Amar Kahani
امر کہانی
حالات کی ستم ظریفی کہ وقت نے سر سے چھپر چھاؤں چھینی اور یتیم خانہ ٹھکانہ ہوا۔ وہ یتیم خانے ہی میں پلا بڑھا تھا۔ یتیم خانے کے رجسٹر میں ولدیت کے خانے میں ایک نام درج تو تھا پر وہاں اسے داخل کروانے والے کبھی پلٹ کر آئے ہی نہیں۔ کبھی اس کا احوال لیا ہی نہیں۔ سیلاب میں فقط اس کے ماں باپ ہی نہیں بہے بلکہ اس طغیانی میں سارے جیتے جاگتے رشتے ناطے بھی بہ گئے تھے۔ شاید غریبی اتنی ہی سفاک و بےدرد ہوتی ہے کہ دیدہ و دانستہ بے وفا ہو جانا ہی روا۔ اس بچے کا نام انور سعید درج کروایا گیا تھا۔ بڑی بڑی بھوری اداس آنکھوں والا خاموش طبع بچہ، گرتے پڑتے، لڑھکتے خود ہی سنبھلنا سیکھ گیا، جینا سیکھ گیا۔
زمانہ اپنی رفتار سے گزرتا رہا اور وہ بھی اپنے بے رنگ دن رات سے اوبے بنا، زندگی کی ٹکسال میں ڈھلتے یکساں لگے بندھے بد نما دن گزارتا رہا۔ وقت کچھ اور آگے بڑھا تو اس کا تعلیمی سلسلہ چل پڑا اور اس کی قدرتی ذہانت اس کا راستہ روشن کرتی چلی گئی۔
اتنی بڑی دنیا میں اس کے واحد غم گسار، یتیم خانے کی مسجد کے امام صاحب تھے۔ امام صاحب کی سکونت مسجد سے متصل کوٹھری میں تھی۔ امام، رحمت الہی جالندھر سے آئے ہوئے لٹے پٹے مہاجر تھے۔ سینتالیس کے بٹوارے میں ان کے پورے خاندان کو کاٹ کر ان سے ان کی مسلمانیت کا تاوان لیا گیا تھا۔ اس جدائی کے غم نے ان کے جسم و جاں کو ضرور بوسیدہ کر دیا تھا مگر پاکستان سے ان کا عشق ویسے ہی لافانی اور جوان تھا۔ وہ ننھے انور کو پہروں ہجرت کی کہانیاں سناتے، قربانی اور محبت کی وہ لازوال کہانیاں، جن کا اندراج قرطاس پہ کم مگر دلوں میں بہت زیادہ ہے۔ انور کے معصوم دل نے ان کہانیوں کو کسی جاذب کاغذ کی طرح اپنے ذہن و شعور میں جذب کر لیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں اپنے ملک کی محبت کی جڑیں گہری ہوتی چلی گئی۔
انور جوان ہوا تو رحمت الہی کی کوٹھری میں منتقل ہوگیا۔ اسی یتیم خانے میں اسے مہتمم کے مدد گار کی نوکری مل گئی اور اس قلیل آمدنی سے انور نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ بالآخر اس نے اپنا اور امام صاحب کا مشترکہ دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر کیا۔ پاکستان آرمی میں بحثیت لفٹننٹ بھرتی ہوا۔ اس کے پاسنگ آوٹ پریڈ میں اس کے واحد مہمان امام رحمت الہی تھے، جو غالباً اس دن اس سے بھی زیادہ خوش تھے۔
انیس سالہ لفٹیننٹ انور سعید بتیس کیولری میں شامل، وطن کی محبت میں سرشار تھا۔ اسے اپنی زندگی کا مقصد مل گیا تھا۔
پچیس مارچ 1969 ایک جابر حکمران رسوائے زمانہ ہو کر تخت بدر کیا گیا تو عوام کی بد بختی کہ دوسرا اس سے بھی بدتر مسلط ہوا۔ نوجوان پاکستان اپنے دوسرے مارشل لاء کے عہد بد سے گزر رہا تھا اور ملک میں سیاسی تپش اتنی زیادہ کہ وطن کا مشرقی بازو اس حدت سے جھلس رہا تھا۔ عیاش جنرل یحییٰ خان اپنی خر مستیوں میں گم آنے والے مہیب سائیکلون سے قطعی بے نیاز "سب اچھا" کی تال پر محو رقصاں۔ عیار سیاست دانوں کی مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان تک کی دوڑیں لگتی رہیں مگر سب باتیں خلوص نیت سے مبرا محض لن ترانیاں۔
فقط باتیں اندھیروں کی محض قصے اجالوں کے
چراغِ آرزو لے کر نہ تم نکلے نہ ہم نکلے
شاید مفاہمت کا وقت گزر چکا تھا، مہلت ختم ہو چکی تھی۔
وہ آغازِ بہار کے دن تھے مگر اُس سال وطن عزیز میں بہار بھی آنے سے ہراساں تھی۔ لفٹیننٹ انور سعید جو بتیس کیولری میں شامل تھے کمک کے طور پر ڈھاکہ بھیجے گئے اور یہاں ٹینکوں کی تیسری بٹالین میں شامل ہوئے۔ انور ڈھاکہ کی دم بخود کر دینے والی ہریالی اور روح کو مست کر دینے والی بھٹیالی سے ابھی پوری طرح آشنا بھی نہیں ہوئے تھے کہ "آپریشن سرچ لائٹ" ہوگیا۔ اس آپریشن سے سیاسی گدھ اور عیاش جنرلوں نے گویا پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ انتقاماً پورا مشرقی پاکستان تشدد کی لپیٹ میں آ گیا اور درندگی کے بھینٹ چڑھے مشرقی پاکستان میں بسنے والے غیر بنگالی اور وہ بنگالی بھی جن کی پاکستان سے وفاداری مستند تھی۔ ایسی لال آندھی چلی کہ اس کی زد سے شاید ہی کوئی گھر بچا۔
لفٹیننٹ انور انسانی جان کے اس زیاں پر دل شکستہ و انگشت بہ دنداں تھا اور سمجھ چکا تھا کہ عیار دشمن، بنگال کی پرسکون فضا میں زہر گھولنے میں کامیاب رہا ہے۔ کچھ اپنوں کے دییے ہوئے چرکے اور کچھ غیروں کی پشت پناہی نے مشرقی پاکستان میں حالات قابو سے باہر کر دییے۔ ان مخدوش حالات میں مغربی پاکستان سے مزید کمک منگوانی نا ممکن تھی سو اپنی ہی سر زمین پر اپنوں کے خلاف لڑتے اور دشمنوں سے بھڑتے سنہ اکہتر کے آخری مہینے، انور کی تعیناتی مشرقی پاکستان کے سرحدی گاؤں جیسور میں ہوگئی۔
جیسور سیکٹر مشرقی پاکستان کا جنوب مغربی علاقہ تھا جس کے شمال میں دریائے گنگا، مشرق میں دریائے میگھنا اور جنوب میں خلیج بنگال تھی۔ اس سیکٹر کا باڈر چھ سو کلو میٹر کے لگ بھگ تھا۔ سرحدی جھڑپیں تو نومبر کے مہینے ہی میں شروع ہوگئی تھی، آج باقاعدہ جنگ کا دوسرا دن یعنی چار دسمبر تھا۔ جیسور کے بارڈر پر گولہ باری میں مزید شدت آ گئی تھی۔ دشمن نے بھرپور حملہ کر دیا تھا اور آگے بڑھنے کی دھن میں بری طرح بارود اور سیسہ جھونک رہا تھا۔ جوابی کارروائی کے طور پر لفٹیننٹ انور کی پلاٹون نے حملہ کیا اور باوجود شدید گولہ باری کے لفٹیننٹ انور بے جگری سے اپنا ٹینک آگے بڑھاتے لے گیے اور کامیابی سے دشمن کے چار ٹینک ناکارہ کر دیے۔ اس وقت تک پاک فوج کے تقریباً سارے جوان (30) شہید ہو چکے تھے۔ سر فروش لیفٹننٹ انور اپنا ٹینک آگے بڑھا رہے تھے کہ دفعتاً ایک گولہ ان کے ٹینک کے قریب پھٹا اور ان کے ٹینک نے آگ پکڑ لی۔ زخمی انور جلتے ٹینک کے ایمرجنسی ایکزٹ سے رینگتے ہوئے باہر نکلے اور اپنی اسٹن گن ہاتھوں میں پکڑے پکڑے قریبی گڑھے میں چھلانگ لگا دی۔
بھارتی میجر اپنے کچھ سپاہیوں سمیت مکمل اعتماد سے چلتا ہوا گڑھے تک آیا اور زخموں سے چور چور لیفٹیننٹ انور کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا۔ اس نے جنگ کی موجودہ پوزیشن سے لفٹیننٹ انور کو آگاہ کرتے ہوئے جینوا کنونشن کی جانب سے قیدیوں کے طے شدہ حقوق بتائے۔ بھارتی میجر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ تمہارے سارے ساتھی مارے جا چکے ہیں لہذا لڑنا بے سود ہے سو اب تم بھی ہتھیار ڈال دو۔
لیفٹننٹ انور کے پاس زندگی بچانے کا یہ آخری سنہری موقع تھا مگر کچھ پرندے کبھی بھی اسیر نہیں کیے جا سکتے، وہ سہنرے پنجرے پر آزاد فضاؤں کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ وہ شاہین بچہ بھی عام کب تھا۔ بچپن سے دل میں پروان چڑھتے جزبئہ حب الوطنی نے جوش کھایا اور لفٹیننٹ انور نے زندگی پر شہادت کو ترجیح دی کہ وہ کوئی عیار سیاست دان تو تھا نہیں کہ موقع پرستی سے کام لیتا۔ وہ تو سچا اور کھرا مجاہد تھا جس کے دل میں پاکستان کی محبت راسخ تھی سو اس نے آخری سانس تک لڑنے کا فیصلہ کیا۔
لیفٹننٹ انور نے اپنی اسٹن گن سیدھی کی اور ٹریگر دبا دیا۔ یہ سب کچھ اتنی سرعت سے ہوا کہ مرتے ہوئے بھارتی میجر کی آنکھوں میں حیرت ساکت رہ گئی۔ پلک جھپکنے سے بھی پہلے بھارتی سپاہیوں کی بندوقوں سے درجنوں گولیاں نکلی اور لیفٹیننٹ انور کو چھلنی چھلنی کر گئیں۔
جیسور کی مٹی نے اپنے بیٹے کے پاک خون کو جذب کر لیا۔ لیفٹیننٹ انور کی خاک و خون میں لتھڑی خاکی وردی لالہ فام تھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ لیفٹیننٹ انور سعید کا جسد خاکی کہاں ہے؟
اسے اُسی گڑھے میں چھوڑ دیا گیا یا دریا برد کر دیا یا منتقیم بھارتی اسے ٹینک سے کچلتے ہوئے نکلتے چلے گے؟
اکہتر کی جنگ میں جیسور پہلا سرحدی شہر تھا جو ہمارے ہاتھوں سے نکلا تھا۔
لیفٹیننٹ انور سعید کو حکومت پاکستان نے "ستارہ جرات" سے نوازا۔ یتیم و یسیر انور کا اس دنیا میں کون تھا جو ان کی طرف سے یہ اعزاز لینے آتا سو یہ میڈل ان کی رجمنٹ نے وصول کیا اور یہ تمغہ کمانڈنگ آفیسر کے دفتر کی دیوار کی زینت ہے۔
مشرقی پاکستان کی سر زمین اپنے ایسے کئی شہید بیٹوں کی شاہد ہے جو یا تو دفنائے ہی نہیں گئے یا پھر ان کی بے نشان قبریں اس خطئہ زرخیز میں جانے کہاں کہاں بکھری پڑیں ہیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ ان سب شہداء پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے آمین۔
ہائے افسوس ان قیمتی جانوں پہ جو وطن کی محبت پہ واری گئیں اور صد افسوس اس گراں قدر خون پہ جو رائگاں گیا۔
کیا مول لگ رہا ہے شہیدوں کے خون کا
مرتے تھے جس پہ ہم وہ سزایاب کیا ہوئے
ساحر لدھیانوی