Aswadi (1)
اسودی (1)
آپ سبھوں نے اپنے بچپن میں ugly ducklingکی کہانی اگر پڑھی نہیں بھی ہو گی تو سنی تو ضرور ہوگی۔ ہاں ہاں وہی کہانی جس میں بی بطخو کے چار بچے تھے، تین بہت خوبصورت اور ایک بدشکلا۔ شکل کی بھی خوب کہی"بنانے والی ایک ذات اور شکلیں بھانت بھانت"۔ کوئی گورا تو کوئی الٹا توا۔ کوئی سرو قد تو کوئی بوٹے جیسے قد پہ نازاں اور کوئی بےبسی کی تصویر بنا اپنے آپ پر ٹھگنے کا لیبل چسپاں کروا کر شرمندہ شرمندہ۔ بنانے والے نے بھی کیسی کیسی اور خوب تخلیق کی ہے۔ اب بھئ اس نے تو سب کو یک دلی اور یکسوئی سے بنایا کہ وہ خالق جو ٹھہرا۔
یقیناً اس نے اپنی مخلوق سے محبت بھی یکساں ہی کی ہو گی۔ پر اس کی مخلوق کی نطق بےلگام کا کیا اپائے یا علاج ہے؟ جو کلاشنکوف کی طرح تڑ تڑ چلتی اور دلوں کو چھلنی کرتی ہے۔ یہ تولے بھر کی زبان جب لاوا اُگلتی ہے تو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے ایسے کہ اس تلخی کا نہ تو مداوا ہوتا ہے اور نہ مرہم۔ میں دو بہنوں اور اکلوتے بھائی کے بعد آخری نمبر پر ہوں یعنی چوتھی اور بقول اماں کے پیٹ کی کھرچن تھی، جبھی کالی بھی۔ بڑی بہن شمائلہ، پھر بہن مہتاب اور بھائی آفتاب اور پھر میں کلوٹی یعنی صبیحہ، بھائی سے چھ سال چھوٹی۔ اماں کی بھی لوجک نرالی تھی۔
ان کے خیال میں انسان پر نام اثر انداز ہوتے ہیں سو اس امید پر کہ شاید اس نام کی بدولت میری سیاہی کچھ کم ہو جائے، اماں نے صبیحہ نام دے کر مجھے لوگوں کے لیے مستقل مزاق بنا دیا۔ ہائے ماؤں کی سادہ لوحی۔ قصہ کوہ تاہ کہ اماں اور ان کا خاندان گورا چٹا تھا اور میرا ددھیال سانولا سلونا، جس کو عرف عام میں میٹھارنگ اور بےدرد لوگ دھڑلے سے کالا کہتے ہیں۔ میری دادی نے کنوئیں میں بانس ڈلوا کر اماں جیسی چٹی بہو ڈھونڈی تاکہ ان کی اگلی نسل کی رنگت سنور جائے۔ بھاری طلائی سیٹ اور تگڑے مہر پر اماں کا ابا سے رشتہ پکا ہوا، کچھ نانا کی مجبوری بھی آڑے آئی کہ پانچ بیٹیوں کی قطار تھی اور بازو(بیٹا) کوئی نہ تھا۔
اماں عرصے تک ابا سے روٹھی روٹھی رہیں اور ابا ان کو مناتے مناتے اتنا جھکے کہ نابود ہی ہو گئے۔ خیر یہ ان میاں بیوی کا آپس کا معاملہ تھا۔ ویسے بھی شادیوں کے ساتھ دل کی آباد کاری کب مشروط ہے۔ ان کے آپس کے تعلقات جتنے بھی نزع میں رہے ہوں پر ہم بچوں کے لیے دونوں ہی شفیق تھے۔ تین بچوں نے جہاں اماں کا سر فخر سے بلند کیا وہیں ابا کا سینہ بھی چوڑا ہوا کہ تینوں گورے تھے۔ میری باری پر جانے کس کا سایہ پڑا؟ کہ میں رنگت اور طبیعت میں بالکل ابا پر چلی گئی۔ بقول اماں کے الٹا توا اور گھنی میسینی۔
اماں کے حساب سے مجھ پر میری منجھلی پھوپھی کا سایہ پڑا تھا کہ انہیں دنوں پھوپھا نے دوسری شادی کے باعث ان کو گھر سے نکال دیا تھا اور وہ روتی پیٹتی بھائی کے دروازے آ پڑیں تھیں۔ بعد میں خاندان والوں نے بیچ میں پڑ کر پھوپھا کو دونوں بیویوں کو رکھنے پر راضی کر لیا تھا۔ اماں کو یقین کامل تھا کہ شکیلہ (منجھلی پھوپھی) کی چھایا پڑ گئ تھی ان کی کوکھ پر اور میری رنگت اسی چھایا کی چھبی تھی۔ اماں نے بچپن سے ہی رنگ گورا کرنے والے سارے ٹوٹکے اور کریمیں مجھ پر آزما لی پر میری آبنوسی رنگت پر رتی بھر بھی فرق نہیں پڑا۔
ابا جو تین گورے بچوں کے بعد قدرے آسودہ ہو گئے تھے میری پیدائش کے بعد دوبارہ چپ کی گھپا میں گم ہو گئے۔ جانے انہیں میرا غم لے بیٹھا یا اماں کی کٹیلی زبان؟ جس دن میرا میٹرک کا آخری پرچہ تھا ابا نے بھی عدم آباد کی ٹکٹ کٹا لی اور جوڑیاں بازار میں اپنی ہول سیل کی دکان کی گھومتی کرسی پر بیٹھے بیٹھے دنیا سے منہ گھوما لیا۔ شمائلہ باجی اور مہتاب باجی کی شادیاں اماں نے ان کے میٹرک کرتے ہی کر دی تھی اور شمائلہ باجی نوشکی اور مہتاب باجی صادق آباد میں اپنی نصف درجن لشکر کے ساتھ فروکش تھیں۔
آفتاب بھائی کو پڑھائی لکھائی سے کچھ خاص انسیت نہیں تھی اور ان کا کہنا اتنا ناروا بھی نہیں تھا کہ جب اول و آخر دکان ہی سنبھالنی ہے تو پھر اتنی مغز ماری کیوں؟ سو وہ بمشکل ایف اے میں کمپارٹ لا کر دکان کے ساتھ نتھی ہو گئے اور بلاشبہ انہوں نے دکان کو بہت ترقی دی۔ ویسے تو ابا گھر میں بالکل چپ رہتے تھے اور سارے سیاہ و سفید کی مالک اماں تھیں مگر ابا کے جانے سے گھر جیسے بھائیں بھائیں کرنے لگا تھا۔ اماں نے میری شادی کی خاطر سر، پیر اور منہ گاڑی کیا ہوا تھا۔ چلے کاٹے، مزاروں کی خاک چھانی پر میرے ہاتھ پیلے ہو کر نہ دیے اور میں بر کے انتظار میں ایف ایس سی کر کے ایک سال سے گھر میں بیٹھی جھک مار رہی تھی۔
آفتاب بھائی میری قسمت کے زنگ آلود تالے سے تنگ اور اپنی منظور نظر کے طعنوں سے بےدم ہو کر اماں کے گھٹنوں آ لگے۔ اماں جہاندیدہ تھیں اور ہواؤں کا رخ پہچانتی تھیں اس لیے معاملے کے ہاتھوں سے نکلنے سے پہلے ہی آفتاب بھائی کی پسند کو عزت سے بیاہ لائیں۔ مستقبل کا اندازہ ہم سب کو تھا پر جب اپنا سکہ ہی کھوٹا تو پرائے کو کیا دے دوش؟ بھابی اپنی چٹی چمڑی پہ نازاں اور میک اپ کی رسیاں تھیں اور رج کے کاہل بھی۔ اتنی پھوہڑ کے "بہو چلیں، کھنبا ہلا" کی مثال ان پر صادق آتی تھی۔ زبان کی تیز اور چٹوری بھی۔ انہوں نے آتے ہی اماں کی ساری ہوا نکال دی اور انہیں دیوار سے لگا دیا۔
اماں ایسا چپ ہوئیں جیسے زبان کبھی تالو سے علیحدہ ہی نہ ہوئی ہو۔ اماں کی خاموش بےبسی دیکھ کر مجھے ہول اٹھتے تھے پر یہ شاید ابا کی بےآواز آہ کی تاثیر تھی۔ میرے حالات کم و بیش ویسے ہی رہے کہ اماں میری آگے پڑھائی کے حق میں نہ تھیں، سو مجھے باورچی خانے کی سو مصروفیات ہی دامن گیر رہیں۔ اماں بہو کے تیور اور منہ زوری سے بہت خائف تھیں لہٰذا میرے بر کی تلاش میں جان لڑا دی اور بالآخر میرے لیے دلھا خریدنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اماں نے میرے سسرال والوں کو ان کے مطالبے سے بھی زیادہ دیا۔
جانے کب کب کا جمع جتھا تھا جو سب کا سب اماں نے مجھ پر لٹا دیا۔ پر وہ بھول گئی تھیں کہ نصیب مول نہیں ملتے بلکہ لیکھ ہوتے ہیں۔ بھابی کا مزاج ان دنوں جہنم کی خبر لاتا تھا اور زبان انگارے اگلتی تھی۔ اماں نے بھی کان لپیٹ کر مجھے اپنے سر سے اتار پھینکا تاکہ سکھ سے مر سکیں۔ میرے ہونے والے میاں فہیم سال قبل ہی مسقط گئے تھے۔ ان کی دو بڑی بیاہی اور دو چھوٹی کنواری بہنیں تھیں۔ میری سسرال واجبی شکل و صورت کی تھی۔ رنگت سب کی مجھ سے یقیناً بہتر تھی پر نین نقش واجبی۔ شادی کی تقریب بہت سادہ تھی کہ سادگی دلہے والوں کا تقاضا تھا۔
پر قربان جائیے اس سادگی کے کہ انہیں جہیز میں رتی بھر بھی کٹوتی منظور نہیں تھی، پچیس دن بعد اگلے سال کے وعدے پر میاں پردیس سدھارے۔ میاں نے میری رنگت پر ایسی کوئی ناخوشگواری کا اظہار تو نہیں کیا پر ایک دو بار دبے لفظوں میں رنگوں کے انتخاب پر ضرور ٹوکا۔ چھوٹی نندیں بھائی کی موجودگی تک تو خاموش رہیں پر ساس اور دونوں بڑی نندیں تو غالباً کفن پھاڑ کر بولنے کی عادی تھیں۔ اس پچیس دن کی قلیل مدت میں بھی میاں صاحب مجھے بمشکل رات کے آخری پہر ہی دستیاب ہوتے تھے۔ شادی کے تیسرے دن ہی باورچی خانہ میرے حوالے کر دیا گیا۔ کیسا گھومنا اور کہاں کا گھمانا؟
اماں نے میری سسرال کا ایک دو ہی چکر لگایا پھر میری سسرال کے سرد اور تمسخرانہ رویے کے باعث نہیں پلٹیں۔ اماں نے غالباً مجھ پر جیتے جی ہی فاتحہ پڑھ ڈالی تھی۔ بھابی کی بدولت میکہ پہلے ہی میرے لیے شجر ممنوعہ تھا۔ مجھے اپنا مستقبل اپنی رنگت سے ہی مشابہ لگ رہا تھا۔ فہیم کے جاتے ہی سسرالیوں نے مجھے جوتی کی نوک پر رکھ لیا۔ حد یہ کہ مجھے میرے کمرے سے بھی نکال باہر کیا۔ میرے جہیز کے زیور، کپڑے، کراکری اور مشینیں سب دو چھتی پر چڑھا دی گئی کہ فہمیدہ کو جہیز میں دی جائیں گی۔ میں نے ہلکی سی صدائے احتجاج بلند کی تو میری بڑی نند نے مجھے بالوں سے گھسیٹ کر وہ چار چوٹ کی مار ماری کہ میں دو دن تک ہلدی چونے ہی پوتی رہی۔
اس کے بعد تو میں ان سے ایسے کانپنے لگی جیسے بکری قصائی کی چھری سے۔ بڑی مشکل سے چھپ چھپا کے میاں کو خط میں صورت حال لکھی اور جواب میں صبر کا درس پڑھا۔ اس جوابی خط پر گھر میں وہ ہنگامہ مچا کہ پوچھئے مت۔ مجھ تک فہیم کا خط بھی نہیں پہنچتا تھا(جانے وہ لکھتے بھی تھے کہ نہیں)۔ فہیم سے میرا رابطہ منقطع تھا کہ خط کا جواب ہی نہیں آتا تھا اور گھر کے فون پر تالا اور صورت حال ناگفتہ بہ۔ مرے پہ سو درے کہ شادی کے چھ ماہ بعد ہی ایک رات اماں ایسا سوئیں کہ پھر اس رات کی سویر ہی نہیں ہوئی۔
تیجے کے دن ہی بھابی صاحبہ نے صاف لفظوں میں مجھے جتلا دیا کہ"بی بنوں اب تمہارا یہاں کوئی نہیں سو کبھی پلٹ کر بھی اس چوکھٹ کو مت دیکھنا"۔ میری مثال بالکل" آگے کنواں پیچھے کھائی"جیسی تھی۔ مجھ پر پورے گھر کی ذمہ داری، ساتھ ناقص خوراک اور برائے نام آرام۔ تنہائی سی تنہائی کہ سسرال میں کوئی منہ ہی نہیں لگاتا تھا۔ جو رنگ بھی پہنوں اس پر پھبتی تیار حالانکہ میرے نین نقش تیکھے تھے بس رنگت شب دیجور جیسی تھی۔ زندگی سے دل ہی اوب چکا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ میں بونڈڈ لیبر ہوں، زرخرید غلام۔
مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ لوگ غلاف کعبہ اور حجر اسود کو تو چوم چوم کر بے حال ہوئے جاتے ہیں سر آنکھوں پر رکھتے ہیں حالانکہ وہ بھی سیاہ ہیں۔ مانا وہ اللہ کی نسبت سے محترم ہیں پر سیاہ رنگت لوگ بھی تو"اسی اللہ" کی مخلوق ہیں، اس کی تخلیق ہونے کے ناطے اسی بےنیاز سے نسبت بھی رکھتے ہیں پھر ان کی اتنی تحقیر اور تذلیل کیوں؟ اللہ تو کہتا ہے کہ کسی کا دل نہ توڑو کہ اس میں اللہ بستا ہے پر اس کی بیشتر مخلوق تو دل کو روند کر پائمال کر دیتی ہے۔ اے میرے مولا اتنا اندھیر؟ ایسی ناانصافی؟
خدا خدا کر کے فہمیدہ کی شادی طے ہوئی۔ اس شادی میں میری خوشی اور دلچسپی بس اتنی تھی کہ فہیم آئیں گے اور ان سے ملاقات ہو گی۔ وہ آٹھ دن کی مختصر ترین مدت پر آۓ مگر اس میں بھی اینٹھے رہے۔ مجھ سخت سست ہی سناتے رہے اور میں اپنا قصور ہی پوچھتی رہ گئی اور ان کے جانے کا دن بھی آ گیا گویا"آئے بھی وہ گئے بھی وہ، ختم فسانہ ہو گیا"۔
ایک دن آصفہ میری چھوٹی نندکی دوستیں آئیں ہوئیں تھیں، ان کو چائے دینے گئی تو میرے متعلق استفسار پر آصفہ نے اپنی دوستوں سے مجھے بطور نوکرانی متعارف کروایا اور فخریہ کہا کہ بھیا کے لیے تو دلہن ڈھونڈ رہے ہیں۔ میرے تو دماغ کا فیوز ہی اڑ گیا۔ میں سکتے میں رہ گئی۔