Dil Rubaiyan o Kaj Adaiyan Dil Ki (2)
دل ربائیاں و کج ادائیاں دل کی (2)
حوریہ چچی واقعی اسم با مسمیٰ تھیں۔ کامنی سی، کم عمر حوریہ جو اپنی شادی پر بمشکل سترہ اٹھارہ برس کی ہوں گی مگر غربت نے ان پر بدقسمتی کا ٹھپہ لگا دیا کہ ان کی شادی اپنی باپ کی عمر کے آدمی سے کر دی گئی تھی۔ متین چچا دو بیٹوں کے باپ اور شہر کے نامی گرامی ڈاکٹر تھے۔ جیب بھری اور طبیعت حسن پرست تھی۔ ان کی پہلی بیوی شکلاً اوسط سے بھی کم رو تھیں گو کہ ان کے جوڑ کی تھیں مگر ہمارا دوغلا معاشرہ مردوں کے لیے بالکل الگ پیمانہ رکھتا ہے۔ جب چچی کالا زار کے مرض میں مبتلا ہو کر چٹ پٹ ہوئیں تو بیوی کے مرگ کے مہینے بعد ہی خاندان میں خبر گرم تھی کہ متین چچا شادی کے لیے اتاولے ہو رہے ہیں مگر اس دفعہ شرط پری پیکر کی ہے۔ جب جیب بھاری ہو تو کیا مشکل کہ دنیا کی منڈی میں سب سے سستی جنس عورت ہی ہے۔ حوریہ غریب بیمار باپ کی پہلی بیٹی جہاں ان کے بعد مزید سات کلبلاتے بچے زندگی کی ضروریات کو ترستے تھے۔ بیٹیاں تو صدیوں سے بلی چڑھتی ہی آئیں ہیں سو حوریہ کو بھی خاندان کی بہتری پہ وار دیا گیا۔ شنید ہے کہ حوریہ چچی نے مقدور بھر احتجاج کیا تھا اور بری میں آئے سونے چاندی کے ڈھیر کو پیر سے ٹھوکر ماری دی تھی، پر وہ بد نصیبی کے صدقے ابھاگن ٹھہر چکی تھیں۔
چھوٹی پھوپھی کی شادی پر ان کی دھج دیکھنے والی تھی۔ سرخ زرتار چوڑے باڈر والی موتیا رنگ کی ساڑھی اور چنبیلی اور بیلے کے پھولوں سے گندھا گیا زیور۔ گھٹنوں سے نیچے آتے کافی براؤن ریشمیی لچھے۔ بادام کی گری جیسی شفاف بھوری آنکھیں جن میں سبز رنگ ہلکورے لیتا تھا، وہ آنکھیں ساگر ہی جتنی گہری اور بےقرار بھی تھیں۔ اجلی چمپئی رنگت، مانو جلد کی بنت سونے کے تاروں سے ہوئی ہو۔ ستواں ناک جہاں ہیرے کی دمکتی لونگ اپنے نصیبہ پر رشک کرتی محسوس ہوتی۔ ایسا کامل حسن میں نے اپنی نو سالہ زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا اور انہیں دیکھ کر دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔ انہیں جو بھی دیکھتا دم بخود رہ جاتا، وہ حسنِ مجسم تھیں، آواز سریلی تو چال مستانی۔
سنا ان دنوں متین چچا کے گھر ان کے جوان کزنز کا ٹھٹ کا ٹھٹ جمع رہتا تھا۔ چچا نصیب کی سکندری سے خزانہ تو جیت لائے تھے مگر اب اس کی حفاظت میں ہلکان تھے۔ سانپ بن کر خزانے کی حفاظت کرنا چاہا تو چلتی پریکٹس گرنے اور شہر میں ساکھ خراب ہونے لگی۔ چچی کے ساتھ چلتے تو لوگ منہ پھیر کر ہنستے اور کچھ دل جلے تو بھپتی بھی کس دیتے۔ چچا خزانے کو گھر چھوڑتے تو سیندھ لگنے کا خوف ان کے اعصاب شکستہ کیے رہتا۔ چچا، چچی کی رکھوالی میں ہلکان اور بالکل ہی باولے ہوچکے تھے۔ گرہستی میں نقب لگنے کے خدشے اور اندیشے کے گرداب میں دھنسے متین چچا نے چچی کی ہنسی ٹھٹہ پر پابندی لگانی چاہی اور گھر میں آئے گئے کی آمد و رفت کو کنٹرول کرنا چاہا مگر اب چچی کے کانوں کو ہوا لگ چکی تھی اور وہ انتقام میں اندھی ہوکر چچا سے ایسے برتاؤ کرتیں جیسے بلی ادھ مرے چوہے سے۔
اسی کشاکش میں ایک بچہ بھی ہوگیا، چچی ماں تو بن گئیں مگر وفادار گرہستن نہ بن سکیں۔ شاید چچی اتنی قصور وار بھی نہ تھیں کہ اپنے ماں باپ کے خلاف غصہ، اپنی بے بسی، کم عمری اور اس پر طرفہ تماشا کہ ناز اٹھانے اور بہکانے کو عاشقوں کی قطار در قطار۔ اان دنوں ان دنوں خاندان کے سارے کنوارے چچی کے سگِ در تھے پر جانے متین چچا کے کزن کے بیٹے آصف نے کون سا منتر چچی پر پھونکا کہ چچی کے منظور نظر ٹھہرے۔ خاندان کے بڑوں میں تھرتھری اور کنواریوں میں پٹس پڑ گئی کہ آصف خاندان کا کوہ نور تھے۔
ایک تپتی گرم دوپہر خاندان بھر میں یہی سنسناتی خبر گردش کرتی رہی کہ حوریہ چچی، آصف بھائی کے ساتھ بھاگ گئیں ہیں۔ پر چچی بھاگوان کب تھیں سو آصف کو باپ اور بھائیوں نے ریلوے اسٹیشن پر تیز گام کی سیٹی بجنے سے پہلے ہی دھر لیا اور انہیں اگلی ہی فلائیٹ سے انگلستان روانہ کر دیا گیا۔ پیچھے رہ گئیں بے یارو مددگار چچی، تو وہ زمانے بھر کی لعنتیں سہنے کو باپ کی کٹیا لوٹیں جہاں ماں اٹھتے بیٹھتے انہیں کوسنوں سے نوازتی۔ متین چچا نے بذریعہ ڈاک طلاق بھجوا دی اور بیٹے کو اپنے پاس ہی رکھا۔ خاندان میں عرصے تک چٹخارے دار خبر رہنے کے بعد چچی زمانے کی تو نہیں البتہ میری یادداشت سے ضرور معدوم ہوئیں۔
**
اب چچی سے میری اچھا دوستانہ اور قدرے بے تکلفی ہے سو میں انہیں چچی نہیں کہتی بلکہ ان کے نام ہی سے مخاطب کرتی ہوں۔ ایک بار میں نے حوریہ سے پوچھا کہ انہوں نے زندگی کو کیسا پایا؟
حوریہ ایک دم سے چپ ہوگئیں پھر کہا ابھی فون رکھتی ہوں، جواب ادھار رہا۔
**
پچھلے دنوں ایک شادی میں شرکت کے غرض سے حوریہ میرے شہر آئی ہوئیں تھیں۔ شادی کی تقریب سے فرصت پا کر حوریہ نے مجھے دو دن میزبانی کا شرف بخشا اور سیر و تفریح کے ساتھ ساتھ ان سے ڈھیروں باتیں بھی ہوئیں۔ رات کے اپنے بھید اور اسرار ہوتے ہیں اور بھیگتی رات انسان سے سچ ہی کہلواتی ہے۔ باتوں ہی باتوں میں ذکر ان کی زندگی کی جانب مڑ گیا اور انہوں نے گویا دل کھول کر میرے آگے رکھ دیا۔
میری زندگی کا بھیانک ترین دور متین کا ساتھ تھا۔ کوئی مجھے خود غرض سمجھے یا جو کچھ بھی مگر میں کسی قیمت پر بھی متین سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کیا تم یقین کرو گی عطرت کہ میں نے نکاح پہ قاضی کے پوچھنے پر منہ سے اقرار بھی نہیں کیا تھا بلکہ اماں نے زبردستی میرا سر ہلا دیا تھا۔ متین نے زیور کپڑے سے مجھے پرچانے کی بہت کوشش کی مگر وہ زیورات مجھے سانپ بچھو لگتے تھے، میری خوشیوں کو ڈسنے والا اژدھا۔
متین نے میرے حسن کے چلتے مجھ سے شادی تو کرلی تھی مگر اب وہ میرے اسی حسن سے شدید خائف تھے۔ دن رات ان کے سوالات کے کٹہرے میں کھڑے ہونے اور ان کے شک شبہے کو رفع کرتے کرتے میں تھک چکی تھی۔ اس شادی پر مجھے شدید صدمہ و غصہ تو تھا ہی اور اب ان کی شکی طبیعت نے مجھے بغاوت پر اکسایا۔ اب تک آصف بھی مجھے یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو چکا تھا کہ میں دنیا کی حسین ترین اور مظلوم ترین لڑکی ہوں اور وہی میرا نجات دہندہ بھی۔ ایسے ہی کسی کمزور لمحے میں، میں آصف کی چکنی چپڑی باتوں کے جال میں پھنس گئی اور متین سے آزادی کی تمنا میں مزید برباد ہوئی۔
یقین کرو عطرت، کہ متین کی قربت میرے لیے جان کنی کا عذاب رکھتی تھی۔ محبت تو دور کی بات میں انہیں برداشت ہی نہیں کرسکتی تھی۔ ہاں مجھے اس کا ضرور افسوس ہے کہ ان سے ہونے والا میرا بیٹا بھی میری ممتا سے محروم رہا۔ اس بات کے لیے میں خود کو گناہگار سمجھتی ہوں۔ میرا آصف کی محبت میں مبتلا ہونا اور اس کی لچھے دار باتوں میں آکر انتہائی قدم اٹھانا بھی غلط تھا مگر شاید میں انتقام اور غصے میں اندھی ہو کر صحیح اور غلط سے بھی ماوراء ہو چکی تھی۔ خیر میں نے اس کی سزا بھی خوب بھگتی بلکہ آج تک بھگت رہی ہوں۔ اللہ میاں تو شاید انسانوں کی غلطیاں اور گناہ معاف کردیتے ہوں گے پر اس کے نائب، اللہ اللہ! کبھی بھی عورتوں کا گناہ نہ تو معاف کرتے ہیں اور نہ ہی زمانے کو بھولنے دیتے ہیں۔ عورت کا گناہ گویا جھیل کا کنول۔
متین سے طلاق کے بعد وہ تین سال کٹھن ضرور تھے مگر متین نے جس طرح مجھے تپتے توے پر بھنتی مکئی کی طرح نچایا تھا وہ میں جانتی ہوں یا میرا خدا۔ اس جیتے جی کے عذاب سے چھٹکارے کے صدقے یہ بدنامی اور غربت کی مصیبت بھی قابلِ قبول تھی۔ ویسے بھی میں تو غربت ہی میں پلی کھیلی تھی البتہ امارت و امیری لیے میرے لیے نئی اور انجانی چیز ضرور تھی۔ دنیا کی باتوں کو تو گولی مارو میری اپنی ماں نے مجھے گشتی، کنجری تک کہا اور میں اف کیے بغیر سب کچھ سنتی رہی۔ ان دنوں میں نے جانا کہ زمین تنگ ہونا کسے کہتے ہے۔