Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shaheen Kamal/
  4. Kahin Ke Nahi (1)

Kahin Ke Nahi (1)

کہیں کے نہیں (1)

اس پرآشوب دور میں ڈوبتا سورج گویا آسمان پر سرخ ڈول الٹ جاتا تھا۔ شفق کی ایسی سرخی جیسے ابھی ابھی آسمان سے خون کی برسات ہو جائے گی اور سچ تو یہ ہے کہ بے تحاشا خون بہا بھی۔ جنگیں بھلا بلیدان لیے بغیر کب ٹلتی ہیں؟

تیزی سے اترتی سرما کی اداس شاموں کو کتوں کے مسلسل رونے کی آوازیں مزید مہیب اور دہشت انگیز کر دیا کرتی تھیں۔ سرحدوں پر جھڑپیں جاری تھیں اور سہمے ہوئے شہروں میں شام چھ بجے سے صبح چھ بجے تک کا کرفیو معمول کا حصہ بن چکا تھا۔

برسوں سے عزت نفس کی دھجیاں اڑواتے مظلوم، زبان اور زمین کی محبت سے سرشار، اب پاک وطن کو ترک کر چکے تھے۔ وہ اپنے سنہرے ریشے کی زمین کی آزادی کے خواہشمند تھے اور وہ بد نصیب جو اب بھی پاک وطن کے حامی تھے ان کی وفاداریاں مشکوک تھیں کہ پچھمی اور پوربی پاکستان کی فصیل اب آسمان تک بلند ہو چکی تھی۔ بے اعتباری کی دھند اتنی دبیز تھی کہ دوست اور دشمن کی پہچان مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی۔ کل کے ہم نوالہ و پیالہ اب سم قاتل ٹھہرے۔

اپنوں سے جنگ ہمیشہ بہت مہنگی پڑتی ہے سو مشرقی پاکستان میں بھی یہی ہوا۔ پاک فوج بیک وقت بیرونی و اندرونی دشمنوں سے بر سر پیکار تھی مگر کب تک؟

جب اپنے، اپنے نہ رہیں تو لنکا کا ڈوبنا یقینی ہے۔ وقت کی ستم ظریفی قیمتی و نایاب زندگیوں کو گھسیٹ کر رزم کا ایندھن بنا رہی تھی۔ ناگفتہ بہ حالات اور کچھ کمزور حکمت عملی کے باعث پاک فوج کو ہتھیار ڈالتے ہی بنی۔ اس ہزیمت کی سب سے مہنگی قیمت چکائی مشرقی بازو میں بستے ان بد نصیب غیر بنگالیوں نے، جنہیں عرف عام میں بہاری کہا جاتا ہے۔ پاک فوج کی طرف امید و بیم سے دیکھتی ہزاروں آنکھیں بے دردی سے گل کر دی گئیں۔ بربریت کی نئی تاریخ رقم ہوئی اور ظلم کا ایسا حشر اٹھا کہ رہتی دنیا تک انسانیت شرمندہ رہے گی۔ بنگال کی سبز سرزمین، محب وطن پاکستانیوں کے خون سے لال و لال ہوئی۔ پیار کی دلائی میں لپٹے اور چاہتوں کے پالنے میں پالے جوانوں کو موت تیزی سے ماں باپ کی بوڑھی اور شکستہ آنکھوں کے سامنے اچک رہی تھی۔

ایسا ہی ایک خاندان حبیب احمد کا بھی تھا۔ جو بوگرہ کے مضافاتی شہر میں، پانی کی بڑی ٹینکی کے پاس ایک دو منزلہ کشادہ گھر میں ہنستا بستا تھا۔

حبیب احمد کی مین مارکیٹ میں سنار کی دکان تھی اور مسجد کے ساتھ والی گلی میں گندم پیسنے کی چکی بھی۔ حبیب احمد کے چار بیٹے اور ایک ہی بیٹی تھی روشن۔ روشن کی شادی انہوں نے چھ سال قبل اپنے بھانجے سے کی تھی جو کھلنا پیپر ملز میں ملازم تھا۔ ان کا اکلوتا نواسہ تھا، ساڑھے چار سالہ کبیر۔

بڑا بیٹا فیاض شادی شدہ تھا اور آٹے کی چکی وہی سنبھالتا۔ عید کے چاند منجھلے بیٹے نیاز احمد کی شادی کی تھی۔ شادی میں آئے مہمان ابھی گھر ہی میں تھے کہ حالات تیزی سے خراب ہونے لگے اور جنگ جو دور لگتی تھی سرحد پر گرجنے لگی۔ گھر آئے مہمان افراتفری میں اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے لگے۔

روشن دونوں بھائیوں سے چھوٹی تھی۔ جب اس کی شادی ہوئی تو محض میٹرک کی الھڑ طالبہ تھی۔ ستارا آنکھوں اور روشن جبیں کی حامل، بانکی، نازک چمپا کلی جیسی روشن۔ ماں باپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک اور بھائیوں کے دل کی خوشی تو تھی ہی ساتھ ہی میاں بھی وارفتہ و دلبر ملے۔ کھلنا میں روشن اپنی ارضی جنت میں خوش اور مگن تھی۔

منجھلے بھائی نیاز کی شادی میں شرکت کے غرض سے بوگرہ آئی۔ مرکزی سڑک کے قریب وہ دو منزلہ مکان خوشیوں کا گہوارہ تھا، جس کی پیشانی پر شادی مبارک کا چمکتا دمکتا بورڈ ابھی تک آویزاں تھا۔ صحن میں گیندے، ابٹن اور بریانی کی مخصوص خوشبو، اترائی اترائی تیرتی پھر رہی تھی۔ چوتھی کی نوخیز دلہن، دسہرے کی رسم کے لیے واپس میکے بھی نہیں جا پائی تھی کہ سب کچھ تلپٹ ہوگیا۔

مشرقی پاکستان میں تین دسمبر سے باضابطہ جنگ چھڑی اور چھ دسمبر تک ڈھاکہ ائیرپورٹ کا ہلواڑہ نکل چکا تھا اور ہماری فضائیہ عملی طور بے عمل ہو چکی تھی۔ جنگ کا خوف، بلیک آؤٹ کی وحشت اور مستقبل کے سنپولیے ہر جگہ سرسرانے لگے۔ ریڈیو پاکستان کی خبریں کامیابیوں کی نوید سناتی جبکہ بی بی سی کی گل افشانیاں رگوں میں خون کو منجمد کرتی۔ ہولے ہولے لوگوں نے ریڈیو پاکستان کی خبریں سننا ترک کر دیا۔ بلیک آؤٹ کی تاریک راتوں میں، مخبروں کی آسمان کی جانب لپکتے ٹارچ کے جھماکے گویا آسمان سے آشیانوں پہ گرتی بجلیاں تھیں۔ شہروں میں سول نافرمانی عروج پہ تھی اور پاک فوج جنگ کے ساتھ ساتھ شہروں کے انتظام و انصرام میں برسرپیکار تھی۔ کاروبار زندگی کلی طور پر معطل تھا۔ ہر غیر بنگالی بے پناہ و سراسیمہ کہ نوشتہ دیوار صاف لکھا نظر آ رہا تھا۔ بنگالی اکثریتی علاقوں سے غیر بنگالی سمٹ سمٹا کر بہاری ابادی میں آنے لگے۔ ہر گھر میں تین چار فیملی مل جل کر اکٹھے رہنے لگی تھی۔ حبیب احمد کا گھر بھی دور و نزدیک کے سہمے ہوئے رشتے داروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ دو منزلہ کشادہ مکان تنگ پڑنے لگا۔ چھت پر مقدور بھر اینٹ، پتھر، روڑے اور سریا کلہاڑی حفاظت کے خیال سے ذخیرہ کر لیا گیا تھا۔ متروکہ دو نالی شکاری بندوق کی از سرے نو صفائی ہوئی اور سونے کے بھاؤ اس کی گولیاں خریدی گئیں۔

جنگ میں جب اپنے لوگ دشمنوں سے جا ملیں تو پھر ہزیمت یقینی ہوتی ہے۔ پاک فوج کا سامنا بیک وقت دو دشمنوں سے تھا لہزا اس کا دم پھولنے لگا۔ کم نفری، کشیدہ حالات اور بے اعتباری و دھوکہ نے اس تیرہ روزہ جنگ کو اپنے بدترین انجام سے دو چار کر دیا۔ بی بی سی ریڈیو ڈھکے چھپے اور ہندوستانی ریڈیو واشگاف الفاظ میں پاکستان کی شکست کا اعلان کرنے لگے۔ بنگالی شادی مرگ سے سرخ اور بہاری متوقع اذیت ناک موت کے سبب زرد پڑنے لگے۔

سولہ دسمبر جمعرات کی شام پلٹن میدان میں لاکھوں کے مجمع کے سامنے باقاعدہ طور پر رسم رسوائی ادا کی گئی۔ مرحوم مشرقی پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں موجود پاک فوج اور شہر کے اشرافیہ، ہندوستانی فوج کی امان میں آ گئی اور عام شہری بپھرے ہوئے غضب ناک عوامی لیگ کے غنڈوں اور مکتی باہنی کے سامنے ڈال دیئے گئے، گویا

لو میاں یہی تقدیر تمھاری ٹھہری

بے پناہی سی بے پناہی تھی۔ کروڑوں کی تعداد میں خون کے پیاسے جتھے کے سامنے بے بس اور نہتے لاکھوں محب وطن پاکستانیوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا کہ ان سے اپنی آتش غیض بجھا لو اور جوش انتقام میں بپھرے جتھے نے ایسا ہی کیا بھی۔

سرینڈر کے بعد انڈین آرمی مال غنیمت لوٹنے میں بری طرح مصروف تھی۔ گھروں کا سامان، خاص کر الیکٹرونکس دھڑا دھڑ ہندوستانی ٹرکوں پر لادا جا رہا تھا۔ بیرکوں سے ہتھیار اٹھائے گئے اور فیکٹریوں اور بھرے گوداموں میں جھاڑو پھیر دیا گیا۔ پاکستان کی دولت، ہندوستان دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا تھا۔ لوٹ کھسوٹ کا ایسا بازار گرم تھا کہ جس کے ہاتھ جو لگا جھپٹ لیا۔ عزت، جان مال سب غیر محفوظ۔ مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے غیر بنگالیوں کے خون سے وہ ہولی کھیلی، وہ ہولی کھیلی کہ بنگال کا سبزہ سرخی مائل ہوگیا اور بے گناہوں کے خون کا سرخ دھبہ آج بھی چشم دید گواہ کے طور پر بنگلہ دیش کے سبز پرچم کے بیچو بیچ دہکتا ہے۔

حبیب احمد کے دو منزلہ مکان میں اس شب کچھ نہیں کچھ نہیں تو بچے بوڑھے اور جوان ملا کر قریباً پینتیس لوگ موجود تھے۔ گھر میں اٹھ جوان عورتیں اور لڑکیاں بھی تھیں، جنہیں حفاظت کے خیال سے بھنڈار میں چھپایا گیا اور اس کے دروازے پر فیاض، نیاز اور دلاور پہرے پر معمور تھے۔ حبیب کے دونوں چھوٹے بیٹے ریاض اور شہباز جو البدر میں بطور رضاکار شامل تھے، جانے ہندوستانیوں کی قید میں تھے یا زندگی کی قید ہی سے آزاد کر دیے گئے تھے، کچھ خبر نہ تھی۔ گھر میں موجود جوان لڑکے سریا اور کلہاڑی کے ساتھ داخلی دروازے کے پہرے پر چوکس اور بقیہ مرد حضرات چھت پر موجود تھے۔ درمیانی اور عمر رسیدہ عورتیں گھر کے پچھلے کمرے میں بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔ رات ڈھائی بجے کے قریب مکتی باہنی کی دو ٹرک آٹومیٹک ہتھیاروں سے لیس دروازے پر آ کر رکے اور چالیس منٹ کے اندر اندر اس گھر میں کوئی ذی نفس نہ بچا۔

جاری۔۔

Check Also

Kya Hum Radd e Amal Ki Qaum Hain

By Azhar Hussain Azmi