Hijr Ka Nam (2)
ہجر کا نم(2)
جوان ہوتی لڑکیوں سے آنکھیں ملانا بھی دشوار لگا، جی تو چاہا کہ ڈھیروں ڈھیر ہلدی پی جائیں یا ڈاکٹرنی سے پیٹ صاف کروا لیں، مگر خوفِ خدا آڑے آیا۔ بچیاں آنے والے مہمان کے متعلق جان کر بہت بہت پر جوش تھیں۔ ان کے لیے تو وہ کھلونا ہی تھا۔ بچیوں کے مثبت ردعمل کے بعد، سکینہ کی شرمندگی میں کچھ کمی واقع ہوئی۔ پھر وہ دن آیا کہ، وہ ننھا وجود اس بے مہر دنیا میں آیا۔ اور پھر، سب کچھ ختم ہو گیا۔ اس خوبصورت معصوم وجود کا تعلق تیسری جنس سے تھا۔
اس ننھے وجود نے سب کو سکتے کی کیفیت میں مبتلا کر دیا تھا اور گھر مرگ جیسے سوگ میں ڈوب گیا۔ سب سے پہلے، سکتے کی کفیت سے باہر آنے والے شیخ عبداللہ کریم تھے۔ شیخ عبداللہ کریم اس کی جنس کے متعلق جاننے کے بعد، کریم اور ستار نہ رہے بلکہ جبار و قہار بن گئے کہ بظاہر اللہ کے مومن بندے تھے، پنج وقتہ نمازی پرہیز گار اور اللہ کی سب صفتیں مانے والے، سو فیضان کے لیے انہوں نے قہار و جبار کا روپ دھار لیا۔ ماں بیچاری، سکینہ اپنی سکینت کی مسکین لیرو لیر چادر سے جتنا اس کمسن کو ڈھک سکتی تھی ڈھکتی رہی، مگر کب تک؟ بات گھر سے نکلی اور چوبارے چڑھی۔
حسبِ توفیق دنیا نمک دان بنی۔ جتنے چرکے، جتنے زخم لگا سکتی تھی لگایا اور بھس میں چنگاری ڈال کر ایک بچے کے بچپن کو خاکستر کر دیا۔ شیخ صاحب سے وہ ننھا وجود برداشت نہیں ہوتا تھا۔ ان کو وہ اپنی مردانگی کی ہتک لگتا تھا۔ ان کے عتاب کے خوف سے، ارم اس کو پچھلے کمرے میں رکھتی تھی۔ جب تک اس نے چلنا نہیں شروع کیا تھا، اس کو لوکانا چھپانا آسان تھا۔ چلنا سیکھنے کے بعد تو وہ بہت شریر ہو گیا تھا۔ نچلا بیٹھنا جانتا ہی نہ تھا۔ مگر ساری شرارت اور شوخی شیخ صاحب کے گھر میں قدم رکھنے سے پہلے تک ہوتی۔ اس کے نین نقش بڑے تیکھے تھے، بادامی ترچھی کھنچی آنکھیں جن پر پلکوں کی دراز چلمن۔
دودھ میں سیندور گھلا رنگ۔ جو اسے دیکھتا، وہ قدرت کی صناعی پر دم بخود رہ جاتا۔ عادت کا پیارا من موہنہ بچہ۔ بہنیں ہی خیال رکھتی اور اس کے واری صدقے جاتیں۔ ارم کو بیسواں سال لگا تو رشتے بھی آنے لگے کہ، حسن اس گھرانے کی میراث تھا۔ مگر ہر رشتے کے انکار کے وجہ فیضان بنا۔ اس بات نے شیخ صاحب کے جبر و قہر کو مزید مہمیز کیا۔ ان کی فیضان سے نفرت بڑھتی چلی گئی اور دوسری قیامت یہ تھی کہ، ہیجڑوں کی بستی میں فیضان کے حسن کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی اور آے دن کوئی نہ کوئی گرو یا خان، ان کی چوکھٹ پر دست ِسوال لیے کھڑا ہوتا اور محلے والوں کی تمسخرانہ مسکراہٹ جلتی پر تیل ڈال دیتی۔
شیخ صاحب جلبلا کر اس ننھی سی جان کو دھنک کر رکھ دیتے۔ وہ ہنستا کھیلتا بچہ اب مرجھانے لگا تھا۔ فیضان سات سال کا تھا، جب ارم کے لئے آنے والے لوگ فیضان کی اصلیت جان کر پلٹ گئے۔ اب صرف ارم ہی نہیں تھی، نجم بھی قد میں اس کے برابر آ کھڑی ہوئی تھی اور شیخ صاحب بیٹیوں کی شادی کی فکر میں گھلے جا رہے تھے۔ وہ ہر نقصان، ہر مشکل کا سبب فیضان کو گردانتے۔ انہیں بے رحم دنوں میں، شاہ زمان خان پشاور سے نوٹوں سے بھرا بریف کیس لیکر ان کے دروازے پر آیا۔ جانے یہ شیخ صاحب کی بےبسی کی انتہا تھی، یا دولت کی چمک کی چکاچوند یا تقدیر کا بےدرد لمحہ؟ بس فیصلہ ہو گیا۔ سودا طے پا گیا۔ فیضان کی قسمت کا فیصلہ و سودا۔
شیخ صاحب شاہ زمان خان کے ہاتھوں کر چکے تھے۔ ان کو کلنک کا یہ داغ ہر قیمت پر اپنے ماتھے سے دھونا تھا اور یہاں تو قیمت بھی بہت اچھی مل رہی تھی، بس آڑے آتی تھی تو ممتا۔ اب ممتا کی مصیبت یہ ہے کہ، وہ عورت کے پنجر میں محصور اور عورت کی کم نصیبی یہ کہ وہ سر تا پا قید۔ یہاں تو چار بچے اور بھی تھے۔ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ 4، 1 کی ممتا اور 100% زوجہ۔ کتنا مقابلہ کرتی؟ ہار گئ۔ بلکتی ممتا کے سامنے شاہ زمان اس کے جگر کو ایسے جھپٹ کر لے گیا، جیسے شکرا چوزے کو۔ مگر ماں زیادہ مقابلہ نہیں کر سکی اور اس ایک کی محبت ان باقی چار پر فوقیت لے گئ کہ، ممتا کے اصول بھی تو سارے وکھرے ہی ہوتے ہیں۔
اسی اولاد کو سب سے زیادہ چاہے گی جو کمزور ہو، بیمار یا لاچار ہو۔ تو یہاں بھی لاچار فیضان ممتا کی بازی جیت گیا اور ماں صرف تین سال کے قلیل عرصہ میں زندگی ہار گئ۔ شاہ زمان نے اس کو شان سے پالا، اس پر اچھی انوسٹمنٹ کی کہ مستقبل میں سود سمیت وصولنا تھا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا، برفی کے مجرے کی کمائی سے اس نے اپنی شان و شوکت کو دو بالا کیا۔ فیضان پچھلے چھ سالوں سے اپنے چاہنے والوں کی دل بستگی کا سامان فراہم کر رہا ہے۔ کسی بہت شاندار کارکردگی کے انعام کے طور پر خوش ہو کر، شاہ زمان نے حاطم طائی کی قبر پر لات ماری اور کہا کہ "مانگ کیا مانگتا ہے؟ " اس بےبس نے ماں کی جھلک مانگی۔
وہ محافظوں کے ساتھ کراچی بھیجا گیا مگر اب اس گھر کے مکین اور لوگ تھے۔ شیخ عبداللہ کریم بیوی کی وفات کے بعد، گھر بیچ کر کراچی کی بھیڑ میں گم ہو گئے تھے۔ ماں کو آس تھی کہ لختِ جگر لوٹے گا ضرور، سو وہ انتظار میں وہیں پیوندِ خاک ہوئی۔ اب وہ گورکن کے ہاتھ پر پانچ ہزار کا پتہ دھر کے، ماں کی ڈھیری کی زیارت کر کے آزردہ بیٹھا ہے۔ بلکتا ہوا سترہ سالہ فیضا نہیں، وہی سات سال کا فیضان۔ اگلے دو دن وہ مجھے قبرستان کے دروازے سے لگا کھڑا نظر آیا۔ میں نے پوچھا کہ تم دروازے پر کھڑے ہو کر کیوں فاتحہ پڑھتے ہو؟ قبر کے پاس کیوں نہیں جاتے۔ کہنے لگا نہیں باجی میں نجس ہوں۔
میرا وجود اس لائق نہیں کہ میں قبرستان یا مسجد کی چوکھٹ پھلانگ سکوں۔ میرا دل کٹ گیا۔ ہم ظالموں نے اپنی کاملیت کے زعم میں، اللہ تعالیٰ کی اس بے بس مخلوق سے باعزت جینے کا حق ہی چھین لیا۔ ان لوگوں کے لئے جسم فروشی اور بھیک کے علاوہ زندگی کرنے کا کوئی اور کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں۔ مجھے اچھی طرح سے اپنے بچپنے کے صادق چچا یاد ہیں، جن کا تعلق بھی اسی تیسری جنس سے تھا۔ وہ ہم لوگوں کے سامنے والے برکت چچا کے گھر میں ڈرائیور تھے۔ برکت چچا کا گھر بہت باپردہ تھا اور ان کی تینوں بیٹیوں کو اسکول کالج لانے چھوڑ نے کی ذمہ داری صادق چچا کی تھی۔
برکت چچا کے گھر، صادق چچا کی بقیہ ملازمین سے زیادہ عزت و تکریم کی جاتی تھی۔ وہ شام میں وآپسی سے پہلے اکثر ہم بچوں کو کہانیاں بھی سناتے تھے۔ ان سے کبھی ڈر نہیں لگا اور نہ ہی محلے والے ان سے اچھوتوں جیسا سلوک کرتے تھے۔ میرے بزرگ بتایا کرتے تھے کہ، حرم ِپاک اور مسجد میں پانی پلانے کی ذمہ داری اسی تیسری جنس(مخنث) کے سپرد تھی۔ مسجد نبوی کی صفائی اور دروازے کو کھولنے اور بند کرنے کے ذمہ دار بھی یہی لوگ تھے۔ پرانے زمانے میں بادشاہوں کے ذاتی محافظ یہی لوگ ہوتے تھے۔
ہم لوگ، ان بےکسوں کو جانوروں سے بھی کمتر گردانتے ہیں۔ خبیث ذہنی بیماروں نے ان کو تفریح کی شے بنا ڈالا ہے۔ ان کی عزت نفس کو پامال کر دیا اور زندہ متحرک انسان کو انسانیت کے درجے پر فائز رکھنے کے بجائے عزلت کی پستی میں دھکیل دیا۔
اللہ کی بےبس مخلوق کی اس قدر تحقیر؟
اللہ تعالیٰ کو تو اپنی ساری مخلوق بہت عزیز ہے۔
محبت میں خدا نے، کی خلق مخلوق یہ ساری
ابھی بھی پوچھتے ہیں کہ شریعت میں محبت ہے؟