Dar Badri (1)
در بدری (1)
ہجرت دل سے ہو یا زمین سے ہمیشہ باعث آزار۔ یہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد در بدری کی دل سوز کتھا ہے جب مجبوراً ہمیں اپنی جنم بھومی چھوڑنی پڑی تھی۔
ہم لوگ یعنی پاپا، امی، آپا، زرین اور ہم۔ ہم پانچوں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد پورا ایک سال بنگلہ دیش میں پاپا کے دوست جمال وارث کے گھر پناہ گزیں رہے۔ بڑی دقتوں اور شفارشوں کے بعد بنگلہ دیش کی سرکار نے ہم لوگوں کو ہندوستان جانے کا پرمٹ دیا۔ دکھی دل اور خالی ہاتھ، ڈھاکہ سے ہندوستان کے شہر کلکتے، پھر کلکتے سے پٹنہ اور پٹنے سے نیپال پہنچے۔ ایک طویل سفر درپیش رہا جو اعصاب شکن بھی تھا اور دل گیر بھی۔ اُسی سفر کی ایک مختصر روداد۔
کلکتے کا پر رونق ریلوے اسٹیشن جہاں اور کھوے سے کھوا چھیلتا تھا، اس کے مقابلے میں پٹنہ کا ریلوے اسٹیشن تو ویرانہ ہی تھا۔ شاید اس لیے بھی اسٹیشن سنسان تھا کہ رات تین چوتھائی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ دسمبر کی پالا مارتی رات۔ انجان دیس کی رات تھی سو سرد بھی اور سخت کٹھور بھی۔ پہلے پاپا کا ارادہ تھا کہ فجر کے بعد اسٹیشن سے شہر کے لیے روانہ ہوں گے پر جب دیکھتے ہی دیکھتے اسٹیشن ویران ہوگیا تو پاپا نے یہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔
ہم لوگ اسٹیشن کے باہر چبوترے پر ٹھٹھرتے ہوئے کھڑے تھے کہ پٹنہ میں کلکتے کے مقابلے میں سردی بہت زیادہ تھی۔ سیاہ گھور رات میں سڑک پر استادہ کھمبے پر لگے مدقوق بلب کی روشنی میں تین سائیکل رکشہ، ایک بدرنگی سی ٹیکسی اور دور تھڑے کے پاس بجھتے الاؤ کے قریب دو اونگھتے کتے نظر آ رہے تھے۔ پاپا نے ٹیکسی کی کھڑکی بجائی اور ڈرائیور نے شان بے اعتنائی سے انکار میں ہاتھ ہلا دیا۔ سائیکل رکشے والا اپنے رکشے کی سیٹ پر گرم چادر لپیٹے چکو مکو بیٹھا تھا۔ پاپا نے پوچھا کہ سبزی باغ چلو گے؟
کاہے نہ چلے گے بابو!
پھر اس نے اپنے دوسرے ساتھی کو آواز دی۔ یوں ہم لوگ دو سائیکل رکشے پر سوار سبزی باغ چلے۔ گہرا کُہرا تھا جس کی وجہ سے سڑکوں کی مدقوق روشنیاں مزید مدہم تھیں۔ پاپا اپنی نوجوانی کی یادداشت کے سہارے اپنے پرانے محلے کو کھوج رہے تھے اور وہاں بے درد ٹھٹھری ہوئی گونگی رات بکھری پڑی تھی۔
پاپا نے قیاس کے سہارے ایک انجان دروازے پر دستک دی۔ تھوڑی ہی دیر میں اندر روشنی ہوئی اور مرکزی پھاٹک کھلا۔
برسوں پر محیط وقت چٹکیوں میں سمٹا اور پل سے بھی کم وقفے میں دوست نے دوست کو پہچان لیا۔
محبت سے گلے ملے اور تپاک سے ہم لوگوں کو اندر لے گئے۔ محبت اور رواداری کا یہ عالم کہ رکشے والے کو محنتانہ بھی خود دیا حالاں کہ کے ہم لوگوں کے پاس انڈین کرنسی تھی۔ اندر دالان کے بعد ایک بڑا کمرہ تھا جہاں چوکیوں کی قطار پر لحاف تانے جانے کون کون سو رہا تھا۔ ایک آدھ نے لحاف کی جھری سے جھانکا بھی۔ آنگن پار کرکے پھر ایک بڑا کمرا اور چوکیوں کی قطار۔ وہیں ایک خالی چوکی پر ہم لوگوں کو بیٹھا کر انہوں نے اپنی بیگم کو جگایا اور اس کے بعد جیسے گھر میں جاگ ہی پڑ گئی۔ بیچاری تمام بڑی لڑکیاں جگا دی گئیں۔ ہم لوگوں کو فراغت کے لیے غسل خانے کا راستہ دکھایا گیا۔ ہم لوگوں کے منہ ہاتھ دھونے تک ننگی چوکی پر دسترخوان سج چکا تھا اور گرم گرم چائے کے ساتھ کلچے، پاپے، نمک پارے اور شکر پارے۔ یہ تو محض شروعات تھیں۔
فجر کی نماز کے بعد اٹھ بجے اس قدر پر تکلف ناشتا کہ حد نہیں۔ پراٹھے، نئے آلو کی بھجیا، شامی کباب، ابلے اور تلے ہوئے انڈے، آملیٹ اور گاجر کا حلوا اور ان پر بازی لے جاتا ہوا اخلاق اور اصرار کا تڑکا۔
کیا پھرتیلی اور سگھڑ لڑکیاں تھیں۔ اب تک گھر کے چھوٹے بچے بھی اٹھ چکے تھے اور حیران نظروں سے نو ورادان کو دیکھ رہے تھے۔ چچا کے گھر جوائنٹ فیملی سسٹم تھا اور سب انتہائی گھلے ملے۔
پٹنہ کے اخلاص اور والحانہ استقبال نے دل جیت لیا۔ پاپا کے چہرے سے بھی دلی خوشی جھلکی پڑتی تھی۔ مدت بعد ایک اطمنان ان کے چہرے پر نظر آیا۔ یہ شاید اپنے بچھڑوں کی رفاقت اور مٹی کی محبت کا کرشمہ تھا۔
پاپا نے چچا سے پوچھا کیا آپ ڈاکٹر مسعود کو جانتے ہیں؟
پٹنہ میں بھلا ڈاکٹر مسعود کو کون نہیں جانتا۔
چچا نے بنا تامل جواب دیا۔
ان سے تم کو کیا کام ہے کمال!
وہ میرے ہم زلف ہیں اور ہم لوگوں کو انہی کے گھر جانا ہے۔
ارے! نہیں نہیں تم لوگ یہیں رہو ہم لوگوں کے ساتھ۔
کچھ دیر رہنے کے مسئلے چچا اور پاپا کا اصرار و انکار چلتا رہا پھر چچا بےدلی سے اٹھے اور بڑے خالو کا نمبر ملا دیا۔ پاپا کی ان سے بات ہوئی اور انہوں نے کہا کہ آدھ گھنٹے میں ڈرائیور پہنچ رہا ہے۔
چچا سے رخصت لی اور بڑے خالو کے گھر راجندر نگر پہنچے۔ بڑی خالہ اماں کا عرصے پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ خالو ابا کے گھر ان کی بیوہ بیٹی طلعت اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیوہ بہو اپنی بیٹی، کے ساتھ اور ساتھ ہی خالو ابا کے چھوٹے بیٹے خورشید کی تین اولادیں بھی اسی گھر میں رہتی تھیں۔ اچھا بھرا گھر تھا۔ دونوں پوتیاں کالج، نواسہ میڈیکل کالج اور چھوٹا پوتا رومی اور پوتی شاہینہ اسکول جاتے تھے۔ یہاں بڑے مزے کا وقت گزرا۔ ہم رومی اور شاہینہ خوب کھیلتے تھے۔
اب کا نہیں پتہ مگر اُس زمانے میں ہندوستان میں لوگوں کو فلم کا خبط تھا۔ کھانا بےشک نہ کھائیں پر فلم کا پہلا شو نہیں چھوڑ سکتے۔ میری دونوں کزن بھی ہر ہفتے کالج بنک کرکے نئی فلم کا پہلا شو لازمی دیکھا کرتی تھیں۔ وہاں کے آدابِ میزبانی میں دعوت طعام کے ساتھ دعوت سنیما بینی بھی شامل تھی۔
اسی اثناء میں خالو ابا کے گھر بقرعید کا تہوار آ گیا۔ سنہ 1973 کو بقرعید جنوری کی پندرہ تاریخ کو پڑی تھی اور پیر کا دن تھا۔ اس دن ہم نے کم عمر ہونے کے باوجود محلے (وہ ہندو اکثریتی محلہ تھا) کے مسلمانوں کا ہراس دیکھا۔ اس دن محلے میں غیر معمولی سناٹا تھا اور سارے دن انجان لوگوں کا پھیرا لگتا رہا۔ پتہ چلا کہ یہ جاسوس لوگ ہیں اور کن سوئیاں لیتے پھر رہے ہین کہ کہیں گئو ماتا جی تو ذبح نہیں ہو رہیں ہیں؟
پاکستان کی جوش خروش سے بھرپور عید قرباں یاد آئی اور اس دن پاکستان کو بہت مس کیا اور ایک دم ہندوستان سے بھاگ جانے کو دل چاہا۔
چار دن بعد پاپا ہم لوگوں کو پٹنہ چھوڑ کر نیپال چلے گئے تاکہ وہاں سے پاکستان جانے کی سبیل کر سکیں۔ پاپا کے جانے کے بعد ہم لوگ پہلے جہان آباد اور پھر امی کے ماموں کے گاوں دھمول گئے۔ دھمول سب سے زیادہ entertaining تھا۔ نانا بس اسٹاپ پر ہم لوگوں کو لینے کے لیے ڈولی اور کہار سمیت آئے تھے مگر کوئی بھی ڈولی میں بیٹھنے کا روادار نہ تھا۔ سب نے پیدل ہی چلنے کو ترجیح دی۔ زندگی میں پہلی بار گاؤں میں رہنے کا اتفاق ہوا تھا۔ نانی کی انتہائی شفقت اور گاؤں کی سادہ زندگی اور گھر میں پلے گائے، بیل، بکری اور مرغیاں۔ میری تو بکری کے بچے کو دیکھتے ہی عید ہوگئی۔ بس بجلی کی کمی بہت کھلتی تھی مگر لائٹین کی روشنی کا بھی اپنا ہی فسوں تھا۔ سب سے حیران کن چیز وہاں صحن کے کونے میں بیری کے درخت کے نیچے بنا اوپن ایئر لیٹرین اور آنگن میں کنوئے کے قریب چارپائی گھیر کر نہانے کا رواج تھا۔ آپا اور زرین کے لیے اس طرح نہانا کارِ دشوار تھا سو ان کے نہانے کا بندوبست کمرے میں کیا گیا البتہ ہم اس اوپننگ ایئر باتھ روم کو بہت محظوظ ہوئے۔ گھر کی تازہ سبزی جسے پکاتے وقت پانی ڈالنے کی قطعی ضرورت نہیں پڑتی تھی اور اس کا ذائقہ ہی الگ تھا۔ سادی غذا اور بناوٹ سے عاری لوگ۔
وہیں گاؤں میں محرم کی مجلس میں شرکت کی اور گتکا (لاٹھیوں کا کھیل) کا مقابلہ پیٹرومیکس کی روشنی میں دیکھا۔ اس مقابلے کو دیکھنے کےلیے لڑکیوں کی تیاریاں اور لُکا چھپی والا رومانس، باخدا میرے لیے یہ سب کچھ بہت بہت تھرلنگ (thrilling) تھا۔ اس دن گاوں کے سارے بچوں اور اکثر لڑکیوں نے بھی سبز کرتے پہنے تھے۔
اسی گاوں میں ہم نے غربت میں جکڑی تین انتہائی حسین لڑکیاں بھی دیکھیں جن کے آگے شاعروں کی ساری تشبیہات بھی پھیکی تھیں مگر وہ غربت کے ہاتھوں گہنایا ہوا چاند تھیں اور کوئی ان کا طلب گار نہیں تھا۔ اس زمانے میں ہندوستان میں لڑکوں کا باقاعدہ نرخ طے تھا، انٹر پاس لڑکے کے لیے جہیز میں سائیکل، اگر لڑکا بی۔ اے پاس ہے تو موٹر سائیکل کی ڈیمانڈ اور انجینئر ڈاکٹر کے بھاؤ تو عرش معلیٰ کی خبر لاتے تھے۔
وہ دنیا میرے لیے کم از کم انتہائی حیران کن تھی۔ ہم پہ ہندوستان کا کوئی اچھا تاثر نہیں پڑا تھا۔
وہاں کے لوگ بےشک محبتی اور مہمان نواز مگر فرسودہ رسموں میں بری طرح جکڑے ہوئے۔
پھر کھٹمنڈو سے پاپا نے خالو ابا کو پٹنہ فون کیا کہ وہ ہم لوگوں کو لینے آ رہے ہیں۔ یوں ہم لوگ دھمول سے پٹنہ واپس آ گئے اور پٹنہ کا ہنستا مسکراتا عجائبات سے بھرا ٹرپ اختتام پذیر ہوا۔
پٹنہ سے روانگی بہت سوگوار تھی کہ میزبان، مہمان دونوں کو اس بات کا احساس تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے پر بولتا کوئی نہیں تھا۔ دل بھر بھر آتا، آنکھیں ڈبڈبا جاتیں پر ضبط کا پہرا کڑا۔ نانا بھی دھمول سے امی کو رخصت کرنے آ گئے تھے۔ خالو ابا کے گھر بھی اداسی تھی۔ ہم لوگوں کی کیفیت عجیب تھی، اپنوں سے بچھڑنے کا غم اور دل کے کسی گوشے میں دوبارہ پلٹ کے نہ آنے یقین بھی پر ساتھ ہی انڈیا سے جان چھوٹنے کی خوشی اور پاکستان کی جانب قربت کی شادمانی بھی تھی۔ ملے جلے جزبات تھے بار بار گلے ملا جاتا اور پیشانی پر محبت کا نم بوسہ ثبت ہوتا۔