Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Ali
  4. Deep Space Network

Deep Space Network

ڈیپ اسپیس نیٹورک

زمین سے اس وقت سب سے زیادہ فاصلہ پر خلائی جہاز وائجرز ہیں جو تقریباً 20 ارب کلومیٹر دوری سے زمین کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ جب یہ بات کسی کو بتائی جاتی ہے تو وہ حیران ہوتا ہے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔

دونوں جہازوں کو چند دن کے فرق سے 1977 میں لانچ کیا گیا تھا اور نظام شمسی کے سیاروں کی کھوج پر نکلے یہ جہاز مختلف سیاروں کے پاس سے گزرتے ہوئے اور اچھی اچھی تصاویر لیتے ہوئے اپنے مشن کو کامیابی سے پورا کرتے رہے۔ وائجر ون 2012 میں نظام شمسی سے نکلا (مطلب سورج کی شمسی ہواؤں کے شدید حلقہ اثر سے) اور وائجر ٹو 2018 میں یہ حد عبور کرتا ہے جس کو ہم Heliopause کہتے ہیں جو Heliosphere کا بارڈر ہے۔

اب اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ ہم زمین سے کیسے ان جہازوں سے رابطہ میں رہتے ہیں۔ تو یہ وہی ٹیکنالوجی ہے جو ہم زمین کے گرد سیٹلائیٹس سے رابطہ کے لیے استعمال کرتے ہیں یعنی ریڈیو ویو کمیونیکیشن سسٹم۔ ناسا Deep Space میں کسی بھی خلائی جہاز سے رابطے کے لیے زمین پر موجود اینٹینوں کا ایسا نظام استعمال کرتا ہے جو زمین سے باہر کسی بھی سمت میں رابطے کے لیے ہر وقت میسر رہتا ہے۔ اس نیٹورک کا نام ہے Deep Space Network (DSN)۔

اس DSN میں زمین پر تین جگہ بڑے بڑے ریڈیو ڈش اینٹینا نصب ہیں جن میں ایک کیلیفورنیا، دوسرا میڈرڈ (اسپین) اور تیسرا اسٹیشن کینبرا (آسٹریلیا) میں ہے۔ ان تینوں اسٹیشنوں پر 70 میٹر، 34 میٹر، اور 26 میٹر قطر کے ریڈیو اینٹینا نصب ہیں۔ یہ تینوں اسٹیشن ایک دوسرے سے 120 ڈگری پر ہیں تو زمین سے باہر کسی بھی مشن کی طرف کوئی ایک اینٹینا رخ کیے ہوتا ہے (وائجر 2 سے صرف آسٹریلیا والے اسٹیشن سے رابطہ ممکن ہے)۔ اب ان اسٹیشنوں سے بھیجے جانے والے سگنل خلاء میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے اس جہاز پر لگے اینٹینا ریسیور پر پہنچتے ہیں۔ وائجر جہازوں کے پاس 14 فٹ کا ڈش اینٹینا (High gain antenna) لگا ہوا ہے وہ ان معلومات کو موصول کرتا ہے اور اس جہاز پر لگے متعلقہ کمپیوٹر یونٹ یا کنٹرول یونٹ کو بھیج دیتا ہے مثلاً اس جہاز کی میموری میں ریکارڈ شدہ سارا ڈیٹا زمین پر بھیجنے کی کمانڈ وہ جہاز موصول کرتا ہے اور پھر تمام ڈیٹا آہستہ آہستہ زمین کی طرف چھوٹے چھوٹے پیکٹس کی صورت میں بھجتا ہے۔

اس وقت وہ جہاز جتنے دور ہیں وہاں سے یکطرفہ سگنل کو 19 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اس جہاز پر مواصلاتی نظام کی پاور کی بات کریں تو وہ جہاز x and s band سپیکٹرم استعمال کرکے ڈیٹا بھجتا اور موصول کرتا ہے۔

اہک سوال جو ذہن میں آتا ہے کہ یہ سگنل اتنی دور جاتے جاتے کمزور ہوجاتے ہوں گے یا کسی چیز ٹکرا کر ختم بھی تو ہوسکتے ہیں؟

سوال تو اچھا ہے۔

زمین سے بھیجا گیا سگنل کافی طاقتور ہوتا ہے، یہ سگنل عموماً 34 میٹر قطر کے اینٹینا سے بھیجا جاتا ہے جس کی پاور 20 کلوواٹ تک ہوتی ہے اور وائجر جہاز پر لگا اینٹینا یہ سگنل موصول کرتا ہے۔ اتنا ہائی پاور کا سگنل اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وائجر پر لگا اینٹینا کم پاور کا سگنل موصول نہیں کر سکتا۔ عموماً uplink فریکوئنسی 2Ghz کے قریب ہوتی ہے جبکہ وائجر جہاز سے واپسی کا سگنل صرف 20 واٹ کے قریب ہوتا ہے یعنی بھیجے گئے سگنل سے ہزار گنا کم۔ downlink فریکوئنسی X band میں 8.4Ghz استعمال کی جاتی ہے۔ ایکس بینڈ میں وائجر سے زمین کی طرف سگنل زیادہ ڈیٹا ریٹ پر بھیجا جا سکتا ہے لیکن جب یہ سگنل زمین پر پہنچتا ہے تو 100 فٹ قطر کے اینٹینا اس سگنل کو موصول کرتے ہیں جس کی پاور کم ہوکر

9 x 10^-23 kW

تک رہ جاتی ہے۔ انتہائی کم پاور کے اس سگنل کو Amplify کیا جاتا ہے اور اس کا ڈیٹا حاصل کیا جاتا ہے۔ زمین سے بھیجا گیا سگنل یقیناً آہستہ آہستہ کمزور ہوتا جاتا ہے اور اس میں کچھ errors بھی آتی ہیں۔ ان errors (bit flips) کو درست کرنے کے لیے اس ڈیٹا کے ساتھ error correction codes ہوتے ہیں ان کو دیکھ کر اس ڈیٹا کو درست کیا جاتا ہے۔ اگر ہم ڈیٹا ریٹ کی بات کریں تو زمین سے وائجر کی طرف جو کمانڈز جاتی ہیں وہ 16bps یعنی 2 bytes/sec کیوں کہ اس میں صرف کمانڈز ہوتی ہیں جو بہت کم سائز کا ڈیٹا ہوتا ہے اس لیے اس کا ڈیٹا ریٹ بھی کم ہے۔ وائجر جہاز سے بھیجا گیا ڈیٹا X band کے ذریعے High Gain Antenna استعمال کرکے تقریباً 160bps ڈیٹا ریٹ پر نارمل ڈیٹا جبکہ اہم ڈیٹا کے لیے 1.7kbps کا آپشن بھی ہوتا ہے۔

یہ یاد رہے کہ جب بھی ایسے کمیونیکیشن کی جاتی ہے اس کے لیے ہمیشہ سگنل کو کیریئر فریکوئنسی سے الگ کرکے اس کو ایمپلیفائی کیا جاتا ہے اس میں errors دور کی جاتی ہیں پھر اس کے بعد اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔

اسی طرح مریخ پر موجود روور اور آربٹر سے رابطہ بھی اسی ڈیپ اسپیس نیٹورک کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔ مریخ کا زمین سے فاصلہ اوسطاً 22 کروڑ کلومیٹر رہتا ہے (کم سے کم 5 کروڑ اور زیادہ سے زیادہ 25 کروڑ تک)۔ اس پر موجود مریخ گاڑیاں اور مدار میں گھومتے آربٹر کے لیے زمین پر ڈیٹا بھیجنا اور موصول کرنا وائجر جہازوں سے زیادہ آسان ہے جو اس وقت 20 ارب کلومیٹر ہیں اور پرانی ٹیکنالوجی بھی استعمال کررہے ہیں۔

اس وقت ڈیپ اسپیس نیٹورک کے 70 میٹر والے اینٹینا اپنی زندگی کے اختتام پر ہیں اور ان کی جگہ 34 میٹر والے نئے اینٹینا بنانے کا پلان کیا جا رہا ہے تاکہ خلاء میں بھیجے جانے والے مشنوں سے آسانی سے رابطہ میں رہا جاسکے۔

About Saqib Ali

Saqib Ali is a writer and Research enthusiast in Astronomy, Cyber security, and Information Technology.
FaceBook: facebook.com/AstroSaqi
YouTube: Youtube.com/@astrosaqi

Check Also

Kahani Aik Dadi Ki

By Khateeb Ahmad