Friday, 20 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Qaumi Youm e Azadi

Qaumi Youm e Azadi

قومی یوم آزادی

یکم فروری امریکی آئین میں یادگار 13 ویں ترمیم کے ساتھ قومی یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ امریکی آئین کے آغاز سے اب تک 27 ترامیم ہوچکی ہیں۔ 13 ویں ترمیم میں ان الفاظ کے ساتھ امریکہ میں غلامی کو کالعدم قرار دیا گیا تھا "نہ تو غلامی اور نہ ہی غیر ارادی غلامی، سوائے اس جرم کی سزا کے جس میں پارٹی کو قانونی طور پر سزا سنائی گئی ہو، وہ ریاستہائے متحدہ میں موجود ہوگی اور نہ ہی ان کے دائرہ اختیار سے مشروط کوئی جگہ۔"اس تاریخی تبدیلی کا سہرا 16 ویں امریکی صدر دراز قد ابراہم لنکن کو جاتا ہے۔ جب اس نے اقتدار سنبھالا تو غلامی اور خانہ جنگی کے بحران نے امریکہ کو مشتعل کردیا۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ مکمل طور پر ٹوٹنے کے قریب تھا۔ یہ ایک سخت اور اذیت ناک دور تھا لیکن ابراہم لنکن نے اس نے مشترکہ ایوان اور سینیٹ کی قرارداد پر دستخط کر دیے۔ لنکن نے اپنی آنکھوں سے غلاموں کی قیمتوں کی فہرستیں اور بازار دیکھے جہاں انہیں کھانے پینے کی چیزوں کی طرح خریدا اور فروخت کیا جاتا تھا۔ انسانی غلاموں کو کارگو کی طرح جہازوں سےچڑھایا اور اتاراجاتا تھا۔ ان غلاموں کی خرید و فروخت کے پوسٹر زچھاپے اور دیواروں پر لگائے جاتے تھے۔ ان پوسٹرزمیں صنف یعنی مرد عورتوں اور بچوں کے لحاظ سے غلاموں کی اقسام کے بارے میں بھی بتایا جاتا تھا۔ یہ شرمناک سلوک اور انسانی غلاموں کی منڈیاں مشہور امریکی شہر نیو اورلینز میں ہوا کرتی تھی جہاں سیا ہ فاموں کو بطور غلام۔

جب لنکن اپنی ذاتی اور سیاسی جدوجہد والی زندگی کا دورانیہ کاٹ رہا تھا تو یہ بحث گلی گلی جاری تھی کہ غلامی کو ختم کیا جانا چاہئے یا نہیں۔ غلامی کی حمایت اور مخالفت میں دو گروپ شانہ بشانہ موجود تھے۔ پہلا جنوبی امریکہ کی ریاستوں کے کسان تھے جو اپنی زرعی اراضی کے لئے سیا ہ فاموں کی شکل میں سستے مزدور استعمال کرتے تھے لہذا انہوں نے امریکہ میں غلامی کے تسلسل کی حمایت کی۔ دوسری شمالی ریاستیں تھیں جہاں صنعتی انقلاب پہلے ہی غالب آچکا تھااور زرعی اراضی میں فیکٹریاں لگ چکی تھیں۔ ملوں کے ملازمین ایک متوسط طبقے کی حیثیت اختیار کر گئے جن کے اپنے حقوق تھے لہذا وہ غلامی کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ غلامی کے خاتمے میں ان کا اپنا مفاد تھا۔ انہیں خدشہ تھا کہ اگر مل مالکان نے ان کی جگہ سستی مزدوری کے طور پر سیاہ فام مریکیوں اور افریکیوں کو بھرتی کر لیا تو وہ اپنی ملازمت سے محروم ہوجائیں گے۔ یہ بحث شدت اختیار کر گئی اور 1850 میں امریکی میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اس لمبی خانہ جنگی نے بہت سارے امریکی شہریوں اور فوجیوں کو نگل لیا۔ لنکن، جسے "لانگ ایپ "کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے اپنے بہت سے مباحثوں میں امریکیوں کے سامنے غلامی کے خاتمے پر اس بات پر زور دیتے ہوئے بحث کی کہ سیاہ فام ایسے ہی انسان ہیں جیسے وہ ہیں۔

امریکہ میں غلاموں کی آزادی نے غلاموں اور ان کے آقاؤں دونوں پر کچھ نقوش چھوڑے۔ غلامی کے خاتمے کی خبر کو پورے ملک تک پہنچنے میں 2 سال کا عرصہ لگا۔ کچھ سابق غلام، خاص طور پر بڑی عمر کے زرعی زمینوں پر کام کرتے رہے۔ آزادی نے ان بوڑھے غلاموں پر بہت کم اثر ہوا۔ تاہم انہوں نے اپنے سابق آقاؤں کے ساتھ تنخواہ پرکام کرنے کے لئے کچھ معاہدے کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایسا اس لئے تھا کہ اگر وہ مزدوری چھوڑ دیتے تو کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتیں اور ان کےمتبادل مزارع ملنے کا کوئی حل نہ تھا۔ کچھ زرعی مالکان کو ان نو آزاد غلاموں کو اپنے ساتھ رکھنے پر راضی کرنے کے لئے لمبی چوڑی تقاریر کرنا پڑیں۔ کچھ غلاموں نے فوری طور پر اپنے آقاؤں کو چھوڑ دیا اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں شامل ہوگئے تاکہ وہ ایک اچھی زندی بسر کرسکیں جبکہ کچھ کو اپنے مالکان کو چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی اور انہیں اسی معمول پر کام کرنے پر تشدد کیا گیا تھا جس پر وہ پہلے چل رہے تھے۔ ایک مالک نے غلامی کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے خاموشیوں کو توڑ دیا اور اپنے غلاموں کو ایک دعوت دیتے ہوئے آزاد کردیا لیکن خود وہ غمگین تھا اور امریکی صدر کو بر ابھلا کہہ رہا تھا۔ غلاموں کے چند سربراہوں نے انہیں آزادی کے بارے میں آگاہ ہی نہیں کیاحتی ٰکہ ان کو خودایک عرصہ بعد آزادی کے بارے میں معلوم ہوا۔

پوری دنیا میں کام کرنے کی شرائط و ضوابط میں تبدیلی کے ساتھ آقا اور غلام جیسے القابات مالک اور ملازم کے ساتھ تبدیل ہو چکے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کرایہ پر ملنے والے مزدور ایک طرح سے رضاکار ملازمین ہیں لیکن غلامی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہے۔ دنیا کے تقریبا تمام حصوں میں مزدوروں کو کام کرنے کی جگہوں پر زندہ رہنے کے لئے بہت سارے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج بھی شہری حقوق کی تحریکیں محروم افراد کو حقوق کی فراہمی کے لئے چل رہی ہیں لیکن غلامی کی جڑیں اب بھی موجود ہیں۔"بلیک لائیوز میٹر " جیسے نعرے ہمیں امریکہ میں عدم مساوات کی یاد دلاتے ہیں جہاں اب بھی سیاہ فام امریکیوں سے امیتازی سلوک روا رکھا جاتا ہے حالانکہ امریکہ خود کو ایک عظیم ملک تصور کرتا ہے۔۔ پکارتی ہوئی آوازیں "ہم کیا چاہتے؟ آزادی "،"کشمیر میں تخفیف اور خود حکمرانی امن کی کلید"، "کشمیر کو بچانا انسانیت کو بچانا ہے "، "اور کشمیر پر ہندوستانی قبضہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے "، "کشمیری سیاسی اور انسانی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں " اور "ہندوستانی قبضے میں آنے والا کشمیر بین الااقوامی برادری کے لئے چیلنج ہے" یہ سب پوری دنیا کو چیخ چیخ کر ناجائز غلامی کی یاد دلاتے ہیں۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Adliya Ke Par Katne Ki Koshish

By Zulfiqar Ahmed Cheema