Azad (2)
آزاد (2)
میری نسبت، بڑی آپا کے سسرال میں طے پائی تھی۔ یہ لوگ بھی مرشد آباد سے حال ہی میں ہجرت کرکے ڈھاکہ آئے تھے۔ سلطانہ کا ساتھ میرے لیے بھاگوان رہا۔ اس نے دل لگا کر اماں کی خدمت کی اور اماں خاصی حد تک اپنے حواسوں میں لوٹ آئیں۔ اب ابا جان نے بھی وکالت شروع کر دی تھی سو مل ملا کر ہم لوگوں کی معاشی حالت خاصی بہتر ہوگئی تھی۔
آزاد کی پیدائش کے بعد اماں ابا بہت بہل گئے تھے۔ تابندہ اور پھر مراد، ہم لوگوں کی خوشیوں میں اضافہ کرنے ہماری جنت میں آ گئے۔ میرے تینوں بچوں کا نام ابا جان نے قومی ترانے سے چن کر رکھا تھا۔ ابا جان کو پاکستان سے عشق تھا۔ اماں جب جلال، چھوٹی آپا اور ان کے بچے اور بڑے ابا کے خاندان کو یاد کرکے رویا کرتی تو ابا انہیں سختی سے منع کرتے کہ وہ سب شہید ہیں اور شہیدوں کو رویا نہیں کرتے۔ ملک آسانی سے نہیں مل جاتا، بڑی قربانی مانگتا ہے۔ رو رو کر اپنی قربانی ضائع مت کرو اور میری صابر ماں، اپنی ملگجی ساری کے پلو سے اپنی برستی آنکھیں پونجھ لیتی، آہِ سرد دل ہی میں گھونٹ لیتی۔
مشرقی پاکستان میں ابھی ہم لوگ پرانے غم بھول بھی نہیں پائے تھے کہ عجیب عجیب باتیں ہونے لگی۔ گو ہم ایک ہی کلمے کے مقلد تھے پر جانے کب اور کیسے ہمارے درمیان ایک غیر محسوس سی دوری در آئی۔ جانے کہاں سے شک کا سرسراتا سیاہ ناگ ہمارے درمیان آ گیا اور عقیدہ ہماری پہچان نہیں بلکہ زبان مقدم ٹھہری۔
پینسٹھ کی جنگ کے بعد تیزی سے بگڑتی سیاسی صورتحال تھی۔ اِسی سال یکے بعد دیگرے اماں ابا جنت مکین ہوئے۔ ہم لوگ اپنے نواب گنج کے ہی گھر میں تھے اور اس کی تزئین و توسیع کر لی تھی۔ تینوں بچے اسکول جا رہے تھے۔ ہم لوگوں کی بنگلہ بھاشا بھی اتنی ہی رواں تھی جتنی اردو بولی بلکہ ہماری تو جلد کی رنگت، قد بت اور بود و باش بھی ملتی جلتی تھی مگر جانے وہ کیسی خلیج تھی جو پاٹے نہ پٹ رہی تھی۔ ہمارے محلے میں بیشتر گھرانے بنگالی تھے اور ہم سب برسوں سے اسی محلے میں مل جل کر رہ رہے تھے مگر اب رویوں میں ایک سرد مہری اور لاتعلقی سی تھی۔
انہتر سے تو صورت حال یوں تیزی سے بگڑی گویا لینڈ سلائڈنگ ہی ہوگئی ہو۔ ان دنوں ابا نے شدت سے کوشش کی کہ اپنا تبادلہ مغربی پاکستان کروا لیں۔ بہت جتن کیے کسی صورت گھر بک جائے کہ ساری عمر کا سرمایہ ایک یہی گھر ہی تو تھا مگر لوگ پیشانی پر بل ڈال کر ٹال جاتے بلکہ ایک پراپرٹی ڈیلر نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ جو چیز کل خود بخود اپنی جھولی میں گرنے والی ہو، اسے کوئی بےوقوف ہی خریدے گا۔
ایوب خان کی عشرے سے اوپر چلتی حکومت ان کی غلط پالیسیوں کے باعث اب آخری دموں پر تھی۔ ملک کے دونوں بازوں کے نوجوانوں ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور اس بے پناہ سیاسی دباؤ نے انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ اس طرح ایک بد مست شرابی کی بن آئی اور اس نا عاقبت اندیش نے ملک پہ بد قسمتی کی مہر لگا دی۔ الیکشن ہوئے اور بد نیت حکمرانوں نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا اور یوں شیخ مجیب الرحمٰن کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا۔ ہوائے مخالف کے رخ کو پہچانتے ہوئے وہ اپنے پیش کردہ چھ نکات پر ڈٹ گیا اور ملک کے دونوں بازوؤں میں اقتدار کی رسہ کشی زور پکڑتی گئی۔
مجیب کی کال پر سول نافرمانی اور آئے روز کے بم دھماکوں سے حکمرانوں کی ہوا اکھڑتی گئی اور اس بدحواسی میں علاج تجویز ہوا "آپریشن کلین اپ"۔ پچیس مارچ کی رات جب ملک کا سالارِ اعظم، ڈوبتے ملک کا ناخدا بحفاظتِ پرواز کر چکا تب آرمی نے حکومت کے مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے وہ گھور سیاہ ساعت چنی۔ شیخ مجیب اور کچھ عوامی لیگ کے سرکردہ گرفتار ہوئے۔ ہزاروں شہری جان سے گئے اور لاکھوں بنگالیوں نے سرحد پار کر لی۔ انتقام کی اگ اتنی شدید تھی کہ ہندوستان کی سرحد کی طرف بھاگتے بنگالیوں نے راستے میں پڑتے ہر چھوٹے بڑے شہر میں غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا۔ ہنستا بستا شہر دیکھتے ہی دیکھتے شہرِ خموشاں میں بدل گیا۔
آرمی کو چاٹگام سمیت دوسرے چھوٹے شہروں میں پہنچنے میں ہفتوں لگ گئے۔ جب وہ ان شہروں میں محبانِ وطن کو تحفظ دینے پہنچے تو ان شہروں میں لاشوں کو بھنبھوڑتے کتوں اور گدھ کے علاوہ کوئی ذی روح نہ تھا۔ سید پور میں میری بڑی آپا کا پورا خاندان اور ان کا سسرال ختم کر دیا گیا۔ وہ جو غیر مسلموں سے بچ کر اپنی پاک سرزمین پر آ بسے تھے، اپنے ہی ملک میں اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
اس سانحے کے بعد ہم لوگ بھی جیتے جی مر گئے کہ سانسوں کی آمد و رفت تو برابر جاری رہی مگر زندگی کہیں نہیں تھی۔
ابا کو سب سے زیادہ فکر سیانی ہوتی تابندہ تابندہ کی تھی۔ مراد اور میری تو صرف جان اہم تھی مگر تابندہ کی فکر سوا۔ ابا نے مغربی پاکستان نکلنے کی کوششیں تیز تر کر دیں اور گھر کو بیچنے کا خیال بھی ذہن سے نکال دیا کہ اگر ہم پانچ بچ رہے تو سر پر نیلے آسمان کی چھت تو رہے ہی گی، کیا ہوا جو کنکریٹ کی چھت میسر نہ ہوئی۔ سن اکہتر کے آخری مہینوں میں ہوائی جہاز کی ٹکٹ بلیک میں مل رہے تھے اور وہ بھی ہوش ربا قیمتوں پر۔ لوگ اپنے بال بچوں کے ساتھ ہفتوں ائیر پورٹ پر پڑے رہتے اور جہاز کی ٹکٹ ملتے ہی تن کے کپڑے کے ساتھ زندگی کی طرف پرواز کر جاتے۔ ابا نے بہت زور لگایا کہ اماں کم از کم تابندہ ہی کو لے کر کراچی نکل جائیں مگر وہ اللہ کی بندی بھی ٹس سے مس نہ ہوئیں۔
سال 1971 کی عید بھی شام غریباں ہی جیسی تھی کہ باقاعدہ جنگ کا اعلان تو دونوں ملکوں نے نہیں کیا تھا مگر سرحدوں پر شدید جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ مشرق پاکستان میں فوج کی نفری کم تھی سو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے محب وطن نوجوانوں کو معمولی سی حربی تربیت دے کر البدر اور الشمس رضا کار کی جماعت بنا دی گئی تھی۔ یہ رضا کار سمجھو فوج کے ہر اول دستے اور دست راست تھے۔ راستے کی رکاوٹیں صاف کرنا ان کی ذمہ داری ہوتی کہ یہ مقامی بہاری لڑکے راستوں سے بخوبی واقف تھے۔ رضا کاروں میں اتنے کم سن لڑکے بھی تھے جن کی ابھی مسیں بھی نہ بھیگی تھیں۔ میں نے بھی رضا کار بھرتی ہونے کے لیے بڑا زور مارا مگر اماں ابا مان کر ہی نہ دیے۔
نواب گنج میں حالات اتنے کشیدہ ہو گئے کہ ہم لوگوں کو جان بچانے کی خاطر محمد پور کے محلے جوائنٹ کواٹر منتقل ہونا پڑا۔ ڈھاکہ کے مختلف محلوں سے لوگ پناہ کی خاطر محمد پور اور میر پور کا رخ کر رہے تھے۔ ہم لوگوں نے دو چار جوڑے گٹھڑی میں باندھ کر بھرا پورا گھر اللہ کے آسرے تالا لگا کر چھوڑ دیا۔ ویسے ہی جیسے کبھی لالا جی نے اپنا گھر بھگوان کے سہارے چھوڑا ہوگا۔ نہ وہ کبھی مڑ کر آئے اور نہ ہی پھر کبھی ہماری جرات ہوئی کہ اس گلی میں قدم بھی رکھتے حالاں کہ اپنی پیدائش کے لمحے سے لے کر سترہ سال تک میں اسی گلی میں رہا بسا تھا۔
بالآخر سولہ دسمبر کی وہ کرب ناک ساعت بھی آ ہی گئی جو نوشتہ دیوار تو تھی مگر شعور اسے قبولنے کو تیار نہ تھا۔ ہزیمت سی ہزیمت، جنرل نیازی جن کا دعویٰ آخری گولی اور آخری آدمی تک، تھا۔ ان کے ریوالور کی چھ کی چھ گولیاں سلامت رہیں۔ پلٹن میدان میں ایک انبوہِ کثیر کے سامنے ان کے شانوں کو تمغوں اور ستاروں کے بوجھ آزاد کر دیا گیا کہ وہ واقعی اس کے اہل نہ تھے۔ کاغذی شیر تھے سو ڈھیر ہوئے۔
جاری۔۔