Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Hijr Ka Nam (1)

Hijr Ka Nam (1)

ہجر کا نم(1)

گلستان جوہر تو خود اپنی ذات میں ایک شہر بن گیا ہے، اپارٹمنٹس کا شہر۔ کبھی کبھی تو یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ شاید یہی میدان حشر ہو گا، لوگ ہی لوگ۔ ایک جم ِغفیر ہے۔ آج کل گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو گئی ہیں اور ان دو مہینوں کی چھٹیوں میں کریش کورس کروانے کی اچھی رقم مل جاتی ہے۔ میں پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی ہوں۔ میرے پاس چونکہ سائنس کے مضامین ہیں، اس لیئے ٹیوشن آسانی سے اور پیسے بھی نسبتاً اچھے مل جاتے ہیں۔ پیسہ جو سب کی ضرورت ہے بلکہ اب تو مانو، ان داتا ہی ہے۔"کھل جا سِم سِم" ہر قفل کی چابی اور شاید ہر غم کا مداوا بھی۔

میں اور یوسف اپنے تینوں بچوں کے مستقبل کے خاکوں میں رنگ بھرنے کے لئے، اپنی زندگیوں سے رنگ کشید کیے جا رہے ہیں۔ سخت محنت نے، جہاں میری روپ کو گہنایا ہے وہیں میرے یوسف کو بھی جھلسا دیا ہے۔ جب کبھی میں اپنی شادی کی تصاویر دیکھتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ، ہم لوگ تو اپنی پرچھائی بھی نہیں رہے۔ ہم جو اپنے خاندان کے سب سے خوبصورت جوڑے کا اعزاز رکھتے تھے، وقت کی گرد باد میں دھول ہو رہے ہیں۔ اولاد کی محبت تو اپنا کچھ بھی رہنے نہیں دہتی۔ حتیٰ کہ اپنا آپ بھی۔

جوہر موڑ سے اس گھر تک جہاں میں ٹیوشن پڑھانے جاتی ہوں، کا پیدل سفر کوئی تیس پینتیس منٹ کا ہے۔ پیدل چلنا میرا شوق کم اور مجبوری زیادہ ہے کہ، اسٹاپ سے ان کے گھر تک رکشے والا پینتیس، پینتالیس روپے مانگتا ہے۔ ویگن اور رکشے کا کرایہ ملا کر، آتےجاتے تقریباً ڈیڑھ سو روپے روز کرائے کی مد میں خرچ کرنا میری بچت اسکیم کی ایسی کی تیسی کر دیتا، سو پیدل ہی چلنے میں عافیت تھی۔ ویسے بھی گرمی، حالات کا دم پخت دھوپ کی شدت کی شکایت کیا ہی کرے گا، سو دھوپ کی تو برداشت ہے۔

اس سفر میں ایک بہت مشکل امر ہے۔ اگر آپ کا کبھی اس راستے سے گزر ہوا ہے، تو شاید آپ کو میری بات سمجھنے میں آسانی ہو۔ جب آپ جوہر سویٹس کے اسٹاپ پر ویگن سے اتر کر حرمین ٹاور والی سڑک سے اندر کی طرف آتے ہیں، تو آپ کو کنکریٹ کا ایک لامتناہی سلسلہ ملتا ہے۔ ان آپارٹمنٹ بلڈنگ کے نچلے حصوں میں دکانیں ہیں، دودھ دہی، بیکری، پنساری، سبزی قصائی، نائی، درزی، الیکٹریش، پلمبر، لوہار، پان والا، مرغی والا، حلوہ پوری والا، غرض دکانیں ہی دکانیں اور لوگ ہی لوگ، بیچنے والے اور خریدنے والے لوگ۔ اس بھری پری سڑک سے گزرنا گویا پل صراط سے گزرنا ہے۔

آپ جیسے جیسے آگے بڑھتی جائیں گی، آپ کے پاؤں شل ہوتے جائیں گے۔ وجہ کشش ثقل نہیں بلکہ وہ کنکھجورے جیسی آنکھیں ہیں، جو آپ کے جسم کے چپے چپے پر رینگ رہی ہوتیں ہیں۔ شرمندگی اور اذیت شاید جسم کا بوجھ بڑھا دیتی ہے۔ اس سڑک پر بارہ تیرہ منٹ کی واک بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔ اتنی کہ دل چاہتا ہے کہ، اس عرصے کو اپنی حیات ہی سے منہا کر دیں۔ خیر غریب کی زندگی کی جمع پونجی ہی کتنی؟ اس میں ہوتا ہی کتنا کچھ ہے جو منفی بھی کیا جائے؟ ننگا نہائے کیا اور نچوڑے کیا؟ "مرضی" اس چار حرفی لفظ کا ہماری زندگیوں میں گزر کہاں؟ ہم زندگی جیتے کب ہیں؟ بس زندگی ہم پر سے گزرتی چلی جاتی ہے۔

ہاں تو میں اس سڑک کی روداد سنا رہی تھی۔ مزے کی بات یہ کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ، آپ نے عبایا پہنا ہوا ہے یا آپ نے محض ڈوپٹے کو اپنے گرد لپیٹا ہوا ہے۔ آپ میم صاحب ہیں یا ایک معمولی ملازم یا بھکارن، بس جنس عورت شرط ہے۔ وہ لیزر گائیڈیڈ نگاہیں، آپ کے وجود کو قاش قاش کیئے بغیر نہی پلٹتیں۔ یہ اسی ایک سڑک کی کہانی نہیں بلکہ ہر پر ہجوم جگہ کا یہی رونا ہے۔ بنتِ حوا کو ان چبھتی نظروں سے کہیں امان نہیں۔ پیمائش میں مختصر، مگر عذاب میں طویل ترین سڑک ایک موڑ لیکر نسبتاً کم رش والی سڑک میں تبدیل ہو جاتی ہے، کیونکہ اس سڑک پر موجود اپارٹمنٹس اور اس کی دکانیں ابھی آباد نہیں ہوئیں تھیں۔

ہاں! آپ ٹھیک سمجھے، وہی شہر خموشاں تک لے جانے والی سڑک۔ کہانی اسی موڑ کے بعد والی سڑک پہ شروع ہوئی تھی۔ وہ مہینے کی تیسری جمعرات تھی اور دو ویگنوں کے مابین ہونے والے تیز رفتاری کے خطرناک مقابلے کے نتیجے میں، میں قدرے جلدی پہنچ گئی تھی۔ میں ممکنہ حادثے سے بچ جانے پر خیر مناتی ہوئی، تیز قدموں سے چلی جا رہی تھی کہ قبرستان کی پاس والی مسجد، "مسجد اویس قرنی" کی بند دکان کے تھڑے پر وہ تینوں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک جو کم عمر اور بہت خوب رو تھا، زار و قطار رو رہا تھا۔ اس کے رونے میں کوئی ایسی بات ضرور تھی، جس نے میرا دل پانی کر دیا تھا۔

ان کے قریب جانا دانشمندانہ فیصلہ ہر گز نہ تھا، کیونکہ وہ عام طور پر چورنگیوں اور لال ہوتے سگنل پر گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے، کھڑکیوں کے شیشے تھپتھپاتے، میک اپ سے لتھڑے نظر آنے والوں سے کافی مختلف تھے۔ میں دل پر جبر کر کے اس تھڑے سےآگے نکل تو آئی، مگر پھر دل کی دہائی پر پلٹ آئی۔ میرے قریب آنےپر دونوں بڑی عمر کے مخنث کچھ چوکنے اور مضطرب سے ہو گئے، پر کم عمر اسی شدت سے روتا رہا۔ میرا سفر چونکہ بہت طویل ہوتا ہے یعنی ناگن چورنگی سے گلستان جوہر بلاک19 تک، سو میں پانی کی چھوٹی بوتل ساتھ ہی رکھتی ہوں اور عموماً میری بوتل یہاں تک پہنچنے پر خالی ہو جاتی ہے، مگر آج آدھی بوتل پانی سے بھری ہوئی تھی۔

میں نے کچھ کہے بغیر بوتل کا ڈھکن کھول کر بوتل اس کے آگے کر دی۔ بوتل سے ہوتی ہوئی اس کی نظریں مجھ تک آئی، اور وہ ایک بار پھر سے پھپھک کررونے لگا یا لگی؟ مجھ سے رہا نہیں گیا۔ مجھے لگا، میرا منو (منور) میرے سامنے بلک رہا ہے۔ میں نے اس کے کندھے پر تھپکی دی اور دوبارہ بوتل سامنے کر دی۔ اس بار اپنی قیمتی اور صاف ستھری قمیص کے دامن سے ناک پوچھتے ہوئے، لمحہ بھر میں اس نے بوتل خالی کر دی۔ کاہے رو رہے ہو؟ "میا مر گئی ہے۔"ساتھ بیٹھے بھاری بدن، مگر میک اپ سے مبرا چہرے والے نے جواب دیا۔ جو مردانہ چہرے کے ساتھ زنانہ کپڑوں میں کچھ زیادہ ہی عجیب لگ رہا تھا۔

میرے دل پر جیسے گھونسا لگا۔ ہاں بیٹا میا (ماں) مرے تو رونا تو بنتا ہے۔ یہ فیضان کی کہانی ہے، جو اس نے آنسوؤں اور آہوں کے درمیان سنائی۔ اس کا نام ماں نے یقیناً بڑی چاہ سے فیضان رکھا ہو گا، پر اب تو اس کے بگڑے نصیب کی طرح نام بھی بگڑ کر فیضا (برفی) ہو چکا تھا۔ وہ کبھی حنا بینگلوز کا مکین تھا۔ سترہ سال پہلے وہ شیخ عبداللہ کریم صاحب کے گھر ربّ کریم کی طرف سے پانچویں اولاد بنا کر اتارا گیا تھا۔ تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے بعد سکینہ اپنی گھر گرہستی میں مصروف بڑی بیٹی ارم کے جہز کے سامان جوڑنے میں مشغول تھیں، جو اب خیر سے سترویں سال میں قدم رکھ رہی تھی۔

سفید پوش گھرانوں میں بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی گھر میں جستی پیٹی بھی آ جاتی ہے، جس میں ککڑی جیسا قد نکالتی ہوئی بیٹی کا جہیز بھی آہستہ آہستہ جمع ہوتا جاتا ہے۔ کچھ دنوں سے سکینہ کا جی ماندہ ماندہ، کچا کچا سا تھا۔ یہی گمان تھا کہ بلڈ پریشر لو ہوگیا ہو گا۔ الٹیاں لگی تو خیال گزرا کہ باسی سالن کھا لیا ہے، پر جب ڈاکٹر تک رسائی ہوئی تو پتہ چلا کہ لو! اب تو جگ ہنسائی کا پورا سامان تیار ہے۔ دس سال بعد ان کے گلشن میں ایک اور پھول کھلنے جا رہا ہے۔ حیرانگی، شرمندگی عجیب طرح کے جزبات کی یلغار تھی۔ خاندان میں نکو بنی سو بنی، آس پڑوس میں تمسخر کا نشانہ بھی۔۔

Check Also

Platon Ki Siasat Mein Ghira Press Club

By Syed Badar Saeed