Jannat Se Nikale Hue Log (1)
جنت سے نکالے ہوئے لوگ (1)
اسکول سے وآپسی پر اپارمنٹ کے سامنے میدان میں کار پارک کر کے میری متلاشی نظریں بلی کی کھوج میں تھیں، تاکہ لنچ باکس میں اہتمام سے رکھی ہوئی ہڈیاں اور چوتھائی بچی ہوئی سینوچ اس کے پیٹ پوجا کا ذریعہ بن سکے۔ مجھے دور عمارت کی سائیڈ کی پتلی گلی میں گوہر مقصود نظر آیا اور میں نے نور کا ہاتھ پکڑ کر ادھر کی دوڑ لگا دی۔ جیسے ہی ریمبو(سفید بلا) کی نظر ہم لوگوں پر پڑی اس نے خیر مقدمی میاوں کی۔ یہ محلے کا آوارہ اور بلا کا لڑاکا بلا تھا، اس لیے اس کا نام ریمبو رکھ دیا تھا۔
ریمبو اب اس طرح کی ضیافت کا عادی ہو چلا تھا۔ میں جب ٹیفن باکس اس کے آگے خالی کر کے پلٹی، تو کونے میں دیوار کی اوٹ میں مجھے ایک آدمی دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپے بلکتا نظر آیا۔ دل تو چاہا کہ رک کر ماجرہ پوچھوں، مگر کچھ اپنی جھجھک اور کچھ اس کی شرمندگی کا خیال کر کے سیدھے نکلتی چلی گئی۔ جانے کیوں ہمارے یہاں مردوں کے رونے کو کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے، بھئ دل ایک آبگینہ ہی تو ہے ٹھیس لگے گی تو چھلکے گا بھی اور پھوٹے گا بھی۔ اس میں مرد کیا اور عورت کیا؟
اس کو دکھی دیکھ کر دل خراب ہو گیا۔ اس کے جسم پر کنسٹرکشن والوں کی مخصوص وردی تھی اور اندازہ یہی تھا کہ وہ قریبی زیر تعمیر عمارت کا ہی مزدور ہے اور لنچ کے وقفے میں یہاں کونے میں منہ چھپا کے اپنا غم منا رہا ہے۔ پتہ نہیں گھر سے کیسی خبر آئی ہے؟ پردیس کا دکھ اور اکلاپے کے آزار سے اللہ سب کو محفوظ رکھے۔ یہاں تو رونے والوں کو کندھا بھی میسر نہیں۔ شام تک وہ میرے اعصاب پر سوار رہا۔ میاں (حسیب) آئے تو انہیں بھی یہ بات بتائی۔ وہ بھی ذرا دکھی ہو گئے اور پھر بھاپ اڑاتی چائے کے ساتھ پرایا غم بھی دھوآں ہو گیا۔
میرا نام امبر ہے اور پچھلے چار سالوں سے ہم لوگ صحرا نشین ہیں۔ میں، میرے میاں اور بیٹی، نور شارجہ میں الخان میں رہتے ہیں۔ اس علاقے کی سب سے بڑی خوبصورتی اور افادیت یہ، کہ یہ سمندر سے صرف دس منٹ کی دوری پر ہے۔ بھلا کراچی والوں کو اور کیا چاہئے؟ سمندر اور پکوان کراچی کے ٹریڈ مارک ہیں۔ کراچی! میرے شہر دلبرا کی اور بھی بہت سی خوشنما دلربائیاں تھیں مگر سیاست کے مکروہ ہاتھوں نے میرے محسن و حسین شہر کی خوشنمائی اور سکون کو تاراج کر دیا ہے۔ اب کراچی ابتری اور افرا تفری کی مثال ہے۔ کراچی کی فریاد سننے کو کوئی تیار نہیں۔ وہ فراخ دل و درویش شہر جس نے سب کو سمیٹا، پر اب اس کا کوئی بھی پرسان حال نہیں۔
میاں بینک میں ملازم ہیں اور میں امریکن اسکول میں پڑھاتی ہوں۔ بیٹی پری اسکول میں۔ دونوں عمارتیں (میرا اسکول اور بیٹی کا پری اسکول) چونکہ متصل ہیں اس لیے لنچ کا وقفہ بیٹی کے ساتھ ہی بسر ہوتا ہے۔ گھر آتے آتے ڈھائی بج جاتے ہیں۔ اسکول گھر سے بارہ منٹ کی ڈرایو پرہے۔ ہم دونوں کی کمائی ملا کر ٹھیک ٹھاک ہے پر شاید اب برکت اٹھ گئی ہے کہ پوری ہی نہیں پڑتی۔ وہی رونا" ہائے اللہ سر کھلا"۔ کیا امیر کیا غریب سب کی ایک ہی دھائی ہے۔ گویاننگا نہائے کیا اور نچوڑے کیا؟
میرے ماں باپ حیات نہیں سو میکہ بھی نہیں۔ ایک بہن اور بھائی اور دونوں کینڈا میں مقیم بلکہ ہم لوگ بھی امیگریشن فائل کرنے کا سوچ رہے تھے، بس چھوٹی نند کی شادی کا انتظار تھا کہ خیر سے اس کی ذمہ داری سے فارغ ہو جائیں تو پھر ہم لوگ اور ممی بھی کینڈا نکلنے کی کریں۔ میرے گھر پہچنے کے ایک گھنٹے بعد، حسینہ میری بنگالی کام والی آتی ہے۔ اس کے ذمہ صفائی اور کپڑوں کی استری تھی۔ ویسے بھی ان دنوں میرے علاقے میں کنسٹرکشن ہو رہی تھی سو ہمہ وقت گرد و غبار کا بادل ہی منڈلاتا رہتا تھا۔ ابھی ڈسٹینگ کر کے فارغ ہو، دو گھنٹے کے اندر اندر ہر چیز پھر گرد سے اٹی ہوئی ملتی۔
شام کے وقت میں کھڑکی کھولے بغیر نہیں رہ سکتی کہ مستقل AC سے مجھے گھٹن ہونے لگتی ہے اور مجھے تازہ کھلی ہوا لازمی درکار۔ حسینہ ہفتے میں تین دن آتی۔ وہ درمیانے قد اور مسکراتے چہرے کی اچھی ملیح خاتون، جیسے بولنے کا خبط۔ کئی دفعہ ٹوکنا پڑتا۔ ایکھون چپ کورو ماں، آمی کاج کورتا سی۔ (اب چپ ہو جاو، ہم کام کر رہے ہیں)۔ پر اللہ کی بندی دس منٹ کا وقفہ لیتی اور پھر شروع۔ میرے ہزاروں بکھیڑے۔ آتے ہی نماز سے فارغ ہو کر کچھ الٹا سیدھا کھانا، نور کو نہلایا، پھر اس کو سلا کر مشین میں دھونے کے لیے کپڑے ڈالنا۔ کھانے کی تیاری اور ساتھ ساتھ ذہن ڈیلی لیسن پلان کی تیاری میں مشغول۔ کام کا ایک تسلسل ہے۔
مصروفیت کا یہ عالم کہ فون پر بھائی، بہن یا ممی سے تفصیل سے بات کیے بھی مہینوں بیت جاتے ہیں۔ زندگی کیا تھی؟ گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔ ذرا ادھر ادھر ہوئے اور ساری روٹین تتر بتر۔ یہاں شارجہ میں اسکول کا ایڈمنسٹریشن مانو ٹرمینیشن لیٹر ہاتھ میں لئے ہر گھڑی تیار، کہ کوئی چوک ہو اور آپ کو باہر کا راستہ دکھایا جائے۔ میرا اقامہ تو میرے میاں کے ساتھ ہے ورنہ جو بیچاری ٹیچرز اسی ملازمت پر ہائر ہو کر آئی تھیں انہیں تو باقاعدہ کانپتے دیکھا ہے۔ یقین کیجیے مڈل ایسٹ میں نوکریاں مورڈن سلیوری کی نئی شکل ہیں۔
ہم لوگوں کی حیثیت بلکل غلاموں والی ہے۔ کبھی استاد معظم اور محترم ہوا کرتے تھے اب تو ان کی اوقات ریوڑیوں اور بتاشوں سے بھی کم تر ہے۔ جب رسد طلب سے زیادہ ہو تو نا قدری اور بے توقیری نصیب ٹھہرتی ہے۔ ڈیلی لیسن پلان اور ویکلی لیسن پلان کی مشقت ایک طرف اور غیر مہذب اور بد لگام بچے، خاص کر مقامی بچوں کی بدتمیزیاں الاماں الاماں! اس پر استاد پابند سلاسل۔ یعنی ہاتھ پیر باندھ کے سمندر میں دھکا دے دو۔ حسینہ کی بھی ایک کہانی ہے۔
حسینہ ویسے تو بہت ہنستی ہنساتی ہے مگر ہے بے حد دکھی۔ برسوں پہلے بنگلہ دیش میں آنے والے سیلاب میں، اس کا میاں سانپ کے کاٹے سے مر گیا تھا۔ بس حسینہ، اس کی ماں اور بیٹی روپالی ہی بچیں۔ حسینہ نے بہت مشکل سے پائی پائی جوڑ کر اور زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا بیچ کر ایجنٹ کو پیسے دیے اور شارجہ کا ویزہ لیا۔ اب یہاں وہ دن رات مشقت کرتی اور کھلنا پیسہ بھیجتی ہے تاکہ بیٹی اچھے سے پڑھ لکھ سکے۔ حسینہ کا بس ایک ہی خواب ہے کہ بیٹی ڈگری کر لے پھر اس کی شادی ہو جائے اور اس خواب کے حقیقی روپ کے دھارن کے پیچھے حسینہ نے اپنا آپ مٹی کر لیا ہے۔
یہاں جب میں کنسٹرکشن ورکر اور ڈلیوری کرنے والوں کو دیکھتی ہوں تو دل خوں کے آنسو روتا ہے۔ محنت تو ہر شخص ہی کر رہا ہے کہ کسی کا کام بھی آسان نہیں، پر پچاس ڈگری سنٹی گریڈ سے بھی اوپر درجہ حرارت میں کام! گرمی بھی ایسی شدید کہ چیل بھی گھونسلہ چھوڑ دے۔ ایسی گرمی میں سخت محنت بہت جوکھم کا کام ہے۔ انسان بال بچوں کے لیے اپنے پیاروں کے لیے کتنا جتن کرتا ہے، کیا کیا پاپڑ بیلتا ہے۔ نہ کافی خوراک، میڈیکل سہولت کی عدم دستیابی۔ ایک کابل جیسے کمرے میں دس، دس، بارہ لوگ ٹھسے ہوئے۔ گھر سے دوری اور تنہائی کا عذاب الگ۔
مرے پہ سو درے کفیل کا توہین آمیز رویہ، ایسا انسانیت سوز سلوک کہ انسان کا اپنے انسان ہونے پر سے اعتبار ہی اٹھ جائے۔ ہماری بلڈنگ کے نیچے ایک ملباری ہوٹل تھا۔ اس کی زعفرانی چائے غضب کی ہوتی تھی۔ صبح اور شام بہت مزے کے پراٹھے بھی ملتے تھے، پر اتنی چکنائی ہضم کرنا مشکل کہ پھر جو وزن بڑھتا تو بندہ مانند ہشت پا ہی ہو جاتا۔ اس لیے میں تو مہینے میں ایک آدھ دفعہ ہی کھاتی تھی۔ حسیب کا البتہ پسندیدہ ناشتہ تھا اور ہر سنچیر کی روٹین بھی۔ حسیب کو جم کی آسانی میسر تھی سو وہ اس قسم کی عیاشی کے متحمل ہو سکتے تھے۔
میں تو ہر روز، رات کے کھانے کے بعد ٹہلنے کا پکا پروگرام بناتی اور ہر رات تھک کر بستر پر بے ہوش گر جاتی۔ کیسا ٹہلنا اور کہاں کی واک؟ سارے ارادے وعدے ریت کی دیوار ثابت ہوتے اور پھر یہ وعدہ گرمیوں کی چھٹی تک قفل بند ہو جاتے۔ حسیب اکثر اپنی اسمارٹنس پر اتراتے تھے پر میں دونوں کانوں کا جائز استمال کرتے ہوئے سنی ان سنی کر دیتی۔ حسیب رات کے کھانے کے بعد ملباری سے زعفرانی چائے منگوایا کرتے تھے۔ اکثر جو شخص چائے لے کر آتا تھا بڑا خستہ حال سا ہوتا تھا۔ میرے خیال میں پاکستانی تھا۔ عجیب بے زار بے زار اور متفکر سا۔