اس اٹھ بائی اٹھ کے کمرے میں حبیب صاحب کا خاندان اور ان ہی کے ساتھ سید پور کا لٹا پٹا ایک اور خاندان بھی تھا۔ ظفر اللہ صاحب کا خاندان جو میاں بیوی اور بیوہ بیٹی راشدہ پر مشتمل تھا۔ ان کے خاندان کے نو لوگ سید پور میں شہید کیے جا چکے تھے۔ ان کی بیٹی راشدہ ہی، اب کبیر اور اس بچے کا جو اب تک تین خزائیں دیکھ چکا تھا، خیال رکھتی۔ وہ بچہ اب تک بے نام تھا اور محض "چھیلے" ہی کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ ایک دن کبیر کے جی میں جانے کیا آیا اور اس نے اس بچے کا نام سفیر رکھ دیا۔ روشن اب بھی سفیر کو دیکھ کر جنون میں آپے سے باہر ہو جاتی تھی۔ اسے بے دردی سے مارتی پھر خود کو بھی زد و کوب کرتی۔

جینوا کیمپ کی حالت ناگفتہ بہ تھی اور وہاں پچیس تیس ہزار لوگ بستے تھے۔ وہ کیمپ زمینی جہنم کا منظر پیش کرتا تھا۔ جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان تھا، نہ سینیٹیشن، نہ طبی سہولیات اور نہ ہی کیمپ میں موجود بچوں کے لیے تعلیم کی کوئی سہولت۔ نوے فیملی کے زیر استعمال فقط ایک کچا لیٹرین۔ کھڑکی سے عاری بوسیدہ کمرہ جس میں دس سے بارہ لوگ اپنی سانسوں کی گنتی پوری کرنے پر مجبور تھے۔ ان نامساعد حالات نے روشن کو تپ دق کا تحفہ دیا۔ جب کبیر دس سال کا تھا تو روشن خون تھوکتے تھوکتے زندگی کی قید سے مکت ہوگئیں۔ اس کے سال پیچھے حبیب احمد بھی چل دیے، جیسے ان کی زندگی روشن کی دیکھ رکھ ہی کے لیے تھی۔ کبیر اور سفیر، ظفر اللہ کے خاندان کے ساتھ رہتے رہے کہ خالا راشدہ ہی اب ان کی ماں تھیں۔

تعلیم سے عاری کبیر نے جوان ہوتے ہی کرائے پر سائیکل رکشہ چلانا شروع کر دیا مگر آئے دن نا مکمل کاغذات کی بنا پر پولیس اس کا ناطقہ بند کیے رہتی تھی۔ یہ کبھی ٹاؤن ہال تو کبھی میرپور میں مزدوری کرتا۔ سفیر بھی اس کے ساتھ ٹنگا ٹنگا چلتا۔ ظفر صاحب اب بہت ضعیف ہو گئے تھے مگر پاکستان پہنچنے کا پسندیدہ خواب اب بھی ان کی آنکھوں میں بستا تھا۔ پاکستان میں حکومتیں آتی رہیں جاتی رہیں مگر محصورین کی پاکستان منتقلی کا وعدہ کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ کبیر کی ظفر صاحب سے پہرو بحث چلتی۔ کبیر پاکستان کے سنگدلانہ رویے کے سبب شاکی تھا مگر ظفر اللہ ہر حال میں پاکستان کے حامی و ہمنوا۔

کبیر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اب روشن کا ہیولا بہت واضح ہوگیا تھا۔ اسے روشن کا دریدہ وجود یاد آتا جس کے بدن پر پور بھر جگہ بھی کسی زخم کے نشان سے مبرّا نہ تھی۔ جتنی جتنی وہ اپنی ماں کی بے بسی سمجھتا گیا توں توں اس کی نفرت سفیر سے بڑھتی گئی۔ وہ کئی دفعہ سفیر کو کیمپ کے داخلہ دروازے کے باہر دھکا دے دیتا کہ تو جا اور دنیا کی بھیڑ میں اپنے باپ کو ڈھونڈ۔ سفیر روتا ہوا کسی سہمے ہوئے پلے کی طرح کبیر کی ٹانگوں سے لپٹتا ہوا اس کے نقش قدم پر چلتا رہتا۔ کبیر اور سفیر کا عجیب محبت و نفرت بھرا رشتہ تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر بھی نہیں رہتے تھے اور ساتھ رہنا دردِ دل کا باعث بھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بالآخر کبیر نے دل کو رام کیا اور سفیر کو حقیقی معنوں میں گلے سے لگا لیا۔ کیمپ ہی کی ایک یتیم لڑکی سے سفیر کی شادی کرا دی اور سنہرے بنگال کا "زمین زادہ" سفیر، کیمپ ہی میں اپنے خاندان کے ساتھ اپنے بے نشاں، بے زمین اور خانہ برباد بھائی کو سمیٹ کر رہنے لگا۔

وقت بہت آگے نکل گیا مگر جینووا کیمپ میں زندگی اپنی تمام تر بوسیدگی کے ساتھ وہیں ٹھٹھری کھڑی ہے۔ اب پچپن سالہ کبیر اس دنیا میں حبیب احمد کا آخری وارث اور اس محب وطن گھرانے کا فرد واحد بھی۔ کبیر، حبیب احمد کی معدوم ہوتی نسل کا آخری فرد۔

جانے ایسے کتنے کبیر بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پاکستان سے محبت کی سزا بھگت رہے ہیں۔

اپنے سامان کو باندھے اس سوچ میں ہوں

جو کہیں کے نہیں رہتے وہ کہاں جاتے ہیں

ظفر اللہ کا خاندان بھی پاکستان پہنچنے کی آس میں بنگلہ دیش ہی میں پیوند خاک ہوا۔ رشیدہ خالا، کبیر کو شادی کے لیے اصرار کرتے کرتے گزر گئیں مگر کبیر کی ایک ہی ضد تھی کہ اس بے زمینی اور بے وطنی میں اب کوئی اور بے وطن نہیں۔

یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں وہیں کے نہیں

جو ہم یہاں کے نہیں ہیں تو پھر کہیں کے نہیں

Check Also

Wo Shakhs Jis Ne Meri Zindagi Badal Dali

By Hafiz Muhammad Shahid