Bonsai (1)
بونسائی (1)
میرے لیے یہ سوال ایک لاینجل مسئلہ ہے کہ کون سا جزبہ زیادہ قوی ہے۔ محبت یا ضد؟
کیا محبت تا عمر زندہ رہتی ہے؟ اور یکطرفہ محبت کا اسٹیٹس کیا ہونا چاہیے؟
آیا یہ واقعی محبت ہوتی ہے یا محض پسندیدگی تک ہی رک جاتی ہے؟
میرے حسابوں تو محبت دو رویہ ٹریفک ہے کہ یہ جزبہ بڑی کڑی نگہداشت مانگتا ہے۔ محبت کے پودے کی اگر خلوص اور توجہ کے پانی سے سیوا نہ کی جائے تو یہ شاداب نہیں رہتا ہے کیوں کہ یہ جزبہ مسلسل اعادہ کا متقاضی ہے اور رتی بھر لاپرواہی اور اغماض کا متحمل نہیں۔ کبھی کبھی یہ نامراد یک طرفہ محبت بونسائی ہی تو بن جاتی ہے۔ لاکھ جزبات کو زنجیر کرو، محبت کو سو سو جتنوں سے دباؤ مگر یہ جزبہ بونسائی ہی کی طرح ناٹا نیگوڑا رہ کر بھی اپنا وجود اور شناخت برقرار رکھتا ہے۔
میں شروع شروع میں جب آسٹریلیا منتقل ہوئی اور ایک لمبے عرصے کی سخت جدوجہد کے بعد میرے ہاتھ خاصے کشادہ ہو گئے۔ میں خود پر عائد کردہ فرضی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئی، تب میں نے اپنے بارے میں سوچنا شروع کیا کہ میرے لیے پریشان ہونے والے اور سوچنے والے تو کب کے خلد آشیاں ہو چکے تھے۔ دونوں بہنوں اور اکلوتے بھائی کے پاس اب میرے لیے وقت نہیں تھا کہ وہ سب اپنے اپنے خاندانوں کی تکمیل و بقا میں جتے ہوئے تھے اور میں اب ان کے لیے اہم نہیں تھی۔
کیوں اہم نہیں تھی؟
اس لے کہ میں ان کی زندگی کی گاڑیوں کو سیدھی اور ہموار شاہراہ حیات پر چڑھا چکی تھی اور اب ان کی گاڑیاں آٹو پائلٹ پر آرام سے محو سفر تھیں۔ کچھ عرصہ تو میں تینوں کے تعاقب میں بھاگتی رہی مگر جب ان تینوں کی جانب سے میرے فون کالز کے جواب میں تواتر سے عدیم الفرصتی کا پیغام مانو لوپ ہی پر ڈال دیا گیا تو کچھ کچھ معاملہ سمجھ میں آنے لگا اور میں نے اپنی غیر افادیت سے آگہی کے بعد از سرِ نو مشغولیت ڈھونڈنے کی سعی کی اور اس چکر میں سینکڑوں شغل تلاشے۔
ان میں سے ایک صبح صبح جاگنگ بھی تھی۔ ایک صبح جاگنگ کے دوران جانے کیسے پیر رپٹا اور یہ حادثہ سبیل بنا ڈاکٹر جمشید سے شناسائی کا۔ ڈاکٹر جمشید عرف جامی نے مجھے سہارا دیکر ٹریک کے کنارے لگے بینچ پر بٹھایا اور پیر کا نہایت توجہ سے معائنہ کیا۔ اسپورٹ میڈیسن ان کا شعبہ تھا تو پیر کے سلسلے میں دو چار ملاقات کلینک میں اور پھر تواتر کے ساتھ ملاقاتیں کیفے اور لائبریری میں ہونے لگیں۔
وہ بھی میری طرح برسوں اپنے بھائی بہنوں کے لیے اسٹپنی رہے تھے۔ مزے کا اتفاق کہ پیچھے سے وہ تھے تو چولستان کے مگر تعلیم ساری کراچی میں ہی حاصل کی تھی اور تھے بھی میری ہی طرح مڈل کلاسیے۔ اب اپنی قابلیت کی بنا پر خوش حال تو تھے پر خوش باش نہیں۔ سو ہم دونوں دل گیروں نے مل کر مکمل ہونے کی کوشش کی۔ جامی کا تو پتہ نہیں مگر میں پکی منافق کہ اپنوں کے اعتبار کی ڈسی ہوئی تو تھی ہی مگر یک طرفہ محبت کی مبتلائے آزار بھی۔
ہمیشہ اپنے آپ کو اس یک طرفہ محبت کی قید سے آزاد سمجھتی اور منہ کی کھاتی۔ جامی سے شادی بھی اسی کوشش کی ایک کڑی تھی اور میں بزعمِ خود اس فریب میں مبتلا تھی کہ بالآخر میں نے اس یک طرفہ محبت کی اسیری سے رہائی پا لی ہے مگر آج صبح میری یہ خوش فہمی بھی رفع ہو گئ۔ شادی کے بعد جامی نے اسٹوڈیو اپارٹمنٹ چھوڑ کر مکان لے لیا تھا اور آج کل میں اس مکان کو گھر بنانے پر تلی ہوئی تھی۔
اور اس چلتے میں نے اندھا دھند خریداری شروع کی اور ایک مہینے کے اندر اندر میرا گھر آراستہ پیراستہ ہو کر سج نکھر گیا۔ میں بہت خوش تھی مگر آج صبح میں کچن سے اپنا کافی کا مگ لیکر ڈائنگ روم کے وسط میں ٹھٹک کر کھڑی کی کھڑی رہ گئی کہ ادراک کا لمحہ آن وارد ہوا تھا۔
وہ میرا گھر کب تھا؟
وہ تو ہو بہو پھوپھی کا گھر تھا۔ تقریباً ویسے ہی صوفے، اسی کمبینیشن کے پردے اور دیگر آرائشی چیزیں۔
اف! یہ میں نے کیا کر دیا؟
دو ہزار پانچ میں انیس سو اسی کو زندہ کر دیا۔
میں نے اتنا پیسہ اور وقت برباد کیا اس کباڑ کو جمع کرنے میں؟
جامی بھی حیران تھے کہ تم کر کیا رہی ہو؟
تمہاری حس جمال کو کیا ہوا ہے؟
اب یہ سب کچھ آوٹ آف فیشن ہے مگر میں کچھ بھی سننے اور سمجھنے سے عاری تھی، جانے کس زون میں تھی؟ اب میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اپنا منہ سر پیٹوں، زور زور سے روؤں یا بے تحاشا ہنسوں پھر میں نے آخری آپشن کو اپنا لیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ جامی دس دنوں کے دورے پر جرمنی گئے ہوئے تھے۔ جو اعتراف میں نے کبھی اپنے آپ سے نہیں کیا وہ ان کے سامنے کیسے کر سکتی تھی؟ پہلی فرصت میں ڈونیشن سینٹر فون کیا اور ان سے سامان اٹھانے کی تاریخ اور وقت کنفرم کیا۔
میں ایک جست میں اپنے ماضی میں پہنچ چکی تھی۔ میرے ابا دو بھائی ایک بہن تھے، خدا غریق رحمت کرے اب تو سبھی " تھے" ہیں۔ پھوپھی سب سے بڑی، پھر ابا اور سب سے چھوٹے محمود چچا۔ ابا اور محمود چچا اوسط طرز زندگی کے حامل دستگیر اور واٹر پمپ کے رہائشی اور پھوپھی ڈیفنس کی مکین۔ شادی کے ابتدائی دس سالوں تک پھوپھی بھی فیڈرل بی ایریا ہی کی رہائشی تھیں۔
پھر پھوپھا کی قسمت نے پلٹا کھایا اور وہ شپ بریکنگ بزنس میں چلے گئے اور کباڑ سے ہن برسنے لگا اور تین چار سال کے قلیل عرصے میں زمینی فاصلے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دلوں کے مابین فصیل بھی اونچی ہوتی چلی گئی۔ یہ سارا شاہانہ طمطراق اور کروفر خالد کی پیدائش کے بعد کا تھا گویا خالد ان کی خوش بختی کا استعارہ ٹھہرا۔ خالد سے بڑی تین بہنیں اور خالد کے بعد تین بہنیں۔ وہ چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی پارس ٹھہرایا گیا۔
ابا کے چار بچے تھے، شروع میں تین بیٹیاں پھر اشک شوئی کی صورت ایک بیٹا اور محمود چچا کے گھر تو ہمارے گھر سے بھی بدتر حالات کہ چار چار بیٹیاں۔ ان تین بھائی بہن کے گھر تیرہ لڑکیاں اور فقط دو لڑکے مگر میرا بھائی فرحان کسی شمار قطار میں نہ تھا کہ اس کی پیدائش پر ابا کی ترقی تو دور رہی اس سال ابا کو بونس بھی نہیں ملا تھا۔ میں مدحت اپنے گھر میں سب سے بڑی اور ابا کی لاڈلی۔ ہمیشہ بےدھڑک ابا سے ہر بات کھل کر کی۔
امی بہت پریشان رہا کرتیں تھیں کہ تین تین سل سینے پہ دھری ہے پر ابا ہمیشہ کے شکر گزار کہ جس کی امانت ہیں وہی بندوبست بھی کرے گا۔ میں تازہ تازہ میٹرک میں شاندار نمبروں سے پاس ہو کر فرسٹ ایئر میں آئی تھی۔ وہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے آپو آپ ہی جزبات کی رنگین عینک آنکھوں پر چڑھ جاتی ہے اور دنیا حسین اور اپنا آپ حسین ترین لگتا ہے۔
سب سے بڑی مصیبت یہ کہ آپ اپنے حسن کی یقین دہانی کے متمنی بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی اس سے جو آنکھوں کے راستے دل کو بھاتا ہے اور دل میں براجتا ہے۔ میں کوئی عالم آرا نہیں تھی بقول امی کے جوانی تو بندریا کو بھی سندریا بنا دیتی ہے۔ اب خیر ایسی ناگفتہ صورت حال بھی نہ تھی کہ میری قبول صورتی سے ایک درجہ اوپر کا اعتراف تو آئینہ بھی کرتا تھا۔ پھوپھی بھی میرے کالج میں داخلے کے بعد مبارک باد دینے آئیں اور حسب معمول اپنی راگنی سنا کہ میرے ہاتھوں پر سو کا پتہ دھر دیا۔