Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sardar Azhar Rehman
  4. Imdad e Bahmi

Imdad e Bahmi

امدادِ باہمی

یہ خطہِ ارض جو اتفاق سے ہمارا وطن قرار پایا ہے اس بات کا یقیناً مستحق ہے کہ ہم یہاں زندگی کی ماہیت کا معروضی تجزیہ کر کے ان حقائق کا کھوج لگائیں جو معاشرے کے بظاہر ناہموار رویوں کےپسِ پردہ اپنی موجودگی کا احساس تو ضروردلاتے ہیں مگر الفاظ کی صورت متشکل نہیں ہو پاتے۔ ساتھ ہی اس بات کا ادراک بھی لازم ہےکہ جو راستہ ہمارے لیے نا ہموار ہے ضروری نہیں باقیوں کی رائے بھی اس کے بارے میں وہی ہو۔

عین ممکن ہے بہت بڑی تعداد ان افراد کی ہو جو اس کے پیچ و خم سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان کے لیے یہاں سے بسرعت اور بآسانی گذر جانا معمول کی بات ہے۔ یہ ایک ایسی غیر مرئی خلیج ہے جس نے معاشرے کو دو طبقوں میں بانٹ رکھا ہے۔ ایک وہ جو اس سارے سسٹم کو اچھی طرح سمجھتا ہے، اس سے فائدہ اٹھاتاہے اور اسی کا حصہ بنے رہنے پر دل و جان سے راضی ہے جبکہ دوسرا وہ جو کتابوں میں پناہ ڈھونڈتا اور انقلاب کے خواب دیکھتا ہےمگر زمینی حقائق سے بے خبر خواہش کے خبر بن جانے کا منتظر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ امدادِ باہمی کے ایک غیر مرئی مگر مضبوط جال میں پرویا ہوا ہے۔ صدیوں کے تجربات نے عدم تحفظ کے مارے عوام الناس کو جہاں ایک طرف بیرونی طالع آزماؤں کی جی حضوری پر مائل کیا وہیں ان کی دیسی ذہانت کا شاہکارایک ایسا نظامِ حیات بھی بتدریج مرتب ہوتا گیا جو ان کے لیے کچھوے کے خول کی طرح مضبوط اور محفوظ تھا۔ شومئیِ قسمت قیامِ پاکستان کے بعد بھی حکمران طبقے اور طاقت کے مراکز نے مصلحت اسی میں جانی کہ" طالع آزماؤں" کی روش کو ترک نہ کیا جائے اس لیے اس نظام کی افادیت برقرار رہی اور یہ ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔

اس نظام کا حصہ بننے اور اس کے فیوض و برکات سے فیضیاب ہونے کا کوئی طریقِ کار متعین نہیں ہے نہ کوئی تحریری یا زبانی معاہدہ اس کا رکن بننے کے لیے ضروری ہے۔ بس ایک گہری مگر غیر محسوس ہم آہنگی اور انڈرسٹینڈنگ درکار ہے۔ پھر دیکھیں کیسے آپ کی زندگی آسان ہوتی ہے، کیسے ہر دروازے کھلتا اور ہر عقدہ کشا ہوتا ہے۔ ہم پاکستانی الفاظ و تراکیب کے حقیقی معانی و مفاہیم کو ایک بالکل نیا اور جدا رنگ دے ڈالنے میں جو یدِ طولیٰ رکھتے ہیں اس کا ایک شاہکار "امدادِباہمی" کی یہ ترکیب بھی ہے۔

فرض کیجئےآپ کو کہیں، کسی جگہ، کسی سرکاری ادارے، دفتر، تھانہ کچہری، کالج، ہسپتال وغیرہ میں کوئی کام پڑ گیا ہےتو بطور ایک خالص پاکستانی آپ کیا کریں گے؟ آپ جناب سب سے پہلے اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب، جان پہچان والوں میں کوئی ایسا فرد تلاش کرنے کی کوشش کریں گے جس کی وہاں رسائی ہو۔ آپ اپنی ساری توانائیاں اس کام میں جھونک کرآخرکار اندر کاکوئی شخص ڈھونڈ نکالیں گے اور پھر سارے قواعد و ضوابط سے آنکھیں چراتے ہوئے، کام کے جائز یا ناجائز ہونے کی پرواہ کیے بغیر پورے اعتماد کے ساتھ معاملہ اس کے سامنے رکھ دیں گے۔

جواباًوہ بھی دشمن ملک میں متعین ایک سپیشل ایجنٹ کی طرح آپ کو مختلف راستوں اور بھول بھلیوں سے گزار کرمطلوبہ مقام تک لے جائے گا۔ کوشش پوری یہ ہو گی کہ بہر صورت آپ کا کام ہو جائے۔ اگر کوئی اڑچن آڑے آ گئی تو سب سر جوڑ کر اس کا بھی کوئی حل کھود نکالیں گے۔ نہ کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔ آپ ممنونِ احسان تو ہوں گے ہی مگر سسٹم سے وفاداری آپ کےرگ وپے میں سرایت کر جائے گی اور ممکن نہیں کہ کل کو سسٹم آپ سے کوئی ایسا ہی تقاضا کرے تو آپ کا ردِعمل اس سے سرِ مُو مختلف ہو۔

بیشتر سرکاری ملازم اسی طرح ایجنٹ بنے" دشمن ملک"میں بیٹھے ہیں اور ملک کو ان " ملک دشمنوں " کی نہ پہچان ہے اور نہ اس بات کا ادراک کہ اس دشمنی کو دوستی میں کیسے بدلا جائے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کتابی باتوں اور گھسے پٹے بھاشنوں سے آپ اس سسٹم کی موٹی جلد پر پسینے کا ایک قطرہ بھی نہیں ابھار سکتے۔ عملی قدم اٹھائیں اور ریاستی پالیسیوں میں جوہری تبدیلیاں لائیں تو شاید کچھ آغاز ممکن ہو مگر سوال پھر وہی ہے کہ پرواہ کس کو ہے؟ ریاست کا کوئی والی وارث بھی تو ہو۔ عام آدمی کو اپنی دال روٹی سے مطلب ہے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں مگر جو خاص ہیں ان میں بھی کوئی خاص بات ہم نے تو نہیں دیکھی۔ انھوں نے بھی دیہاڑیاں لگانے کے سوا کیا کیا ہے۔ ہاں یہ ہے کہ دیہاڑیاں اچھی لگائی ہیں۔ تو پھر کس برتے پر عام آدمی صدیوں سے مروج ایک نظام سے آپ کی چند "نصیحت آموز" باتیں سن کر بغاوت پر آمادہ ہو جائے۔

آپ بھلے اسے جاہل، کم عقل، کم علم بلاتے رہیں مگر شاید وہ آپ سے زیادہ سمجھدار بھی ہے اور باشعور بھی۔ وہ کبھی آپ کے کہنے پر رسک نہیں لے گا۔ ریاست کو غاصب سمجھ کراس کے مفادات سے لاتعلقی اور محض ذاتی مفادات کی پرورش و پرداخت صدیوں سے اس خطے کے لوگوں کی مجبوری رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریاستِ پاکستان کے پالیسی سازوں نے پچھلے ستر سالوں میں اس سوچ کو بدلنے کی کوئی کوشش بھی کی ہے۔ جواب اس کا یقیناً نفی میں ہے تو پھر امدادِ باہمی کے اس آزمودہ نسخے کو اکسیر مان لینے میں ہچکچاہٹ کیسی؟

Check Also

Qasoor To Hamara Hai?

By Javed Ayaz Khan