1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shaheen Kamal/
  4. 56 Benz (1)

56 Benz (1)

چھپن بینز (1)

سارے معمول حسب سابق ہی تو تھے خواہ وہ صبح کی چائے ہو یا شام کا ٹہلنا، پچھلے چالیس بیالیس سال کی روٹین میری پختہ عادت بن چکی ہے۔ میں چار سال پہلے ریٹائر ہو چکا تھا اور اب ایک پرائیوٹ کمپنی میں بطور قانونی مشیر ہفتے میں تین دن بھاری معاوضے کے عوض اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔

شام کی واک پر تو نہیں البتہ صبح کی چائے پر میں نے اِس کا توڑ کر لیا ہے۔ صبح میں اہتمام سے دو کپ چائے تیار کرتا ہوں اور معمول کے مطابق اسے اخبار کی شہ سرخی سناتا اور اس کے بےلاگ تبصرے کا مزہ لیتا ہوں۔

کسے؟ ارے بھئی اپنی گیتی آرا کو اور کسے؟

گیتی آرا، میری شریک حیات جسے میں لاڈ میں چھپن بینز کہتا ہوں کہ اس کی پیدائش انیس سو چھپن کی ہے۔ ہم فرسٹ کزن ہیں اور ساتھ ہی کھیل کود اور خوب خوب لڑجھگڑ کر بڑے ہوئے۔ ہم کب ایک دوسرے کے دل میں مکیں ہوئے اُس گھڑی سے ہم دونوں ہی یکسر لا علم، شاید ہم عالم ارواح ہی سے ساتھ تھے۔ ہم دونوں جم کر لڑتے بھی اور رچ کے محبت بھی کی۔ ہماری محبت کی نشانی ہمارے دو سُپترے پر وہ دونوں ہی نہ ماں کی طرح مہربان اور نہ ہی باپ طرح وضع دار پر باپ کی پیشہ ورانہ کج بحثی ضرور اپنا لی تھی۔ ان دونوں کو شاید جدید ہوا جلدی ہی لگ گئی تھی یا بہت ممکن کہ بدیس کی بے مہر مٹی کا اثر ہو۔ وجہ جو بھی رہی ہو پر وہ دونوں تکلیف دہ حد تک با عمل اور کیلکولیٹو۔ خیر ان نا ہنجارو کو چھوڑیں، میں تو اپنی جانِ جاناں کا قصہ سنا رہا ہوں۔

وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے

اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو

لوگوں کو میرا اپنی بیوی کا عاشق ہونا حیران کرتا ہے اور مجھے ان کی حیرت ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ میرا ارادہ یہی تھا کہ وقت سے دو سال پہلے ریٹائرمنٹ لے لوں۔ یوں بھی اپنے شانوں پر ذمہ داریوں کا کوئی بوجھ نہ تھا۔ دونوں بیٹوں کی پڑھائی پر جو خرچ ہوا سو ہوا۔ مزے کی بات کہ پڑھائی مکمل کرنے سے پہلے ہی میرے دونوں عالم قابل نے اپنی عملی زندگیوں کا آغاز کر دیا تھا اور اپنے طور پر اپنی زندگی گزارنے لگے۔ دونوں بھائی امریکہ کی مختلف اسٹیٹ میں رہائش پذیر ہیں۔ اب تو خیر سے گھر بار والے بھی۔ ان کی اپنی پسند کی بیویاں اور مرضی کی زندگیاں ہیں۔ ہر ماں کی طرح میری چھپن بینز کو بھی بہو پسند کرنے اور بیٹوں کو بیاہنے کا شدید ارمان تھا۔ دونوں بیٹوں نے یکے بعد دیگرے جب ماں کو لال جھنڈی دکھائی تو گیتی بالکل مرجھا گئیں۔ میں نے شکستہ دل گیتی کو سمجھایا۔

"یار اچھا ہے نا آپ کو بہو کی تلاش میں جوتیاں نہیں چٹخانی پڑیں، ہلکان اور خوار نہیں ہونا پڑا۔ لڑکوں نے خود اپنی شریک سفر کا انتخاب کیا ہے اور خود ہی اپنے برے بھلے کے ذمہ دار بھی۔ آپ تو ہر شکوے شکایت سے صفا بری اذمہ، نہ کوئی رولا نہ سیاپا"۔ میری طرحدار چھپن چھری نے میرا دل رکھنے کو میری بات مان بھی لی اور بظاہر خوش نظر آنے کے لیے کوشاں بھی رہی۔

ہاں تو ہم دونوں کا منصوبہ تھا کہ ریٹائرمنٹ لیتے ہی تین مہینوں کے لیے ہم لوگ کینیڈا کی کوسٹ ٹو کوسٹ ٹو کوسٹ بائی روڈ سیاحی کریں گے۔ اس سلسلے میں گیتی اس قدر پرجوش تھیں کہ روز نقشہ پھیلا کر گوگل کی مدد سے راستے میں آنے والے چھوٹے بڑے شہروں کی تفصیلات اور اہم مقامات اپنی ڈائری میں نوٹ کرتی جاتیں۔ گیتی کی لکھائی اتنی مرصع تھی جیسے موتیوں کی لڑی۔ اس کی مصروفیت سے میں یوں خوش کہ میری جان خوش۔ روز صبح چائے پر اور شام کی واک پر چھپن بینز مجھے نئے نئے مقامات سے روشناس کراتی، وہ بڑے ہی مزے کے مصروف اور نکھرے نکھرے روز و شب تھے۔ ہم دونوں کی ایک بات بہت اچھی ہے کہ ہم دونوں نے کبھی بھی ایک دوسرے پر اپنی پسند نا پسند مسلط نہیں کی۔ ہمیشہ ایک دوسرے کو سپیس دی اور دل سے ایک دوسرے کی پرائیویسی کا احترام کیا۔

میرا پسندیدہ رنگ نارنجی ہے اور میری چھپن بینز کو اس رنگ سے اتنی چڑ کہ وہ نارنگی سے بھی متنفر۔ اسے میرا شوخ رنگ پہنا بالکل نہیں بھاتا، بقول اس کے مجھ پر صوفیانہ رنگ زیادہ جچتے ہیں، گرے، ہلکا آسمانی، بادامی۔ میں کہتا یار یہ سارے بڑھؤ رنگ میں بڑھاپے میں پہنوں گا، ریٹائرمنٹ کے بعد۔ وہ ہنسی خوشی میرے لیے میرے پسندیدہ رنگوں کی ہی شرٹس لاتی ہے۔ ہاں شادی کی سالگرہ پر اس کے لباس اور دیگر لوازمات میں نارنجی رنگ ضرور شامل ہوتا اور اس دن میری بھی پوری کوشش ہوتی کہ میں اپنے لباس میں صوفیانہ رنگ کا ٹچ ضرور دوں۔ ہم لوگوں کا مکمل باہمی اتفاق موسیقی اور جزوی اتفاق ادب کے انتخاب پر ہے ورنہ مزاجاً ہم لوگ شمالاً جنوباً۔ اس کے باوجود ہماری بہت اچھی گزری۔

ہم لوگ اس وسیع و عریض کینیڈا کے ایک نسبتاً چھوٹے شہر میں رہتے ہیں۔ اس شہر کی سب سے دلچسپ بات یہ کہ یہاں عربی کم مگر بھارتی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی مسلمان تقریباً برابر برابر بلکہ جو انڈین ہندو ہیں وہ بھی اسی ٹولے میں شامل۔ ہم لوگ دانستہ سیاسی گفتگو سے اجتناب برتتے کہ تینوں ملک کا مشترکہ سیاسی ورثہ بہت ہی تلخ و تکلیف دہ۔ حیران کن بات یہ کہ گروپ میں سیاست کی تلخی تو پھر بھی جھیل لی جاتی، پی لی جاتی تھی مگر بھئی معاملہ تب بگڑتا جب کرکٹ میچ ہوتا تھا۔ اف! میچ کے دوران فضا بڑی محبوس اور زہریلی ہو جاتی، گروپ میں بڑا کھنچاؤ آ جاتا۔ مجھے تو خیر یوں بھی کرکٹ سے دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی کہ میں اور چھپن بینز فٹبال کے رسیا ہیں۔

ہمارے حلقہ احباب میں لیے دیے رہنے والی ملکہ یعنی مسز رحمان نئی نئی شامل ہوئیں تھیں۔ یہ ہندوستانی بنگالی جوڑا مسی ساگا ٹورانٹو سے یہاں منتقل ہوا تھا۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ "مجھ سے پہلے اُس گلی میں میرے افسانے گئے"۔

من و عن یہی حال مسز چودھری کے قصے کا تھا۔ ان کا نام "نیلم" تو ان کے والدین نے غالباً ان کی نیلگوں آنکھوں کے باعث رکھا ہوگا۔ اب بنگال کی ملیح رنگت پر نیلی آنکھیں عجوبہ روز گار ہی مانی جاتی ہیں۔ ملکہ کی نیلگوں آنکھوں کی وجہ ان کی دادی کہ وہ فرنگی تھیں۔ نیلم کے دادا، کرامت اللہ برطانیہ بیرسٹری پڑھنے گئے تھے۔ تعلیمی میدان میں تو جھنڈے گاڑے سو گاڑے مگر دل بری طرح ہار بیٹھے۔ اپنے استاد سے انصاف پڑھتے پڑھتے، ان ہی کی بیٹی پر دل بے ایمان ہوگیا۔

بیٹی ایملی پر بیرسٹر کرامت اللہ کے سلونے روپ اور سیاہ آنکھوں کا فسوں ایسا چلا، ایسا چلا کہ شاید اس کا توڑ بنگال کے کالے جادو میں بھی نہ تھا۔ استاد بھی انصاف کے کھرے امین سو دونوں کے اعترافِ محبت کے بیان میں سچائی کی آنچ پا کر حق کے ساتھ کھڑے ہوئے اور کٹر کیتھولک ہونے کے باوجود اپنے ہی ڈرائنگ روم میں اپنی عزیز از جان بیٹی کو کلمہ پڑھوا کر، ایملی سے فاطمہ بنایا اور تاج برطانیہ کے غلام کے عقد میں دے دیا۔ شنید ہے کہ بیٹی کی رخصتی کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور حجرہ بند ہو گئے تھے۔ اولاد کی محبت بھی کیسا کیسا خراج لیتی ہے۔

ایملی سے فاطمہ تک کا سفر طے کرنے والی فاطمہ نے محبت کی ندی چڑھی ہوئی تو جیت لی مگر کلکتہ کے مرطوب موسم اور خاندان کے مسموم رویے کو نہ جھیل سکی۔ شادی کے فقط تین سال بعد ہی ہیضے کا شکار ہوئی۔ اب جانے یہ ہیضہ تھا یا حسد؟ حویلی میں سرسراتی سرگوشیوں نے جب حویلی کی فصیل پار کی تو یہ بات زبان زد عام تھی کہ کرامت اللہ کی بچپن کی منگ عصمت آرا انگاروں پہ لوٹا کرتی تھیں اور یہ انہی کی آہِ سرد تھی جو فاطمہ کرامت اللہ کو بھسم کر گئی۔ اب جانے اس میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ، بھلا کہنے والے کی بھی کبھی زبان پکڑی گئی ہے؟

فاطمہ کے انتقال کے بعد خاندان کے بے پناہ دباؤ کے باوجود کرامت اللہ نے دوسری شادی نہیں کی اور پوری تن دہی کے ساتھ اپنے ڈیڑھ سالہ رفاقت اللہ کی پرورش میں منہمک ہو گئے۔ ادھر عصمت آرا بھی کم ناک والی نہ تھیں، ان کی محبت اور غیرت پر یکساں چوٹ پڑی تھی سو بس ڈٹ گئیں کہ کرامت نہیں تو پھر کوئی نہیں۔ اپنی گندم کے خوشے جیسی کندن جوانی رول دی اور بڑھاپے میں ڈولا باپ کی ڈیوڑھی ہی سے قبرستان گیا۔ انہوں نے بہت طویل عمر پائی تھی پر ان کے من کے کرود نے خاندان کی کسی بھابھی یا بہو کو سکھ کا سانس نہ بھرنے دیا۔ محبت کی نامرادی نے انہیں جلتا انگارہ بنا دیا تھا اور اس کی تپش سے نہ ان کا اپنا آپ اور نہ ہی ان کے اپنے محفوظ تھے۔

ملکہ یعنی مسز رحمان چودھری کی بھی عجیب قسمت تھی۔ ان کی پہلی شادی کلکتے میں اپنے خاندان ہی میں ہوئی تھی اور ہوئی بھی کس سے؟

عصمت آرا کے سگے بھائی کے پوتے سبغت اللہ سے۔ یہ دونوں کلکتہ یونیورسٹی میں ساتھ ہی پڑھتے تھے۔ ایک ہی خون اور خاندان سو اس طوفانی عشق کی راہ میں کوئی مزاحم بھی نہیں۔ پورے نوابی آن بان سے دونوں کی شادی ہوئی، ہفتوں شادی کی تقریبات چلتی رہیں۔ جانے نصیب کا پھیر تھا یا پھر پھونس دادی عصمت آرا کی جوڑ توڑ اور نظر زدگی۔ یہ ارمانوں بھری شادی چلی ہی نہیں۔ دارجلنگ سے ہنسی خوشی ہنی مون منا کر واپس آئے جوڑے میں آئے دن چپقلش رہنے لگی۔ کب لگاؤ لاگ میں بدلا اور محبت کے پیچھے بیری پچھل پیری پڑی پتہ ہی نہیں چلا۔

Check Also

Aalmi Youm e Azadi e Sahafat

By Gul Bakhshalvi