Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sardar Azhar Rehman
  4. Mustansar Hussain Tarar

Mustansar Hussain Tarar

مستنصر حسین تارڑ

تارڑ صاحب کا نام پہلی بار اسّی کی دہائی میں "ففٹی ففٹی" کے ایک خاکےکے توسط سے کانوں میں پڑا۔ اسماعیل تارا ٹریفک پولیس کی سفید وردی پہنے " فی فی۔۔۔" کرتا ایک موٹر سائیکل سوار کو روکتا ہے اور کچھ ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اسے چالان " ٹھوکنے" لگتا ہے " ہاں بھئی! کیا نام ہے تیرا "۔۔" مستنصر حسین تارڑ" موٹر سائیکل والا جواب دیتا ہے۔" اچھ۔۔۔ چھا۔۔۔ مُس۔۔۔ مُس۔۔۔ مُس۔۔۔۔۔۔۔۔" ہکلاتے ہوئے " چل اوئے۔۔۔ جا۔۔۔ آئندہ ایسا کیا تو بند کر دوں گا۔۔۔ چل بھاگ " سب ہنستے ہیں اور بات ختم۔۔۔۔۔ پھر انھی زمانوں میں کسی دن، کسی اخبار کے اندرونی صفحے پر یہ نام ایک کالم کے ماتھے پر چسپاں دکھائی دیتا ہے۔ اخّاہ۔۔ تویہ نام واقعی کسی کا ہے۔ واہ بھئی واہ!

اس کے بعد زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ " نکلے تری تلاش میں " ہاتھ آگئی۔ تب تک ہم بھی بچپن کی سرحد پار کر کے لڑکپن کی وادی میں قدم رکھ چکے تھے۔ نزدیک ہی کہیں " پیار کا پہلا شہر" بھی راستے میں پڑا۔ ٹین ایج کا دور، تارڑ کے اسلوب نے ایسا جکڑا کہ آج دن تک اس کا لکھا جب بھی دستیاب ہو جائے حرف بحرف پڑھے بغیر چین نہیں آتا۔ اور اس کی کسی بات سے اختلاف کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔

وہ " خانہ بدوش" کے زمانے تھے، ہر سال دو سال بعد وہ اپنا " رک سیک" اٹھاتا اور بال بچوں کو اللہ کے آسرے چھوڑ کر" منہ میرا ول یورپ شریف" کہتا ہوا مغرب کا رخ کرتا۔ اس کی جولانئ طبع ایک ماہر گائیڈ کی طرح ایک طرف ہمیں قدیم یورپی تہذیب و تمدن اور فنونِ لطیفہ کی باریکیوں سے آگاہ کرتی تو دوسری طرف ایک عام پاکستانی مسافر کے جذبات اور خواہشات سے بھی با خبر رکھتی مگر ایسا پاکستانی جو اپنا پاکستانی ہونے کا افتخار کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیتا۔ اس دور کے سفر ناموں میں آوارہ گرد سیاحوں کے معاملات، ہپیوں کی بے سروپا زندگی اور مختلف سیاحتی مقامات کے ماحول کو بڑی خوبصورتی سے پینٹ کیا گیا ہے۔

پھر ایک اور دور آیا، باہر جانے سے اس کا دل اکتایا، شمال کی جھیلوں نے اسے بلایا، اس نے بھی ان سے وصل کا بیڑا اٹھایا اور پھر اس میدان میں بھی اپنا سکہ جمایا۔ شمال کی کوہ نوردیوں میں جو تڑپ، کسک اور سپردگی ہے وہ کسی عشقِیہ داستان سےکم نشاط انگیز نہیں۔ یہاں بھی وہ صرف پتھروں، پانیوں اور برفوں تک محدود نہیں رہا بلکہ انسانی جذبوں کی حدت کو اپنے اندر سموئے زندگی کی کہانی کو آگے بڑھاتا رہا۔ اپنے ساتھی ہم سفروں، پورٹروں، ڈرائیوروں اور شمال کے چنیدہ کرداروں کی تصویریں اپنی تحریروں میں نقش کرتا رہا۔ اس کی فیملی ہمارے لیے اجنبی نہ رہی۔ اس کے بچے ہماری"آنکھوں " کے سامنے پروان چڑھے۔ وہ لگ بھگ ہر برس جیسے کسی مقدس فریضے کی ادائیگی کے لیے عازمِ شمال ہوتا رہا اور غالباً ابھی تک یہ سلسلہ کسی نہ کسی طور جاری ہے۔

ایک وہ زمانہ تھا جب صرف غیر ملکی سیاح ان پہاڑوں کے اندر جاتے تھے۔ وہاں کے باسی بھی گوروں کے علاوہ اور کسی نوع البشر سے واقف نہ تھے۔ بہت سی ایسی دور دراز جگہوں پر مستنصر نے پہلی بار ہم وطن پاکستانیوں سے ان کا تعارف کرایا۔ جبکہ دوسری طرف ان سفر ناموں کے ڈسے پاکستانی سیاحوں نے بھی ادھر کا قصد کیا اورعشاق کے کئی قافلے تارڑ کے علم اٹھائےانھی لذتوں کو کشید کرنے کے لیے جوق در جوق نکل کھڑے ہوئے اگرچہ بیشتر کو مایوسی ہوئی کہ عشقِ خاص ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔

ادھر یہ سب جاری تھا اور اُدھر تارڑ کا قلم ناول پہ ناول اگل رہا تھا۔" پیار کا پہلا شہر" تو محض ایک چھوٹی سی من موہنی سی ابتدا تھی ناولوں کے اس طویل سلسلے کی جس نے نہ صرف پاکستانی معاشرت اور سماجی تاریخ کے ان گنت پہلوؤں کو طشت از بام کیابلکہ آثارِ قدیمہ اور مذہبیات تک کو فنی خوش اسلوبی سے زندگی کے بہتے دھارےسے ہم آہنگ کر کے آفاقی انسانی المیے کا حصہ بنا کر پیش کیا۔ اس سے سوا ہر عشرے کا ایک نمائندہ ناول جو مصنف کے حیاتیاتی ارتقاء کے ہمراہ گردوپیش کی تصویر اور ملکی تاریخ کی ایک مستند شہادت بنتا گیا۔ تارڑ کے ان ناولوں میں ایک تیس سالہ، چالیس سالہ، پچاس سالہ، ساٹھ سالہ، یہاں تک کہ ستر سالہ شخص بھی محبت کی کہانی کا ہیرو بننے کا استحقاق رکھتا ہے۔ شاید اس لیے کہ وہ اس کردار میں اپنا سوفٹ ویئر رکھ کر اسے لکھتا ہے اور بہت سےاولڈ بوائز کے دل کی آواز بن جاتا ہے۔

کہانی کہنا بھی کوئی اس سے سیکھے۔ کہانی تو جیسے خود انگلی پکڑ کر اس کے ساتھ ہو لیتی ہے یا کبھی وہ اسے کان سے پکڑ کر آگے لگا لیتا ہے اور پھر مجال ہے وہ اسکے شکنجے سے نکل پائے۔

اسکا قلم کبھی نہیں رکا۔ پچھلی عمر میں جب جب وہ اپنے بچوں کے پاس کبھی امریکہ، کبھی کینیڈا تو کبھی تائیوان ان کے بچوں کے ایک " بوڑھے" گرینڈ پا کے روپ میں مقیم ہوا تو نئے سفرنامے وجود میں آئے یہاں تک کہ آخر میں اس نے اپنے جنم استھان لاہورکی وہ وہ جگہیں کھوج نکالیں جن کا شاید اسے خود بھی علم نہیں تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ زود نویس ہے مگر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس نے بھرتی کی ایک بھی چیز نہیں لکھی۔ وہ ہیمنگوے اور عبداللہ حسین کا پرستار ہے مگر خود بھی انھی کی صف میں کھڑا ہونے کا اہل۔ وہ پاکستانی سماج کا نبض شناس اور پاکستانیت کا بیرومیٹر ہے۔ ہماری مسخ شدہ تاریخ کو مستقبل کا مؤرخ جب نئے سرے سے مرتب کرے گا تو مستنصر کی تحریریں ایک مستند حوالہ ٹہھریں گی۔

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan