Dar Badri (2)
در بدری (2)
پٹنہ سے نیپال کا سفر بڑا تحیر خیز رہا کہ اس سفر میں ریل گاڑی، اسٹیمر اور بس تینوں مینز آف ٹرانسپورٹیشن شامل رہے۔
پٹنہ سے ہم لوگ مہندر گھاٹ پہنچے۔ یہاں سے اسٹیمر میں بیٹھ کر ہاجی پور گئے۔ تاریک رات میں اسٹیمر کا سفر ایک خوف زدہ کرنے والا تجربہ تھا۔ سرد ہوا اور لہروں کا شور۔ ہم لوگ عرشے پر ہی لوہے کے بینچ پر سکڑ سمٹ کر بیٹھے تھے۔ ہاجی پور کے گھاٹ پر اتر کر ریلوے اسٹیشن پہنچے اور اب منزل مظفر پور تھی۔ مظفر پور کے اسٹیشن پر اتر کر رکسول کے لیے بس لی اور بس سے نیپال کے سرحدی گاؤں بیر گنج پہنچے۔ سفر کا یہ حصہ سب سے زیادہ خطرناک کہ رکسول میں بس کی چیکنگ ہوتی اور جس کسی پر ذرا بھی شک ہوتا کہ یہ مشرقی پاکستان سے بھاگے ہوئے لوگ ہیں، انہیں بس سے اتار لیا جاتا۔ پھر ان بد قسمتوں کا نصیب قید اور دوبارہ بنگلہ دیش کی اسیری ہوتی۔ بس جب بیر گنج سے پہلے رکی تو ہم پانچوں کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ کہیں ہم لوگ پہچان نہ لیے جائیں، کہیں پکڑے نہ جائیں؟
چیکنگ کے دوران ایک سپاہی ہم لوگوں کی سیٹ پر آکر رکا، پاپا سے پوچھ گچھ شروع کی۔ جانے کیسے پاپا نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور اس سے معمول ہی کے مطابق بات چیت کی۔ بس کی پچھلی سیٹوں پر بیٹھی دو بد قسمت پاکستانی فیملی اتار لی گئی۔ ان مظلوموں کا بلکنا دیکھا نہ جاتا تھا۔ ہم نے خوف اور بےبسی سے امی کی گود میں منہ چھپا لیا۔ بس جب سرحد پر رکی تو ہم لوگ پیدل، دونوں ملکوں کے سرحد کا مختصر سا فاصلہ طے کرکے نیپال کے سرحدی گاؤں بیر گنج پہنچے۔ نیپال کا سرکاری عملہ خوش خلق تھا اور محض رسمی کاروائی کے بعد ہم لوگوں کو جانے کا اشارہ کیا۔ سامنے ہی کھٹمنڈو لے جانے کے لیے خستہ ہال بس کھڑی تھی۔ پاپا نے جلدی سے ٹکٹ خریدی اور ہم لوگ کلمہ شکر ادا کرتے ہوئے بس میں سوار ہو گئے۔
ہم لوگ بچ گئے تھے اور اب ہم لوگ حقیقتاً آزاد تھے۔
بیر گنج سے بذریعہ بس کھٹمنڈو۔
یہ ایک طویل اور پر خطر سفر تھا۔ بس (وہ بھی آثار قدیمہ) پہاڑوں کی اونچائی طے کرتی دائرے میں گھومتی گھوماتی سانپ جیسی پتلی بل کھاتی سڑک پر ہچکولے کھاتی اور کوئی کوئی موڑ تو اتنا خطرناک کہ کلیجہ منہ کو آ جائے۔ بس میں پن ڈراپ سائلنس تھا۔ ماہر ڈرائیور کی ماہرانہ استادی اور مسافروں کا یہ اعصاب شکن سفر بالآخر دس گھنٹوں کے بعد اپنی منزل مقصود پر بخیر و خوبی پہنچا۔ ہم سبھوں کا انجر پنجر ڈھیلا ہو چکا تھا اور بس اسٹاپ پر ہم گرد مٹی میں اٹے بھوت بن کر اترے تھے۔
کھٹمنڈو اب جانے کیسا ہو؟
پر 1973 میں کھٹمنڈو ایک صاف ستھرا مختصر سا قصباتی شہر ہی لگا تھا۔ چھوٹا سا ضروریات زندگی سے آراستہ پرسکون شہر جہاں دھیمی طبیعت کے با اخلاق لوگ مکین تھے پر وہاں غربت بہت تھی۔ کیسی عجیب بات ہے کہ کسی کا دکھ کسی کے لیے خوشیاں فراہم کرتا ہے۔ ان دنوں نیپال کی معیشت ہم بے خانماں و برباد لوگوں کی وجہ سے عروج پر تھی۔ کھٹمنڈو میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ سارے ہوٹل بک تھے بلکہ لوگوں نے اپنے گھروں کے کمرے تک کرائے پر چڑھا دیے تھے پھر بھی لوگ سر چھپانے کو ٹھکانے کی تلاش میں سرگرداں رہتے۔
پاپا پٹنہ سے کھٹمنڈو پہنچنے کے بعد اب تک جس ہوٹل میں رہتے آئے تھے وہ کمرہ انہوں نے خالی نہیں کیا تھا سو ہم لوگ بس اسٹینڈ سے ٹیکسی لیکر سیدھے ہوٹل پہنچے۔ بڑے اچھے علاقے میں یہ ہوٹل تھا اور ہوٹل سے ایک سیدھی سڑک بادشاہ کے دولت کدے تک جاتی تھی۔ ان دنوں نیپال کے راجا تھے
Mahendra Bir Bikram Shah Dev
(خدایا اتنا لمبا نام! غریب نرسری میں تو اپنے نام کے ہجے یاد کرتے کرتے ہی سو جاتا ہوگا۔)
یہ دو منزلہ ہوٹل تھا اور اس میں اکثریت ان غیر ملکیوں کی تھی جنہیں شمبھو ناتھ مندر کے سونے کے کلس کی چمک اور ہشیش اور گانجے کی کشش سات سمندر پار سےکھنچ لاتی تھی۔
ہوٹل دو منزلہ تھا اور تیسری منزل پر دو بہت چھوٹے چھوٹے کمرے اور ایک ٹین کی چھت والا ادھورا کمرہ تھا۔ اس تیسری منزل پر کاٹھ کباڑ رکھا جاتا مگر اس دور پر آشوب میں اس تیسری منزل کی قسمت بھی چمک گئی تھی اور وہ بھی منہ مانگے داموں پر کرائے پر چڑھے ہوئے تھے۔ ہم لوگوں کا ٹھکانہ اسی تیسری منزل کا بائیں ہاتھ والا مختصر ترین کمرہ تھا۔ اس فلور پر غسل خانے نہیں تھے۔ کڑاکے کی سردی میں بھی غسل خانوں میں گرم پانی کی سہولت میسر نہیں تھیں۔
باتھ روم کے استعمال میں وقت کی اہمیت بہت معنی خیز تھی سو ہم لوگ فجر کے وقت ہی ضروریات سے فارغ ہو جاتے تھے۔ پانی اس قدر یخ کے جس عضو پر گرے وہ حصہ ہر احساس سے عاری ہو جاتا اور کہیں جا کر فجر کی سنت پڑھنے کے دوران اپنا جسم صحیح معنوں میں محسوس ہونا شروع ہوتا۔ غسل کے لیے گرم پانی صرف پاپا اور زرین کے لیے خریدا جاتا تھا۔ باورچی خانے جاکر گوپال سے گرم پانی کے لیے کہتے اور دس منٹ میں وہ چھوٹا سا لڑکا برق رفتاری سے گرم پانی سے لبریز بڑی سی کیتلی لے کر حاضر ہو جاتا۔
کھانا ہم لوگ ہوٹل میں نہیں کھاتے تھے۔ پاپا نے مینجر سے اجازت لے لی تھی سو امی کھلی چھت پر کھانا پکاتی تھیں۔ بارش میں بڑی مشکل ہو جاتی کہ اس مختصر ترین کمرے میں کچن کو بھی سمانا پڑتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے باقی دونوں کمرے بھی آباد ہو گئے۔ بڑے والے کمرے میں قیوم چچا اور چھوٹے کمرے میں علی چچا آ گئے اور سب کی سنگت میں بہت اچھا وقت گزرا۔
کھٹمنڈو پہچ کر مانو گھوڑے کی طرح ہم لوگوں کے کانوں کو بھی ہوا لگ گئی تھی۔ ہوٹل میں نچلہ بیٹھا ہی نہیں جاتا تھا۔ حبس بے جا سے چھوٹے ہوئے قیدی کی مانند وہاں خوب روڈ ماسٹری کی۔
سمجھو پورا کھٹمنڈو گیارہ نمبر (ٹانگوں) کے سہارے چھان لیا۔ وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں کوئی لڑکیوں کو چھیڑنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا کہ شکایت پر مجرم کی ٹنڈ کرکے تین یوم کے لیے جیل میں بند کر دیا جاتا اور جیل میں بھی سرکاری ضیافت نہیں بلکہ گھر سے کھانا منگواؤ ورنہ بھوکے سو۔ غربت وہاں ویسے ہی بہت تھی۔ سو ہم لڑکیوں کے عیش تھے جی بھر کر مٹر گشتی کی۔ قیوم چچا کی تینوں بیٹیاں پروین باجی، نازنین باجی اور یاسمین اور ہم تینوں بہنیں اور علی چچا کی بیٹی نغمہ ہم سب ان دنوں جہان گرد بنے ہوئے تھے۔
گزرے کل کے غم کو بھول کر آنے والے کل سے بےنیاز آج میں پوری شادمانی سے جی رہے تھے۔ شاید اس لیے بھی کہ اب کھونے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا اور موت کو اتنے قریب سے دیکھا تھا کہ زندگی عزیز تر ہوگئی تھی۔
چھوٹا سا کھٹمنڈو بھی گویا مری کی مال روڈ تھی جہاں ہر چار قدم پر کوئی نہ کوئی جاننے والا یا بچھڑا رشتہ دار مل جاتا اور پھر لٹنے اور اجڑنے کی کتھا شروع ہو جاتی۔ ایک دوسرے کے آنسو پونچھے جاتے اور آپس میں ہوٹلوں اور پاکستان کے رہائشی پتے ٹھکانے کا تبادلہ ہوتا۔
اللہ حکومت پاکستان کو ترقی دے کہ اس نے ان دنوں ہر پاکستانی کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا گو کہ بہت کم تھا مگر کیوں کے لیے زندگی کا آسرا۔
کھٹمنڈو پاکستان ایمبیسی میں رش لگا رہتا کہ چاٹر جہاز سے پاکستان جانے والوں کے ناموں کی فہرست وہیں لگا کرتی تھی۔ جن کے نام آ جاتے ان کو مبارک سلامت دی جاتی اور پاکستان جانے والا خوش نصیب، پیچھے رہ جانے والوں کو تسلی اور دعا کی سوغات دیتا ہوا خوشی خوشی رخصت لیتا۔ پاکستان سے اپنوں کے خطوط بھی ایمبیسی ہی میں آتے تھے سو سب کی روزانہ کی ایمبیسی یاترا لازمی تھی۔
وہیں کسی دکان سے پاپا آٹھ آنے کا کھویا لایا کرتے تھے اور امی اس میں چینی ملا کر ایسے شاندار پیڑے بناتیں کہ بندہ انگلیاں ہی چاٹتا رہ جائے۔ پھول گوبھی اس قدر خوبصورت کے گلدان میں سجا دو۔ میٹھی اور مکھن کی طرح ملائم۔ امی کے بناتے بناتے ہم جانے اس کے کتنے پھول چٹ کر جاتے تھے۔
پاپا ہم لوگوں کو شنبھو ناتھ مندر(Swayambhu) بھی دیکھانے لے گے تھے۔ کافی طویل اور اونچائی پر چڑھنے کے بعد مرکزی استھان آتا تھا۔ اس مندر کا سونے کا کلس دھوپ میں اس قدر چمکتا تھا کہ آنکھیں چندیا جاتی تھیں۔ مندر کے مینارے کے چاروں طرف دو دو آنکھیں بنی ہوئی تھیں اور ان دو آنکھوں کے اوپر ایک تیسری آنکھ جو باطن کی یا وجدان کی آنکھ تھی۔ مندر کے احاطے میں بندر اور گوروں کی بہتات تھی اور ہر سو چرس اور گانجےکی بدبو کہ سانس لینا محال۔
مندر کے اندر اکثریت بدھ بھکشو کی تھی جن کی خاموشی اور سراپے پہ چھائے سکوت و جمود کی وجہ سے ان پر بھی کسی بت ہی کا گمان ہوتا تھا۔
کھٹمنڈو میں سردی تھی، ہوا میں خنکی اور سکوت۔ ہم لوگ کے پاس بے بسی سے دن گنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا۔ منتظر تھے کہ کب پاکستان جانے والوں کی فہرست میں ہم لوگوں کا نام آئے گا؟
کب یہ مسلط کردہ جلا وطنی ختم ہوگی؟
اپنے سامان کو باندھے ہوئے اس سوچ میں ہوں
جو کہیں کے نہیں رہتے، وہ کہاں جاتے ہیں