Taqleed Kyun Zaroori Hai (2)
تقلید کیوں ضروری ہے (2)
☆ محبوب پاک علیہ الصلوات والسلام کے دور کے بعد اجتہاد بہت بڑھ گیا تھا۔ جب کسی کو مسئلہ درپیش آتا تھا تو وہ کسی عالم تابعی، مفتی محبوب پاک علیہ الصلوات والسلام کے دور کے بعد اجتہاد بہت بڑھ گیا تھا۔ جب کسی کو مسئلہ درپیش آتا تھا تو وہ کسی عالم تابعی، مفتی کے پاس پہنچ جاتا اور اپنے مسئلے کا حل حاصل کرتا۔ لیکن وہ تو خیر القرون تھا، اچھا معاشرہ تھا تابعین اور تبع تابعین جیسے جید اصحاب موجود تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اجتہاد کی بنیاد پہ مختلف رائے آنے لگے۔ اس وقت آحادیث کو زبانی یاد کیا اور بولا جاتا تھا اور آگے پہنچایا جاتا تھا کوئی حدیث پاک باقاعدہ ترتیب یافتہ مرتب شدہ مسودہ کی صورت نہیں تھی۔ تو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے امام الزہری کو خط بھیجا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ علم ضائع نہ ہو جائے تو آپ کو جتنے بھی آحادیث یاد ہیں اسکو لکھنے کی صورت میں محفوظ بنالیں۔ تو تب احادیث مبارکہ کو حفاظت کے پیش نظر جمع کرکے لکھنا شروع کیا گیا۔ کیونکہ اگر اسی طرح منہ زبانی چلتے رہنے دیا جاتا تو پھر تو کوئی کچھ بھی اپنی طرف سے بول سکتا تھا۔ اب اگر کوئی بھی حدیث پاک سنائے کسی بھی بارے میں تو کیا ہم اک دم یہ نہیں کہتے کی صحاح ستہ میں سے دکھاو۔ تو کیا احادیث میں کوئی ایسی حدیث پاک موجود ہے جس میں محبوب پاک علیہ الصلوات والسلام نے فرمایا ہو کہ جب کوئی میری حدیث پاک سنائے تو صحاح ستہ میں گر موجود ہو تو مان لینا ورنہ نہیں۔ کیا اس کو حدیث سے ایسے ثابت کیا جا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں ہو سکتا۔ اس کام کے لیے علما و فقہائے امت اکٹھا ہوئے کچھ شخصیات نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا اور روایوں کی مکمل چھان بین کرکے یہ صحاح ستہ کی صورت میں ترتیب یافتہ، تحقیق شدہ مسودے مرتب فرمائے۔ بس اب یہ کام و تحقیق ادھر ختم ہوگئی اب دوبارہ کوئی اسکو کرنا چاہے تو نہیں ہو سکتا۔ وہ روایوں کی تحقیق خود جاکے اول تو کر نہیں سکتا اور پھر گر کچھ بولے بھی تب بھی نہیں ماننا اب بس جو کام ہو چکا اسکی پیروی کرنی ہے۔ اپنی طرف سے تحقیق و عقلی گھوڑے نہیں دوڑانے چاہیئے۔
اب اک اور طرح سے اسی معاملہ اجتہاد کو ملاحظہ فرمائیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فقہ کے عظیم استاد اور علم اعتبار سے جید صحابی رسول ﷺ تھے۔ آپ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھیجا تھا کوفہ میں مفتی بنا کر۔ ایک بارمسئلہ پیش آیا حق مہر کا، کہ اک شخص نے حق مہر متعین کیے بغیر اک عورت سے شادی کی اور مر گیا تو قرآن میں حق مہر کے حوالے سے ذکر موجود ہے۔ کہ ایسی صورت میں بیوی کو مہر مثل دیا جائے گا یعنی اس عورت کی دوسری بہنوں کو جتنا ملا ہوگا اتنا ہی مہر ادا کیا جائے گا۔ اسی طرح کا اک اور مسئلہ ہے کہ اگر اک شخص نے حق مہر متعین کیے بغیر شادی کی اور رحصتی سے پہلے بیوی کو طلاق دے دی تو اس حوالے سے پھر قرآن نے اک لفظ استعمال کیا ہے "وَ مَتِّعُوْھُنَّ" تھوڑا سا سامان دے دو۔ غریب اپنی بساط کے مطابق اور امیر اپنی بساط کے مطابق اسکو دے دے۔ لیکن یہ مسئلہ دوسری نوعیت کا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اک شخص نے شادی کر لی (نکاح) مگر حق مہر مقرر کیے بغیر لیکن وہ شخص رخصتی سے پہلےمرگیا، تو اب اس صورت میں حق مہر اس عورت کو کتنا ملے گا؟ اب اس کے بارے میں نہ قرآن میں ذکر موجود ہے اور نہ احادیث میں، تو اب کیا کیا جائے گا؟ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا اب میں اپنے اجتہاد سے مسئلے کا حل پیش کرونگا۔ اب اس شخص نے یہ تو نہیں کہا کہ نہیں قرآن یا احادیث سے ثابت کرو کہ جب کوئی مسئلہ قرآن و آحادیث میں نہ ملے تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا کرو۔ تو ہے کوئی؟ نہیں نا۔ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اک مہینہ تک اجتہاد کیا اور پھر فرمایا کہ اگر میں فیصلے میں ٹھیک رہا تو یہ مرے اللہ کی طرف سے ہوگا اور اگر غلط کوا تو یہ پھر مرے اور شیطان کی طرف سے ہوگا۔ اقر پھر فرمایا ایسی صورت میں عورت کو اتنا ہی حق مہر ملے جتنا اسکی بہنوں کو ملا ہوگا یعنی مہر مثل، اسمیں اک ذرا بررابر کمی کی جائے گی اور نہ زیادتی۔
بعد میں اس مسئلے پہ منطق پیش کی کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایسا کیوں فرمایا۔ شادی اک معاہدہ میاں بیوی کے مابین کہ جب تک دونوں زندہ ہے تب تک اک ساتھ زندگی گزاریں گے۔ اب جب کوئی اک ان میں مر جاتا ہے تو معاہدہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ لیکن جب آپ انتہا تک پہنچنے سے پہلے اسکو طلا ق دے دیتے ہیں تو وہ معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے۔ تو اب اس صورتحال میں اس معاہدے میں یہ دونوں لمبی زندگی بھی گزار سکتے تھے لیکن انکی قسمت کہ اک پارٹنر رخصتی سے پہلے مرگیا اور معاہدہ نکاح اپنے اختتام کو پہنچ گیا تو اسکو بھی کامیاب ازدواجی زندگی کہیں گے۔ اور جب بھی کوئی چیز اپنے اختتام کو پہنچتی ہے اس پہ اسکے سارے لوازمات پورے برابر عائدہو تے ہیں۔ تواب ایسی عورت پہ عدت بھی واجب ہوگی اور حق مہر بھی پورا ملے گا اور شوہر کے وراثت میں حصہ بھی ملے گا۔
کیا اس طرح کا اجتہاد، فقہی مسائل کا حل کوئی نکال سکتا ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ احادیث میں بھی بہت لمبی بحث و دلائل موجود ہوتے ہیں۔ تو اس زمانے میں اس اجتہاد کی پھیلاو کی وجہ سے امت میں پھر آہستہ آہستہ فساد پھیلنا شروع ہوگیا کیوں کہ ہر کوئی آزاد تھا اپنی اجتہاد سے فیصلہ کرنے میں تو پھر حضرت امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ جو کہ خود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مشہور شاگرد حضرت القمہ انکے شاگر د تھے حضرت ابراھیم نخعی رحمتہ اللہ علیہ، انکے شاگرد تھے حماد الکوفی انکے شاگرد تھے اور امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ۔ اور امام صاحب نے پھر پوری فقہ کو باقاعدہ تحریری صورت میں لانے کے لیے باقاعدہ انتظام فرمایا اور اکیلے خود نہیں بلکہ وقت کے 40 جید علمآء کو اکٹھا کرکے شوری بنائی اور پھر یہ طے کیا کہ اک اک مسئلے پہ بحث ہوگی اور پوری اتفاق رائے سے جس پہ اتفاق ہوگا تو اتفاق رائے کے ساتھ اور جس سے اختلاف رائے پیدا ہوا تو جس جس کا اختلاف ہوگا اسے بھی ان کے نام کے ساتھ لکھی جائے گی۔ اور یوں یہ فقہ خنفیہ کی بنیاد بنی۔ یاد رہے امام صاحب نے آج تک اپنی کوئی کتاب خود نہیں لکھی بلکہ شاگردوں نے لکھی ہیں اور اسمیں جن مسائل پہ انکے شاگردوں نے استاد صاحب سے اختلاف کیا ہے اسمیں وہ بھی لکھی ہوئی ہے۔ امام صاحب کی 6 کتابیں (سیر صغیر، سیر کبیر، جامع صغیر، جامع کبیر، دو اور کتابیں جن کے نام یاد نہیں) انکے شاگرد امام محمد نے لکھی ہیں جو حنفی فقہ کی بنیاد و ریڑھ کی ہڈی بن گئی۔ اور قرآن واحادیث پہ تحقیق و فقہی مسائل کے استنباط کے حوالے سے 80 ہجری کے دہائی میں یعنی آج سے 13 سو سال پہلے اسکے تحقیق کاکام مکمل ہوا ہے اور تحقیق بھی تابعین اور تبع تابعین نے کیں جو کہ اس وقت بڑی جماعت کی صورت میں حیات تھے، جن کو نمازیں پڑھتے ہوئے دیکھا گیا جن کو فتوی دیتےہوئے دیکھا گیا۔ تو ایسے اصحاب علم و رشد کی پیروی کرنے والوں کی پیروی کرنا بہتر ہے یا آج کے مجدد دین کی پیروی کرنا بہتر ہے۔ امام صاحب کے شاگرد امام محمد سے پھر امام شافعی نے بہت زیادہ علم حاصل کیا ہے۔ اور امام شافعی خود فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمد سے اتنا علم حاصل کیا ہے کہ اسکی کتابیں اونٹ پر لادی جا سکتی ہیں۔ اور امام شافعی نے کچھ مسائل میں امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیا کیونکہ وہ مقلد نہیں تھے خود مجتہد تھے۔ اور اسطرح امام شافعی نے بھی اپنی فقہ ترتیب دی۔
پھر امام شافعی علیہ الرحمہ کے شاگرد تھے امام احمد بن حنبل جنہوں نے امام شافعی علیہ الرحمہ سے اختلاف کیا اور بہت سے مسائل میں امام ابوحنیفہ سے متفق ہوئے۔ اور یوں امام احمد علیہ الرحمہ کے شاگردوں نے بھی انکی فقہ کو مدون کیا اور یوں امام مالک رحمہ اللہ کا فقہ بھی مدون ہوا تھا۔ ان چاروں کے علاوہ صاحب علم و بصیرت اور مجتد ین علم حضرات اور بھی موجود تھے مگر ان کے شاگرد زیادہ دیر تک چل نہیں پائے دلائل کی قوت کی وجہ سے۔ اب ہوتے ہوتے فقہ حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنبلیہ پہ سینکڑوں کتابیں لکھ چکی ہیں اور یہ کتابیں اتنی ترتیب و تفصیل سے لکھی گئی ہیں کہ ہر اک چیز کا الگ الگ باب لکھا گیا ہے صحابہ اور، تابعین کے ادوار میں ایسے نہیں تھا۔ اور پھر اک وقت آیا کہ امت کے جید علمآء نے متفقہ یہ فیصلہ دیا کہ اب یہ چار فقے کافی تفصیل و دلائل کے ساتھ آئے تو اب کسی کو اجتہاد کی ضرورت نہیں بس اب انہی چاروں میں سے کسی اک کی پیروی کریں۔ اب مزید کسی کو اجتہاد کی ضرورت نہیں کیونکہ اب احادیث کی تحقیق و سند کو پایہ استناد تک پہنچانا ممکن نہیں اسمیں 1200 سال سے زیادہ کا سفر گزر گیا۔ تو اب اگر کوئی کہے کہ قرآن و احادیث سے ثابت کرو کہ ان چاروں فقہ میں سے کسی اک کی پیروی کیا کریں تو پھر کوئی یہ بھی دکھا سکتا ہے قرآن و احادیث سے کہ قرآن کی مصحف عثمانی کو اپناو باقی کو نہیں؟ ہرگز نہیں ہوسکتا، تو جیسے وہ عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے امت کو فساد و انتشار سے بچانے کے حق میں کیا تھا تو ایسے اب یہ بھی ضروری ہے امت میں فساد و انتشار سے بچانے اور نظام خو چلانے کے لیے ضروری ہے کہ اب جو فقہے مدون ہوچکے ہیں جس کے اب سارے جزیات موجود ہیں تو اس کے بنیاد پہ فتوی دیں۔ اب ایسے نہیں ہوسکتا کہ ہر کوئی قرآن و احادیث کو اٹھا کے تختی بنائے اور فتوئ دینے شروع کردیں۔ پھر سے اک اودھم مچ جائے گا۔ لیکن یاد رکھیں کسی بھی فقہ پہ یا مسلک پہ رہنے میں جمود نہیں ہے بلکہ علمآء نے اسکے بھی اصول طے رکھے ہیں کن اصول و حالات کے تناظر میں اپ پھر دوسرے فقہ کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
مگر اک فقہ کا ماننا انتشار کا باعث یوں بنتا ہے یہ پھر تقلد نہیں خواہش نفس کی پیروی شروع ہو جاتی ہے۔ کہ جہاں جو مسئلہ جو حکم نفس پہ بھاری اترتا ہو گراں گزرتا ہو تو وہاں پھر نفس کی پیروی میں دوسری فقہ کی طرف مڑ گئے وہاں مسئلہ ناگوار گزرا تو تیسرے پہ تو یہ پھر انتشار و اودھم مچائی شروع ہو جاتی ہے۔
اللہ کرے یہ باتیں ہماری سمجھ میں آجائے۔