Muashray Mein Aurat Ka Kirdar
معاشرے میں عورت کا کردار
مختلف ادوار میں معاشرے میں عورت کا کردار مختلف رہا ہے۔ جس طرح معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت اہم کردار ادا کرتی ہے اسی طرح معاشرے کے بگاڑ میں بھی عورت پیش پیش رہی ہے۔ قبل اسلام عورت ذات کے حالات قابلِ رحم تھے۔ کسی بھی قوم کے عروج و زوال میں عورت کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ جس طرح ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح قوم کی تعمیر و ترقی میں بھی عورت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے عورت نے جب جب قوانینِ فطرت کو توڑ کر من مرضی کرنا چاہی، جب جب قدرت کی وضع کردہ حدود کو پار کرنے کی کوشش کی تب تب ناکامی اور پستی نا صرف اس کا بلکہ اس کی قوم کا بھی مقدر بنی۔ یہاں بات اگر زمانہ قدیم کی عورت کی کی جائے تو اس کی سرگرمیاں گرمیوں میں رونگٹے کھڑے کر دینے والی تھیں۔
اقوامِ قدیمہ میں جن قوموں کی تہذیب سب سے شاندار تھی ان کے عروج کا منبع عورت ہی تھی۔ اورجب اُن اقوام کی خواتین نے آزادی کی آڑ میں اپنے کپڑے اُتارے اور قحبہ گری کا پیشہ اختیار کیا اُسی وقت اُن کے ایامِ عروج کی اُلٹی گنتی شروع ہوگئی۔ اور پھر ایسا تذلیل آمیز زوال نصیب ہوا کہ پھر اُس قوم کی آنکھیں عروج اور بلندی سے نہ مل پائیں۔
اُن اقوام میں یونان، روم اور مسیحی یورپ سرِ فہرست ہیں۔ زمانہ جدید کی عورت بھی اسی ڈگر پر نکل پڑی ہے۔ ہمارے نام نہاد ماڈرن معاشرے نے عورت کی بے باکی کو حقوقِ نسواں کا نام دے دیا ہے۔ اور اِس میں اِن حقوق کو پانے کی تڑپ اس قدر بڑھ گئی یا یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ اِن حقوق کو پانے کی تڑپ کو اس قدر بڑھا دیا گیا کہ اس نے شرم و حیا کو با لائے طاق رکھ دیا۔
کھلے ہاتھ اور منہ کے علاوہ خوب صورت مانگ نکلی زلفیں شانوں کو مَس کرتیں اور نیم عریاں سینوں کی نمائش کو یہ ناداں آزادی سمجھ بیٹھی۔ عورت تو اللہ کی ایک ایسی خوب صورت تخلیق ہے جس کی بناوٹ کرتے وقت فرشتوں سے بھی پردہ رکھا گیا۔ قدرت نے مرد و زن کو نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی طور پر بھی مختلف بنایا ہے۔ وہ لوگ جو مرد اور عورت میں برابری کا نعرہ لگاتے ہیں وہ عورت پر سراسر ظلم کرتے ہیں۔ عورت کے اندر سختی اور شدت کی بجائے نرمی اور نزاکت ہے۔ وہ ہر قسم کے حالات میں اپنے آپ کو کسی بھی سانچے میں ڈھالنے کی سکت رکھتی ہے۔ اس میں اثر اندازی سے زیادہ اثر پذیری ہے۔ یہ آبِ رواں کی مانند ہے جمنے اور ٹھہرنے کی بجائے جھکنے اور ڈھل جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
عورت تو وہ مائع ہے جس کو جس سانچے میں ڈھالا جائے اُسی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہ اِک ایسا خوب صورت احساس ہے کہ ہر رشتے میں انمول ہے۔ بیٹی ہے تو رحمت، بہن ہے تو بھائی کی محبت سے لبریز دل رکھنے والی، بیوی کے روپ میں شوہر کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اگر ماں ہے تو ایسی ڈھارس جو کتنی بھی صنفِ نازک کیوں نا رہی ہو مگر جب بات اپنے بچوں پر آئے تو حالات کی تندو تیز ہواؤں سے بھی لڑ جانے والی ہے۔
مانا کہ عورت کمزور نہیں۔ جو بچے کی پیدائش پر بیس ہڈیوں کے ٹوٹنے کا درد سہتی ہے وہ کمزور تو نہیں ہے۔ مگر کچھ معاملات ایسے ہیں جن کی بِنا پراللہ نے قوام مرد کو ہی رکھا ہے۔ عورت ذہنی طور پر مرد سے زیادہ حساس ہے۔ عورت کی ابتدائی جنینی تشکیل سے لے کر سنِ بلوغ تک اس کے جسم کی پوری نشوونما مخصوص استعداد کی تکمیل کے لیے ہوتی ہے۔ اسی طرح ایامِ خاص میں عورت کی ذہنی کیفیات میں خاصی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ جس کے باعث عورت ذہنی و جسمانی تناؤ کے شکار ہونےکے ساتھ ساتھ جزباتی ہو جاتی ہے بات بے بات غصہ کرنے لگتی ہے۔
ایسے حالات میں عورت کا قوام کے عہدے پر فائز رہنا اس کے لیے ٹھیک ہے نہ ہی اُس کی رعایا کے لیے۔ اُن دِنوں اگر وہ ڈیٹا انٹری افیسر ہے تو ٹائیپنگ میں غلطیاں کرے گی، اگر جج ہے تو کسی کے مقدمے میں نا انصافی کرنے کی مرتکب ہو سکتی ہے، اگر وہ استانی ہے تو بات بے بات طلبہ کو ڈانٹ ڈپٹ یا مار پیٹ کرے گی، اگر وہ نرس ہے تو اسے مریض کو انجیکشن دیتے ہوئے نبض ڈھونڈنے میں دِقت ہوگی۔ ایسے حالات میں اُسے آرام، خوراک اور extra care کی ضرورت ہوتی ہے نا کہ وہ مردوں کی برابری کرتے ہوئے خود کو کسی بھی قسم کی جسمانی مشقت میں ڈالے۔
علم الحیات کی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ عورت اپنی شکل وصورت اور ظاہری اعضاء سے لے کر جسم کے ذرات اور خلیات تک ہر چیز میں مرد سے مختلف ہے۔ مگر تمدن کی صلاح و فلاح کے لیے دونوں کی تہذیبِ نفس، دماغی اور عقلی و فکری نشوونما یکساں ضروری ہے۔ تا کہ تمدن کی خدمت میں دونوں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
اس اعتبار سے مساوات کا دعوی بالکل صحیح ہے اور ہر مہذب معاشرے کا فرض یہی ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی اپنی فطری استعداد اور صلاحیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ ترقی کے مواقع دے، معاشرت میں عزت کا مقام بخشے تا کہ ان میں عزتِ نفس کا احساس پیدا ہو اور ان کے اندر وہ بہترین بشری صفات پیدا ہو سکیں جو صرف عزتِ نفس ہی کے احساس سے پیدا ہو سکتی ہیں۔ اور جن اقوام نے اپنی عورتوں کو جاہل، نا تربیت یافتہ، ذلیل اور حقوقِ مدنیت سے محروم رکھا ہے وہ خود پستی کے گڑھے میں جا گریں ہیں۔
عورت انسانیت کا نصف حصہ ہے اور نصف حصے کو گِرا دینے کا مطلب پوری انسانییت کو گرا دینا ہے۔ ذلیل مائیں عزت والے، جاہل مائیں علم والے، پست خیال مائیں اعلی خیالات کے مالک نہیں پیدا کر سکتیں۔ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں مرد اور عورت کی ترتیب و تنظیم کو برقرار رکھنے کے لیے عورت کا تعلیم یافتہ ہونا لازم ہے۔ جو ایک فرد نہیں ایک قوم بنانے کی سکت رکھتی ہے۔
لمحہ فکریہ کہ سماج نے عورت کو حقوق کا جھانسا دے کر اسے اُس کے اصل مقام سے ہٹا دیا ہے۔ اپنی اصل کو پہچاننے کے لیے اِسے اب اسلام کا سہارا لینا ہوگا۔