Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Azad (1)

Azad (1)

آزاد (1)

دادا، دادا! تھوڑا سا پانی پی لیجیے، میرے پوتے، کامل نے چمچی سے مجھے پانی پلانے کی ناکام کوشش کی پر جب گلے میں غرغراہٹ کا گھنگرو بجنا شروع جائے تو پھر کچھ اندر نہیں جاتا بلکہ بھیتر کا بھی سب اڑنے کو پر تولتے ہوئے اس خاکی وجود سے جان چھڑانے کے درپے ہوتا ہے۔ ساری آوازیں مدھم پڑتی جا رہی ہیں، آوازیں اور چہرے سب گڈمڈ ایک اتھاہ تاریکی میں روپوش ہوتے چلے گئے۔ میں نہ جانے کن زمانوں کی سیر کر رہا تھا۔ مجھے اپنا وجود بالکل بے وزن اور لطیف محسوس ہو رہا تھا۔

میرا نام آزاد ہے اور میرے کانوں میں ابا کی بھاری اور گہری گونجلی آواز گونج رہی ہے۔ آنکھوں کے آگے ابا کے برسوں سے کھینچے گئے لفظوں کے نقش گویا یادداشت کے پردے پر سنیما کے بدلتے منظروں کی طرح گزرتے چلے جا رہے ہیں۔

گھر کے صحن کے کونے میں لگے اکلوتے امرود کے پیڑ تلے بچھی کھاٹ، جس پر موٹے سوت کی نقشین دری بچھی رہتی تھی۔ میرا بیٹا اسی کھاٹ پہ بیٹھے میرے والد کے کندھے میں بانہیں ڈالے جھول رہا ہے۔ وہ اکثر کھاٹ پر لیٹے لیٹے اپنے پوتے کو گھٹنوں پر جھلایا کرتے تھے۔

گگوا گگ مگیری

اروا چاول ڈھیری

منّا کھائے دودھ بھات

اماں کھائے روٹی

نئی دیوار اٹھی اٹھی اٹھی

پرانی دیوار گری گری گری

اور ابا، دھڑام کہ کر آزاد کو بستر پر نرمی سے لڑھکا دیتے۔

ہم لوگوں کو نواب گنج کا یہ گھر بڑی کوششوں کے بعد سن اکیاون میں الاٹ ہوا تھا۔ وہی نواب گنج جس کی پتلی پتلی، نیم تارک گلیاں تھیں اور اکثر گلیوں میں ساتھ ساتھ بہتی ہوئی نالیاں بھی۔ وہیں ہمارا یہ چھوٹا سا تین کمروں کا گھر تھا۔ گلی سے دو سیڑھیاں چڑھ کر سبز لیکن رنگ اترا دروازہ، جو ایک وسیع صحن میں کھلتا۔ صحن کی لمبائی ہی جتنا برآمدہ، جس میں ایک ہی قطار میں بنے تین چھوٹے چھوٹے کمرے۔ یہ گھر کسی ہندو لالے کا تھا کہ کمروں کے طاقچے دئیے کی کالک سے کجلائے ہوئے تھے اور صحن کے بیچو بیچ گز بھر کی اونچائی پر تلسی کا پودا بھی لگا تھا۔ وہ پودا تو کب کا سوکھ چکا تھا اور پودے کا چبوترا بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ صحن کے پرلی طرف غسل خانہ اور اس کے برابر ہی بیت-الخلا اور وہیں ایک ہینڈ پمپ بھی تھا۔

برآمدے کے آخری سرے پر چھوٹا سا باورچی خانہ جو اب میری بیوی اور اماں کے سگھڑ ہاتھوں کی بدولت ہر وقت چمکتا رہتا تھا۔ ہم لوگ پہلا کمرہ بطور بیٹھک استعمال کرتے، پھر ابا اور اماں کا کمرہ اور آخیر والا ہم دونوں میاں بیوی کے زیر استعمال رہتا۔

اسی گھر سے میری بارات روانہ ہوئی تھی اور یہیں مجھے دنیا کی سب سے بڑی مسرت یعنی باپ بننے کی خوشی ملی۔ آزاد اسی گھر میں پیدا ہوا تھا اور وہ چار سال تک ہم چاروں کا اکلوتا دلارا رہا۔ پہلے تابندہ اس کے پیار میں شراکت دار ہوئی اور پھر چھوٹے بیٹے مراد نے ہم لوگوں کی خوشیوں کو مکمل کیا۔ ابا جان نے آزادی کی خوشی میں اپنے پہلے پوتے کا نام آزاد رکھا تھا۔ میرا بڑا بیٹا پاکستان سے ٹھیک سات سال چھوٹا ہے۔

میرے ابا، سید ہشام اور میں یعنی سید کمال پاکستان سے بے انتہا محبت کرتے تھے کہ اس ملک کے لیے ہم نے اپنے عزیز ترین افراد کو کھویا تھا۔ تقسیم سے پہلے ابا جان راج گیر میں شان سے رہتے، جہاں ان کی چلتی ہوئی وکالت کی پریکٹس تھی اور دھمول میں آبائی زمین بھی۔ میں ان کا بڑا بیٹا کمال، خاکسار تنظیم کا رکن تھا۔ مسلم لیگ کے قیام کے بعد ہم تینوں باپ بیٹے مسلم لیگ کے پرجوش کارکن بن گئے تھے۔ ان دنوں میں اور میرا چھوٹا بھائی سید جلال، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔ میری دونوں بڑی بہنیں شادی شدہ تھیں، ایک مرشد آباد میں دور کے رشتے داروں میں بیاہی ہوئی تھی اور چھوٹی بہن طلعت کی شادی میرے بڑے ابا کے سالے سے ہوئی تھی جو پٹنہ کے محلے سبزی باغ میں رہتے تھے۔

جنگ عظیم دوم لاکھوں جانوں کی بلی لے کر اختتام پذیر ہو چکی تھی۔ ہندوستان میں آزادی کی لہر چپے چپے پہ پھیل رہی تھی اور مسلمان پروانہ وار مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر رہے تھے، حتیٰ کے گلی گلی بچے نعرے لگاتے چل رہے تھے کہ

بٹ کے رہے گا ہندوستان

لے کے رہیں گے پاکستان

پاکستان کا مطلب کیا

لا الہ الا اللہ

برصغیر میں آزادی کا نعرہ گاؤں گاؤں، قریے قریے گونج رہا تھا۔ آزادی کی کوششوں کو تیز تر کرنے کی کوششوں میں ہم دونوں بھائیوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کو خیر باد کہا اور زور شور سے مسلم لیگ کی کنونسنگ میں لگ گئے۔

وہ 1946 سردیوں کے دن تھے، نومبر کا مہینہ تھا اور پٹنہ میں کڑاکے کا جاڑا پڑ رہا تھا۔ میں مسلم لیگ کے کارکنوں کے ساتھ کلکتہ گیا ہوا تھا اور جلال کی طبیعت چوں کہ خاصی ناساز تھی سو وہ بجائے راج گیر آنے کے پٹنہ اپنی چھوٹی آپا کے گھر چلا گیا۔ سیاسی فضا میں بہت گرما گرمی تھی اور محسوس یہی ہوتا تھا کہ یہ جوالا مکھی کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔ شہر میں فسادات شروع ہو چکے تھے اور شنید یہی تھی کہ شہر کے بڑے اور با اثر افراد اس بربریت کو روکنے کی کوششیں کر رہے ہیں مگر شاید نفرت کا جن بوتل سے باہر آ چکا تھا۔ بہار اور کلکتہ میں بلوائیوں نے قیامت صغریٰ برپا کر دی تھی اور صرف بہار میں بلوے میں تیس ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔ جب ہی تو قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ

"اگر 1946 میں اتنی بڑی تعداد میں بہاری نہ مارے جاتے تو شاید پاکستان اتنی جلدی نہ بنتا"۔

انہی فسادات میں میری چھوٹی آپا طلعت کا خاندان، میرا چھوٹا بھائی جلال اور میرے بڑے ابا کا پورا خاندان مارا گیا۔ اس سانحے میں ہمارے بڑے چھوٹے ملا کر سترہ افراد شہید ہوگئے تھے۔ جدائی کے اس سانحے نے اماں کے دماغ کو بری طرح متاثر کیا اور ان کا یہ حال ہوگیا تھا کہ وہ ہر وقت گھر کے سارے دروازے کھڑکی بند رکھتی اور گھر کے کسی فرد کو بھی باہر نہ جانے دیتی بلکہ شام ڈھلے چراغ بتی بھی روشن نہیں کرنے دیتی تھیں۔

1948 کے اپریل میں ابا جان، اماں اور میں، ہم تینوں افراد نے پاکستان ہجرت کی۔ بڑی آپا رفعت اپنے خاندان کے ساتھ مرشد آباد ہی رہ گئی تھیں۔ مشرقی پاکستان میں ہمیں بہت سخت حالات سے واسطہ پڑا۔ میری تعلیم ادھوری تھی مگر اس وقت تعلیم سے زیادہ ضروری روٹی تھی۔ ابا جان کو اپنی اولادوں، بھائی اور ان کے بچوں کے غم نے توڑ کر رکھ دیا تھا اور وہ زیادہ تر گھر پر رہ کر اماں کی دیکھ رکھ کرتے۔ زندگی کی گاڑی کھینچنے کو میں نے ٹھیلے پر سامان ڈھونا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ نوکری کی عرضی بھی ڈالتا رہتا۔ تین ساڑھے تین سالوں کی مستقل خواری کے بعد قسمت نے یاوری کی اور مجھے سرکاری نوکری مل گئی۔ میری نوکری لگتے ہی ابا نے میری شادی طے کر دی۔

1951 میں بڑی آپا کا خاندان بھی مرشد آباد سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آ گیا تھا۔ مرشد آباد میں نوشے بھائی کے کپڑے کے کارخانے کو بلوائیوں نے آگ لگا دی تھی، بڑی مشکلوں سے وہ سب جان بچا کر ہندوستان سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ نوشے بھائی نے سید پور میں رہنا پسند کیا۔ 1952 کے مارچ میں میری شادی پر بڑی آپا کا کنبہ شرکت کی غرض سے ڈھاکہ آیا۔ وہ عجیب دن تھا کہ مدت بعد بچھڑے ملے تھے اور جدائی کی ردا میں لپٹا وہ ملن کا سوگوار ترین دن تھا۔ اس دن ہم سب وقفے وقفے سے ایک دوسرے کے گلے لگ لگ کر روتے رہے۔

جاری۔۔

Check Also

Ye Breed Aur Hai

By Mubashir Ali Zaidi