Do Lafz Aur Jabri Mazhab Tabdeeli
دو لفظ اور جبری مذہب تبدیلی
انگریزی لفظ (force) کا اصل اصول لاطینی سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں: مضبوط، ٹھوس یا پِھر طاقتور۔ لفظ (conversion) پر آئیں جو لاطینی سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں: موڑنا، ٹرن اراؤنڈ، یا تبدیل کرنا۔
انہیں دو لفظوں نے ہمارے پورے ملک کی کئی حقیقتوں کو درپیش کیا ہے خواہ وہ سیاست دان ہو جو اپنے وعدے سے مُکر جاتے ہیں یا قانون نافذ کرنے والے اپنے کام سے اغوا کار کو حراست میں لینے سے مُکر جاتے ہیں یا خواہ وہ کوئی عدالتی فیصلہ ہو، جس فیصلے نے انصاف کی عجیب سی مانو ضمانت رکھی ہو۔ یہ سب ان دو لفظوں میں آمیز ہے، اور طویل جبر، بربریت اور ظلم کی داستانیں اس کی نمائش کرتی ہیں۔
یہ کوئی پہلی بار تو نہیں ہے۔ یہ کوئی پہلی آرزو تو نہیں ہے۔ یہ کوئی پہلی ذیادتی تو نہیں ہے۔ یہ کوئی پہلی مذہب تبدیلی تو نہیں ہے۔ یہ کوئی پہلی اغواہ کی ممکن کامیابی تو نہیں ہے۔ یہ کوئی پہلی کورٹ کی سنوائی تو نہیں ہے۔ یہ کوئی پہلی ماں کی دہائی تو نہیں ہے۔ تو جب سب کچھ پہلا سا نہیں ہے۔ پِھر بھی اِس بار یہ درد اُمت اُمٹ کر کیوں آرہا ہے۔
آرزو راجہ کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔ یہ 13 سالا لڑکی کو اغوا کے بعد زبردستی مذہب قبول کروایا گیا اور اک ناجائز غیر قانونی شادی میں دھکیلا گیا اور 44 سالا آدمی سے شادی کروائی گئی۔
یہ شور اقلیتوں کی طرف سے کیوں اٹھ رہا ہے؟ بچی کو 15 سے زائد دنوں کے بعد کورٹ کے آرڈر پر بازیاب کرادیا گیا تھا اور پناہ گاہ بھیج دیا گیا ہے، مگر کورٹ کی سماعتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حیرت تو یہ ہے کے ان واقعات کی سنجیدگی بھی ٹیلی ویژن کی براہ راست نشست نہ آسکی اور اسے بھی سوائے چند کے اِس واقعے کو TV پہ اہم ترجیح سے دکھایا ہی نہیں گیا۔ اِس کا ذمہ دار آخر کون ہے؟
ہم اگر اپنے ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ایسے مختلف واقعات کو دبایا جاتا ہے تاکہ برادرانہ نظام قائم کیا جائے۔ تاکہ نا انصافی کو بڑھوتی دی جائے۔ عموماً معاشرہ اس سے صرف متاثر ہی نہیں ہوتا بلکہ ٹھیس بھی کھاتا ہے۔
لفظ "conversion" کو دوبارہ پڑھیں اور اس کے مضمرات کو انصاف سے جوڑیں، تو یہ جانیں، کے کیا یہ راستہ متاثرین کے لیے کبھی کھلا چھوڑا گیا ہے؟ کیا قانون نافذ کرنے والوں پہ اتنی شفافیت کا اظہار کیا جاسکتا ہے؟ کیا عدالتی فیصلوں کو اپنایا جاسکتا ہے؟
سُنیتا، مہک، کومل، ہمُا، لتا، سمرن، رنکل اور اب آرزو اور ناجانے کتنی لڑکیاں اِس جبری مذہب تبدیلی جس درندگی کا شکار ہوتی ہیں اور حکومت کے نمائندہ کار اسے اسمبلی تک پہنچانے کی زحمت سے آج تک قاصر ہیں۔
اپنے آپ کو ترقی پسند بولنے والی پارٹیز بھی ایک محاذ پہ اِس Bill کو پاس نہیں کروا سکی جس Bill میں جبری زیادتی کو مرکز بنایا جائے۔ یہ جانے بغیر کے اسے سب سے زیادہ سندھ متاثر ہے پِھر بھی صوبائی حکومت کے پاس سے مثبت خبر نہیں آتی۔
جب کوئی قرارداد منظور کی جاتی ہے تو اُسکے پیچھے چھپے کئی پہلوؤں کو دیکھا جاتا ہے۔ مثلا اس قانون کا نافذ ہونا اور ایک ایسا نظام قائم کرنا جو انصاف کو آسانی سے دستیاب کرے۔ مگر اگر قانون کا صحیح استعمال نہ ہو تو وہ قانون کا استصال بن کر رہ جاتا ہے۔ یا وہ صرف ایک قانون بن کر ہی رہ جاتا ہے اور لاگو نہیں ہوتا۔
2016 میں Forced conversion bill کی مخالفت جس جواز سے رد کی گئی تھی کے مذہبِ اسلام قبول کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی اور اس Bill میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے اسی وجہ سے بل کو سیاسی-مذہبی جماعتوں کے دباؤ کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا۔ اب تک کی ناکامی یہی ہے کہ آج تک سندھ کی مرکزی پارٹی ہونے کے ناطع جبری تبدیلی کو مرکزی توجہ نہیں دی گئی۔
جب یہ مقدمات کورٹ تک پہنچتے ہیں، تو فیصلوں میں لڑکیوں کی مخالفت اور اغوا کار کی حمایت پر لڑکی کی شادی "اپنی مرضی سے کی گئی" جیسے جواز پیش کیے جاتے ہیں اور درندگی کو لبادے میں قبول کر لیا جاتا ہے۔
مجرم کی ذہنی نفسیات دہ حصوں میں بٹی ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ اس جرم کو انجام دیتا ہے، شادی جو غیرقانونی ہوتی ہے اس لیے کی جاتی ہے کے جنسی تعلق ہو اور جنسی تعلق اسلئے کیا جاتا ہے کے شادی ہو۔ جب كہ حقیقت اسی میں کہیں پوش ہے۔ عام طور پر ان لڑکیوں کی عمر 12 سے 18 کے درمیان ہوتی ہیں۔ جس عمر کو چھپانے کے لیے جعلی دستاویز کاغذ بنائے جاتے ہیں اور چھوٹی بچیوں کے دماغوں میں اک خوف طاری کیا جاتا ہے۔
ایک video جو آرزو کی طرف سے ریلیز کروائی گئی، اور کئی لوگوں نے اِس رائے کا اظہار کیا کے بچی کی اپنی مرضی شامل ہے۔ مگر ذرا سوچیں ایک 14 سالا بچی کسی اور کے گھر اپنے آپکو محفوظ سمجھتی ہے کیا؟ ہمارے معاشرے میں ایک 13 سالا بچی سے کہا جاتا ہے کے وہ دلیری سے بیان دے اور ایک 44 سالا مرد سے کہا جاتا ہے کے وہ جرم چھپائے رکھے۔ بس اسی فرق سے جرم کو فروغ ملتی ہے ہمارے معاشرے میں۔
انصاف کے ستون کو اتنی عالمِ بالا پر چڑھا دیا گیا ہے کہ عام اور نچلے طبقے کا شہری بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کے بااثر شخص قانون کا غلط سہارا لیکر قانون کو گمراہ کرتا ہے۔
اسی دوران جو ایک اہم مسئلہ اجاگر ہوتا ہے وہ زیادتی تو ہے ہی مگر اقلیتوں کی بڑی تعداد میں ملک چھوڑ جانا بھی ہے۔ یہ تحفظ کی فضا نا قائم ہونے کی وجہ سے پچھلے کئی سالوں کے اعدادوشمار اس کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان اعدادوشمار میں کمی کی وجہ امتیازی سلوک، تعصبات، ظلم اور نفرت کی مختلف داستانیں ہیں۔
پاکستان کی آزادی كے دوران یا اِس كے بعد 5 ملین كے قریب ہندو اور سکھوں نے ہندوستان حجرت کی۔ 1951 کی مردم شماری میں غیر مسلمانوں کی مشرقی سمیت مغربی پاکستان کی کل آبادی 26.1 فیصد تشکیل دی گئی تھی۔ لیکن آبادی کی تباہ کن حقیقتوں کے بعد اقلیت کی نمایاں فیصد میں افزائش کے طور پر نہیں دیکھی گئی۔ اقلیتوں کی آبادی میں کمی کی بنیادی وجہ 1965 اور 1971 کی اہم جنگیں بھی ہیں۔ ان میں مذہبی تشدد تھا، جبری تبدیلی، ظلم و ستم تھا۔ اقلیتوں کی دوسرے ملک منتقل ہونے کی وجہ میں بھی شامل ہیں۔
ایک world factbook كے مطابق، 90 فیصد سے زیادہ پاکستان میں آبادی مسلمانوں کی ہے اور 3 فیصد سے زیادہ كے یا اس کے قریب غیر مسلم ہیں جن میں مسیح، احمدی، ہندو، سکھ اور دیگر شامل ہیں جو خود بڑے خدشات کا اظہار کرتی ہے۔
ایک تحقیقاتی رپورٹ نے یہ تفتیش ظاہر کی کہ اقلیتوں کی پاکستان سے حجرت کی اہم وجہ انصافی استحصال ہے۔ ریاست انسانی مساوات اور امن لانے میں ناامید ثابت ہوئی۔ اِس خوف نے لوگوں میں تحفظ کا احساس ختم ہی کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کیا ریاست یہ جانتی ہے؟ کیا اس سے متاثر ہوئی ہے؟ اور اسکو روکنے کے لیے کیا کیا گیا ہے؟