Atma Samarpan (1)
اتما سمرپن (1)
برسات مجھے بہت پسند ہے پر سردیوں کی بارش میں اداسی بہت۔ بحیثیت مجموعی مجھے دسمبر ہی بہت اداس کرتا ہے۔ آدھی رات گزر چکی ہے اور صبح کا اجالا چاند کی آدھی مسافت طے کرنے کا منتظر۔ میں بند کھڑکی کی چوکھٹ پہ سر ٹکائے زمان و مکان سے بے نیاز چاٹگام کی گلیوں میں اپنے لڑکپن کی برستی بارش میں اپنے آپ کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ غل غپاڑہ مچاتے دیکھ رہا ہوں۔ ماضی بھی کیا خوب ہے، وہاں جانے کے لیے نہ ویزہ کی حاجت اور نہ ہی ٹریول ایجنٹ کے منت ترلے کی ضرورت بس۔
بس، " ذرا گردن جھکائی اور دیکھ لی تصویر یار۔ "
میں واصف علی خان، دنیا کے نشیب و فراز کو جھیلتے ہوئے عمر عزیز کی چھٹی دہائی کی پہلی سیڑھی پہ کھڑا سوچ رہا ہوں کہ انسان بھی کیسی بے بس مخلوق ہے، بالکل کٹ پتلی۔ ہم بظاہر پورے شد و مد سے مصروف کار اور متحرک مگر حقیقتاً ڈور کوئی اور ہلا رہا ہوتا ہے۔ اب اتنی آبلہ پائی کے بعد جانا کہ سب کچھ اس کے کن کا منتظر۔
وہ جو چاہے تو کیا نہیں ممکن
وہ نہ چاہے تو کیا کرے کوئی
میرے والد اشرف علی خان ریلوے میں ملازم تھے اور ہم لوگ چاٹگام، ٹائگر پاس میں آسودہ زندگی گزارتے تھے۔ ابا، امی، میں اور میری تین چھوٹی بہنیں۔ سادگی کا زمانہ تھا اور اس دور میں انسان من بھاتا ہی کھاتا، پیتا اور پہنتا بھی تھا۔ اس دور کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ گھر کا سربراہ پورے خاندان کو سمیٹ اور جوڑ کر چلتا تھا۔ چھوٹے سے چھوٹا گھر بھی آئے گئے سے بھرا رہتا اور آنے والوں مہمانوں کے لیے محبت اور تواضع کے ساتھ دسترخوان وسیع رہتا، شاید جب ہی اس زمانے میں برکت اور قلبی سکون بھی تھا۔
میں اپنے والدین کی واحد نرینہ اولاد سو میرے لاڈ پیار کا کیا ہی کہنا۔ اماں، میری شفیق اماں نے میرے بڑے ناز اٹھائے تھے۔ اماں نے ہم چاروں کو ڈانٹنا تو دور کی بات، کبھی ٹیڑھی نظروں سے بھی نہیں دیکھا تھا۔ میں اماں کا اکلوتا دلارا بابو واصفی تھا۔ انیس سو اکہتر میں، میری عمر یہی کوئی نو، دس سال تھی اور میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔ اسکول سے چھٹی کے بعد گلی محلے کے بچوں کے ساتھ مل کر گلی ڈنڈا، پہل دوج، سیون اسٹون اور برف پانی کھیلتے کھیلتے سہ پہر ڈھلتی اور میں مٹی میں سنے ہاتھوں، پیروں اور ادھڑے کپڑوں کے ساتھ گھر کی راہ لیتا۔
میری پیاری اماں خاموشی سے بنا کسی سرزش کے مجھے اپنے معطر اور شفیق آنچل میں چھپائے صحن کے کونے میں بنے غسل خانے کی سمت جاتی اور دس منٹ کے اندر اندر، اباں جان کے دفتر لوٹنے سے قبل میں دوبارہ انسان کا بچہ بنا صحن میں دونوں چھوٹی بہنوں کے ساتھ کھیل رہا ہوتا۔ وہیں محلے میں ایک گھر اور اس کے مکین میرے پسندیدہ بھی تھے۔ یاسمین آپا، ہاں یاسمین آپا میرے بچپنے کی سب سے خوشگوار یاد ہیں۔
میں ان کے گھر بہت شوق سے جایا کرتا تھا کہ ان کا چھوٹا سا پھولوں سے بھرا باغیچہ میرا من بھاون تھا۔ مجھے پھول اور تتلیاں بہت پسند تھی اور یاسمین آپا کو تتلیاں جمع کرنے کا شوق تھا۔ وہ شیشے کی چوڑے منہ کی بوتلوں میں رنگ رنگیلی تتلیاں جمع کرتیں اور ان کے اس شوق کا میں معاون و مددگار تھا۔ گوکہ مجھے تتلیاں پکڑنا بالکل پسند نہیں تھا مگر مجبوری یہ کہ مجھے یاسمین آپا کی خوشنودی بہت عزیز تھی۔
وہ بےفکری کے سہانے دن تھے مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مقامی اور غیر مقامی کا فرق واضح ہوتا جا رہا تھا اور بڑے تو بڑے اس تفرقے کی زہر ناکی سے تو اب ہم بچے بھی محفوظ نہیں رہے تھے۔ کاش کوئی سمجھا سکتا کہ ٹیگور اور نذرل الاسلام کی زبان ہی طرح غالب اور اقبال کی زبان بھی دلکش اور میٹھی ہے۔ انسانوں کو زبان ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے، رابطے کے لیے عطا کی گئی ہے نا کہ توڑنے اور تفرقا بازی کے لیے؟
مجھے 3 مارچ انیس سو اکہتر کا ہولناک دن بھلائے نہیں بھولتا۔ وہ بدھ کا دن تھا اور اسکول میں انگریزی کے ٹیچر قدیر خان صاحب نے بدھ کے دن تیسرے پیریڈ میں اسپیلنگ کا ٹسٹ لینا تھا اور میں منگل کی شام صحن میں ٹہل ٹہل کر مشکل الفاظوں کے ہجے کا ڑٹا لگانے میں مصروف تھا۔ جاتی سردی کی شام سرعت سے تاریک رات میں ڈھل گئی کہ باہر سائیکل رکشے پر سوار کوئی بھونپو (میگا فون) میں کل کے ہڑتال کے متعلق اعلان کرتے ہوئے گزر رہا تھا۔
"آگامی کال ہڑتال"
اس صدا کی گونج قریہ قریہ گلی گلی تھی اور ایک ان دیکھا سہم ہر جگہ اپنے خون آشام پنچے گاڑ رہا تھا۔ رات کے کھانے پر ابا جان، اماں کو بتا رہے تھے کہ یحیٰی خان نے ڈھاکہ میں ہونے والے نیشنل اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی کر دیا ہے اور بنگالیوں میں اس کے خلاف شدید غصہ پایا جا رہا ہے۔ تین مارچ کی آفت زدہ صبح کا پہلا ہدف وائرلیس کالونی میں برسوں سے اذان کی روح پرور آواز بکھراتی وائرلیس جامع مسجد کا اردو بورڈ تھا، وہ بورڈ جس میں جامع مسجد کے نام کے نیچے کلمہء طیبہ بھی لکھا تھا۔
ایک اردو بولنے والے نے کلمہ کی بے حرمتی سے روکنا چاہا تو بلوائیوں نے انہیں شدید زد و کوب کیا اور پھر بپھرے مجمعے نے وائرلیس کالونی میں موجود تمام غیر بنگالیوں کے گھروں کو نذر آتش کرنا شروع کر دیا۔ جلتے گھروں سے جان بچا کر بھاگنے والوں کو پکڑ پکڑ کر دوبارہ جلتے الاؤ میں جھونک دیا جاتا تھا۔ غیر بنگالیوں کے گلے میں جلتے ٹائر ڈال کر تالیوں کی گونج میں رقص بسمل بھی دیکھا گیا۔ دیکھتے دیکھتے تقریباً پورا شہر بلوائیوں کے نرغے میں آ گیا اور جگہ جگہ آگ کے شعلے آسمانوں سے باتیں کرنے لگے۔
یہ حملے بڑے منظم اور پورے شہر میں بیک وقت کیے گئے تھے اور سڑکوں پر گشت کرتی ایسٹ پاکستان رائفلز محض تماشائی تھی۔ یاسمین آپا کا گھر بھی لوٹا جا چکا تھا اور وہ لوگ بمشکل اپنی جان بچا کر اپنے پڑوسی منٹو کے گھر پناہ لیے ہوئے تھے۔ اس دن کے بعد مجھے یاسمین آپا کی کوئی خبر نہ ملی۔ ہم سب بھی اپنے بنگالی پڑوسی کے گھر چھپے ہوئے تھے۔ ہم تینوں بچے بڑے کمرے میں تخت کے نیچے ایک دوسرے سے لپٹے دہشت سے لرز رہے تھے اور ابا جان، اماں اور دو سالہ منی کو صحن کے پار بنے غسل خانے میں بند کرکے باہر سے کنڈی لگا دی گئی تھی۔
وائرلیس کالونی، سگن باغ، پنجابی لین، ٹائیگر پاس۔ آم بگان، پولو گراؤنڈ، جھاؤ تلہ اور ریلوے کالونی میں لوٹ مار اور آتش زنی اپنے عروج پر تھی مگر سب سے برا حال فروز شاہ اور اصفہانی کالونی کا تھا کہ وہ مکمل طور مقتل بنا دیں گئی تھیں۔ ٹائگر پاس کے ریلوے فلیٹ کی بلڈنگ نمبر 1 جہاں بلوائیوں کا اجتماع صبح سے بر سر پیکار تھا، وہاں کے مکین نواب سید یوسف رضا بخآری شہبازی صاحب اپنی واحد دو نالی بندوق سے اپنے خاندان اور بلڈنگ والوں کا دفاع کر رہے تھے۔
نواب صاحب نہایت وضع دار، ملنسار اور ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ بلوائی جب نواب صاحب سے مقابلہ کرنے میں کمزور پڑنے لگے تو کچھ بلوائی پائپ کے ذریعے چھت پر چڑھے اور چھت میں ہتھوڑے سے سوراخ کرکے وہاں سے مٹی کا تیل ڈالنے لگے اور یوں بلڈنگ میں آگ لگا دی گئی اور پوری بلڈنگ میں آگ بھڑک اٹھی۔ اسی بلڈنگ کے حسن صاحب جلتی عمارت سے جان بچا کر اپنے خاندان سمیت باہر نکلے اور بلوائیوں سے اپنے خاندان کی آبرو اور زندگی کے لیے رحم کی بھیک مانگتے رہے۔
مگر ان ظلموں نے انہیں اور ان کے ایک عزیز کو لوہے کے سریے سے مار مار کر شہید کر دیا اور ان کی بیٹیوں کو مال غنیمت جان کر اٹھا لے گئے۔ آخر سہی پہر کے قریب نیول بیرک جو کہ بلڈنگ نمبر 1 سے دور نہ تھا، وہاں سے کچھ سپاہیوں نے تالاب کے قریب پوزیشن سنبھالتے ہوئے فائرنگ شروع کی، یوں بلوائی منتشر ہوئے اور نیوی والے اپنا ٹرک لیکر آئے اور اس جلتی ہوئی بلڈنگ سے زخمی نواب صاحب، ان کے خاندان اور بلڈنگ کے بچے کچھے افراد کو سردار بہادر اسکول جو اب پناہ گیروں کا ٹھکانہ بن چکا تھا وہاں پہنچا گئے۔