1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Kahani Kab Purani (1)

Kahani Kab Purani (1)

کہانی کب پرانی (1)

مجھے یقین ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ایک شخص ایسا نہ ہو گا جو اپنے کسی نہ کسی فیصلے پر پچھتایا نہ ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ میں بھی اپنے وطن وآپسی کے فیصلے پر نادم۔ وجہ شاید کسی کو اتنی بڑی یا سنگین نہیں لگے گی کیونکہ دخل در معقولات نہ صرف ہمارا محبوب ترین قومی مشغلہ بلکہ مقام افسوس کہ اسے بالکل بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ آپ لمبے عرصے تک مغرب میں رہ کر، جہاں پر اعتماد اور خود انحصار ہو جاتے ہیں، وہیں آپ ذاتیات کے متعلق بہت زیادہ حساس بھی۔

میں جب چونتیس سال کی تھی تو میں نے اپنی جائے پیدائش، کراچی کو الوداع کہا کہ مجھے جنم دینے والے ہی نہ رہے تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں آسمان میرے لیے سفاک اور زمین سنگلاخ ہو گئی تھی۔ ملنے جلنے والوں کا دل پسند موضوع میری نا ہونے والی شادی کے اسباب اور اس کے ساتھ ساتھ میرے ممکنہ انجام پر کھل کر اظہار خیال تھا۔ لوگوں کو احساس ہی نہیں تھا کہ ان کے مشورے و تبصرے میری ذات کے کیسے کیسے پرخچے اُڑاتے تھے۔ ان کے زہریلے، نوکیلے دل آزار جملے تھے اور رنگ رنگ کے نا قابل عمل مشورے۔

میں اچھے کردار و اطوار کی پڑھی لکھی باشعور لڑکی تھی۔ لمبے قد اور نک سک سے درست بھی مگر شادی بازار میں بن مول ٹھہری کہ میرے ہلکے پھلکےسراپے کے ساتھ جہیز کا بھاری تول نہ تھا۔ اس کمی کی پاداش، مسترد ہونے کا یہ سلسلہ امی کی حیات تک چلا، یعنی میری عمر عزیز کی تیس بہاروں تک۔ امی کے بعد ظاہر ہے یہ درد سری کون پالتا کہ بھائی، بہنیں سب اپنے اپنے مسئلے مسائل سے نبرد آزما تھے۔

بہنیں، رشتہ لے بھی آتیں تو بات جہیز پر آ کر رک جاتی۔ اصل مسئلہ یہ بھی تھا کہ میرے گھر والے، اپنے مقرر کردہ معیار سے نیچے اترنے کو تیار نہیں تھے اور ساتھ ہی شادی برادری سے باہر نہ کرنے کی بے جا ضد بھی، سو یہ بیل منڈھے چڑھ کے نہ دی۔ میں نے جامعہ کراچی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی، پھر کچھ عرصہ نوکری کی اور ساتھ ہی نا ہونے والی شادی کا بے سود انتظار بھی۔ والدین کے گزرنے کے بعد اپنے ہی گھر میں اجنبی کہ اب اس راجدھانی پہ بھابھی کی حکمرانی۔

گرم جھلستے دن گزرتے گئے اور میں برابر باہر کی یونیورسٹیز میں اپنے داخلے کی درخواست بھیجتی رہی۔ لمبے اذیت ناک انتظار کے بعد بالآخر ایک دن ڈاک سے آنے والا خاکی لفافہ میرا نجادت دہندہ بنا اور یوں میں یو کے (UK) آ گئی۔ شروع میں پردیس کی مشکلات رہیں کہ میں فل اسکالرشپ پر نہیں تھی مگر کچھ تو میری پس انداز کی ہوئی رقم کام آئی اور اصل سہارا میرے جہیز کی مد میں میرے والدین کی جوڑی ہوئی رقم بنی، جو کراچی سے چلتے ہوئے بھیا نے مجھے پکڑا دی تھی۔

ابتدا میں تو لندن کی نمناک فضا اور کن من برستی بارش بڑی رومانوی لگی، پھر جلدی ہی مستقل کی اس جھڑی سے دل اوب گیا۔ یہاں کی ٹھنڈک، مانو ہڈیوں میں بیٹھ جاتی تھی۔ میں ٹھہری کاہل بلی، سورج کی رسیا و شیدا۔ لندن دھند میں لپٹا ایک مسحورکن خیال لگتا یا پھر ایک دلفریب پینٹنگ۔ لندن کی پتلی پتلی گلیاں اور گڑیوں کے گھروندے جیسے مختصر گھر۔ تنگ کمرے اور نیچی چھتوں والے مکانات مجھ جیسے صحرا نشین کے لیے عجوبہ روزگار ہی تھے۔

جو بات آنکھوں کو شاداب رکھنے کا باعث تھی، وہ یہ کہ ہر گھر کے آگے، مختصر ہی سہی مگر ایک ہرا بھرا مخملی قطعہ لازمی تھا۔ گھروں میں، سڑکوں کے کنارےبے حساب و بے شمار انگلش روزیز کی جھاڑیاں جو نظر و روح کو معطر و مسحور کرتیں۔ وہاں کے گھروں، خاص کر پرانے گھروں کا گہرے رنگ کا وال پیپر دم گھونٹنے اور آنکھوں میں خراشیں ڈالنے کی صلاحیت سے مالا مال تھا۔ نوکری کے ابتدائی ایام تک تو میں نے جیسے تیسے اس آثارِ قدیمہ وال پیپر کو برداشت کیا، پر جیسے ہی مالی آسودگی میسر آئی میں جدید رہائشی علاقے میں منتقل ہو گئی اور اس ملکہ وکٹوریہ کے وال پیپر سے جان چھڑا لی۔

کراچی کا چکر ہر دوسرے تیسرے سال لگتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ بر دکھوا کا سیشن بھی چلتا رہا، مگر اب، شاید میں بہت آگے نکل گئی تھی کہ لوگوں کی ترحم آمیز نظریں اور ان کے مخمل میں لپٹے خاردار جملے بے اثر جاتے۔ میں بھائی، بہنوں کو خوش کرنے کے لیے یا صرف شادی شدہ کا ٹیگ لگانے کے لیے شادی کے حق میں نہیں تھی، بلکہ میں حقیقتاً اس کی تلاش میں تھی جس کی پسلی سے میں پیدا کی گئی تھی۔ لندن میں بھی ایک آدھ حضرت ملے مگر دل کو کسی نے کلک ہی نہیں کیا، بلکہ ایک صاحب سے تو سال بھر منگنی بھی چلی۔

ایک بھیگی شام کی ملاقات، جیسے رومانوی اور یادگار ہونا چاہیے تھا، تلخ یاد بن کر رہ گئی۔ مجھے کانوں کے کچے اور دوسروں کی رائے پر آمنا صدقنا کہنے والے مرد زہر لگتے ہیں اور ہر وقت کٹہرے میں کھڑے ہو کر صفائیاں دینے سے بھی مجھے شدید نفرت۔ سو بہزاد کے کب، کون، کیوں اور کس وقت کی پیہم تکرار سے بے زار ہو کر، اس شام، منگنی کی انگوٹھی ٹیبل پر، اس کے سامنے پڑی پلیٹ میں رکھے لاوا کیک میں پھنسا کر میں کیفے سے باہر نکل آئی۔ باہر نکل کر میں نے ایک لمبی، گہری اور فرحت بخش سانس لی۔

میں مطمئن تھی کہ میں نے ہر وقت کی اس بے تکی پانچ "ک" سے جان چھڑا لی۔ وہ میری بیالیس سالہ زندگی کا آخری رشتہ تھا جسے مسترد کرنے کے بعد، میں نے شادی کے خیال سے مستقلاً توبہ کر لی۔ شادی کو اپنا روگ بنانے کی بجائے، اپنی تمام تر توانائیوں اور وقت کو اپنے کام میں صرف کیا اور یوں دہائیوں کی کامیابیاں سالوں میں سمٹ لیں۔ اب میں مالیاتی کمپنی کی وی پی تھی۔ گورے کے ملک میں بھورے لوگ، ایک حد تک ہی آگے جا سکتے ہیں کہ گورے کی فطری عصبیت آڑے آ ہی جاتی ہے۔

برطانیہ میں مقابلہ بہت سخت ہے کہ وہاں ہندوستان سے درآمد شدہ ذہین بے حساب۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی مدد اور اپنی لگن سے میں ہر رکاوٹ پار کرتی رہی۔ میں اپنی کامیابیوں پہ نہایت شاداں و فرحاں۔ اب میری شامت اعمال ہی کہئیے کہ پچپن سال کی عمر میں بچپن حملہ آور ہوگیا اور میں لندن میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کراچی چلی آئی۔ کراچی میں فلیٹ لیا اور نئے سرے سے زندگی کی شروعات کی۔

نوکری میرا مسئلہ نہیں تھی، سو ایک سال ڈٹ کر آرام کیا، دل بھر کر کتابیں پڑھیں اور اندرون سندھ کی سیاحت کی۔ میری وآپسی سے رشتہ داروں کے ہاتھوں گویا پنڈورا باکس لگا، مگر اب میں ان باتوں سے ماوراء ہو چکی تھی بلکہ اتنی ڈھیٹ کہ باقائدہ ان کے تبصروں سے چسکے لیتی۔ یونیورسٹی کی قریبی بچی کھچی دوستوں سے ملاقات کی۔ بڑی مشکل سے سب کو برنچ کے لیے آمادہ کیا کہ سب میاں اور بچوں کی روٹین میں گھن چکر اور سب کے پاس میرے لیے ایک ہی مخصوص جملہ کہ

" بھئی تم تو چھٹی چھڑانک ہو، تمہارے لیے کیا مشکل؟

رولے تو ہمارے ہیں جو کدی مکدے ہی نئی"

Check Also

Masoom Zehan, Nasal Parast Ban Gaye

By Zaigham Qadeer