Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sardar Azhar Rehman
  4. Shehar e Na Tarsaan

Shehar e Na Tarsaan

شہرِ نا ترساں

بیس برس قبل ہم اس پر فضا پہاڑی شہر کے مکین ہوئے۔ اس سے پہلے صرف یہاں سے گذر کر آگے جایا کرتے تھے۔ اس طرح تو بچپن سے اسے دیکھتے آئے تھے مگر یہاں بسیرا کیا تو رفتہ رفتہ اس کے گلی کوچوں سے آشنائی ہوئی اور اب تو شاید ہی کوئی ایسا کونا کھدرا ہو جہاں ہمارے قدموں کے نشان ثبت نہ ہوں۔ یہ چونکہ ہل سٹیشن ہے اس لئیے گرمیوں میں سیاحوں کی بھر مار ہوتی ہے زیادہ تر وہ جو صرف یہاں سے گزرتے ہیں مگر ان کا گذرنا ہی قیامتڈھا جاتا ہے۔

شہر کی مرکزی شاہراہ پر ٹریفک پھنستی ہے تو ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں جو عام حالات میں صرف پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیو ہے۔ چھوٹے چھوٹے شہروں کے بائی پاس ہیں مگر اس اہم ترین شہر کا کوئی بائی پاس نہیں۔ بائی پاس کا منصوبہ موجود ہے مگر مقامی سیاست کی کھینچا تانی نے اس منصوبے کا تانا بانا ایسا الجھا دیا ہے کہ کوئی مائی کا لال اسے سلجھانے کا بیڑا نہیں اٹھا سکتا۔ مرکزی شاہراہ کی اپ گریڈیشن اور سروس روڈ کی تعمیر کا منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑا ہے۔

صوبے کے دوسرے بڑے شہرمیں آبادی کےبے تحاشہ بوجھ اور ٹریفک کے حد درجہ بڑھتے دباؤ کے باوجود کسی فلائی اوور یا انڈر پاس کا کوئی منی میگا پروجیکٹ دور دور تک پائپ لائن میں موجود نہیں۔ سی پیک کے فعال ہو جانے کے بعد امید تھی شہر میں ٹریفک کا دباؤ کم ہو جائے گا مگر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ سڑک کی آپ گریڈیشن توکر دی گئی ہے مگر سروس روڈ گول ہو گئی ہے۔۔ خیر یہ تو دل کے پھپھولے ہیں ان کا کیا ذکر کرنا۔

ہماری رہائش چونکہ شہر کے قلب میں ہے جہاں سامنے شاہراہِ ریشم سے چین تک جانے والا ٹریفک گذرتا ہےاور عقب میں مین بازار واقع ہے جو اہم ترین سرکاری دفاتر سے گھرا ہونے کی وجہ سے ضلعے بھر کے عوام کی روزمرّہ مصروفیات کی آماجگاہ ہے۔ اس لئیے یہاں کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ تجاوزات کا کوڑھ اپنی بدنمائی کے ساتھ آپ کے قدم روک لیتا ہے اور " کچرا رانی" جابجا رقص کرتی پھرتی ہے۔ البتہ کینٹ ایریا صاف ستھرا اور پرسکون ہے۔

کولونیل دور کی وضعدار عمارتیں، لیڈی گارڈن، یوروپئین طرزِ تعمیر کے شاندار چرچ، فوجی افسروں کےوسیع و عریض بنگلے، صاف ستھری سڑکیں اور سب سے بڑھ کر صدیوں پرانے، موٹےتنوں اور اونچی پھیلی ہوئی ڈالیوں والے دیودار، چیڑھ اور چنار کے درخت۔ یہ سڑکیں چہل قدمی کے لئیے نہایت مناسب ہیں۔ خاص طور پر صبح کے وقت تھوڑی تھوڑی دیر بعد رک کر گہری سانس کھینچ کر اپنے پھیپھڑوں میں آکسیجن اتارنا نہایت فرحت بخش تجربہ ہے۔۔

مگر یہ فرحت اب کلفت میں بدل گئی ہے۔ بظاہر تو سب کچھ ویسا ہی ہے۔ وہی سڑکیں، وہی درخت وہی ہوا مگر پھیپھڑوں میں آکسیجن اتارنے کی ہمت نہیں پڑتی کہ جلتے ہوئے پلاسٹک کی بُو سانس کھینچتے ہی سب سے پہلے اندر گھستی چلی آتی ہے۔ یہ بُو رات گئے بھی موجود ہوتی ہے اورصبح کی سیر بھی آپ اس سے بے فکر ہو کر نہیں کر سکتے۔

مین بازار کے دکانداروں میں رواج ہے کہ پیکنگ میٹریل اور پولتھین وغیرہ سارا دن دکان سے باہر سڑک پر پھینکتے رہتے ہیں جسے رات کو اکٹھا کر کے جلا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاؤہ بھی جگہ جگہ کوڑے کو تیلی دکھانے والے رضاکار بکثرت پائے جاتے ہیں۔ پہلے تو وہ اس پلاسٹک ملے کوڑے کا الاؤ جلا کر آگ تاپتے ہیں اور پھر اسے رات بھر کے لئیے سلگتا چھوڑ کر اپنی راہ لیتے ہیں۔ آگ تو ختم ہو جاتی ہے مگر دھواں بلکہ دھواں سا نجانے کہاں کہاں سے اٹھتا ہی رہتا ہے۔۔

دھواں دھواں پرے جا۔۔ ماسی دے پکوڑے کھا۔۔۔ مگر وہ پرے نہیں جاتا بلکہ صبح کی سیر کرتے ہوئے جب ہم چیڑھ کے درختوں کی صحت بخش ہوا میں سانس لینے لگتے ہیں تو سیدھا ہماری طرف دوڑا چلا آتا ہے۔ تب تک تیلی لگانے والا پتہ نہیں کہاں پہنچ پاہنچ کر اس بات کو بھول بھلا چکا ہوتا ہے مگر اس کی اس حرکت کا خمیازہ بہت سے لوگ تادیر بھگتتے رہتے ہیں۔

کوڑا جلانا اگرچہ جرم ہے مگر اس کی خبر ابھی یہاں نہیں پہنچی۔ عام پبلک کو تو سات خون معاف ہیں مگر کمیٹی کے خاکروب بھی (جنھیں سینیٹری ورکرز کا معزز نام دے دیا گیا ہے) تعزیراتِ پاکستان کی اس گمنام شق سے بظاہر نابلد دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لئیے کوڑے کا وزن اورحجم کم کرنے کے لیے اسے بے دریغ جلانا عین قرینِ مصلحت سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں سارے شہر کا کوڑا ڈمپ کیا جاتا ہے وہاں سے ہر وقت دھواں ہی اٹھتا رہتا ہے۔ اتفاق سے یہ جگہ شہر کے داخلی راستے پر واقع ہے اس لئیے جو مہمان بھی آتا ہے خوشبو کا جھونکا سنگ لئیے ہوئے آتا ہسب سے زیادہ غضب تب ڈھیتا ہے جب ہسپتالوں کے فُضلے کو بھی آگ لگا کر تلف کرنے کا عمل کارِ خیر سمجھ کر انجام دیا جاتا ہے۔۔ ذرا اندازہ کریں کیا کچھ کوڑے دان سے نکل کر اس فضا میں شامل ہو جاتا ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں

کبھی کبھی ایک خوفناک خیال مستقبل میں پیش آنے والے محیر العقول واقعات کا احاطہ کرتی سائنس فکشن فلم کی طرح دماغ کی سکرین پر نمودار ہوتا ہے کہ ہوا میں کسی نے زہریلی گیس چھوڑ دی ہے جو اس کی زد میں آتا ہے اس کا سانس لینا محال ہو جاتا ہے۔ لوگ اس سے بچنے کے لیۓ اندھا دھند ادھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔

درحقیقت زہر چھوڑنے والے بھی ہم ہیں اور بھاگنے کی نوبت آئی تو بھاگنے والے بھی ہم ہی ھوں۔ مگر بھاگ کر آخر جائیں گے کہاں؟

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi