Taqleed Kyun Zaroori Hai (1)
تقلید کیوں ضروری ہے (1)
مسلم برادی کا یہ معمہ رہا ہے کہ جب یہ علم کے اسناد سے معراج پہ تھی تب خرافات و ذہنی فتور کا دور دور تک شاید ہی کوئی نشان موجود ہو۔ لیکن جیسے جیسے مسلم امہ اپنے زوال کی طرف لڑکنا شروع ہوئی تو ویسے ویسے ذہنی فتور کا بھی اجتماع شروع ہوا۔ اسکی سادہ وجہ یہ تھی کہ اوائل میں مسلم امہ کا مقصدحیات اللہ اور اسکے رسول کی اتباع تھی۔ تبھی وہ نہ صرف دین کو عملی طور پر اپناتے تھے بلکہ انہوں نے بدلتے وقت کے ساتھ، بدلتی ہوئی دنیا کی نئی جہت کے ساتھ دین کے تجدید کے فرائض بھی بخوبی نبھائے۔ جس کو ہم آج آسان الفاظ میں "جدید دور کے (تقاضوں کے موافق) جدید طرز کے فقہی مسائل" کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ لیکن آج ہمارے ہا ں ذہنی فتور کے بہتات کی وجہ ہی فقط یہی ٹھہری کہ ہمارا مقصد حیات دین اسلام، اللہ اور رسول پاک مبارک کی خوشنودی کے حصول و اتباع سے دور کہیں بھٹک گئی ہے، جس کی وجہ سے آج مسلم دنیا ذلیل و خوار ہو رہی ہے۔ لیکن اسکا نقصان یہی پہ بس نہیں ہوتا بلکہ آپ دیکھ لیں ہم اغیار دین کے ہاتھوں بھی مر رہے ہیں اور اپنے بھائی کے ہاتھوں بھی۔ مگر جتنا آج کل اپنے ہی مسلمان بھائی کے ہاتھوں اللہ اور اسکے رسول پاک علیہ الصلوات والسلام کے نام پہ مرتے اور مارے جاتے ہیں شاید ہی غیر مسلم کے ہاتھوں اتنا ہوتے ہوں۔ اور عجیب نفسیاتی ملیریا دور حاضر میں امت کو یہ لاحق ہے کہ صحیح کس کو جانیں اور غلط کس کو؟ حق پرست کس کو کہا جائے اور باطل کس کو ٹھہرائیں؟ کیونکہ یہ تو مرنے والا بھی اللہ اور اسکے رسول کا نام لیوا ہے اور مارنے والا بھی نعرہ تکبیر کی صدا بلند کرتا ہے۔ یہ اک ایسا نفسیاتی المیہ بن گیا ہے کہ نہ چین سے مرنے دے رہا ہے اور نہ جینے۔ اس ساری کہانی اور معمے کے پیچھے اک ہی وجہ تصلیب بنا ہواہے، اور وہ ہے علم کا بے لگام استعمال۔ جی ہاں ابھرتے ہوئے کائنات میں جہاں ہر چیز نے اُڑان بھرنی شروع کی ہے وہاں ہمارے ہاں علم کا بے لگام استعمال معاشرے کے سکون کو تاخت و تاراج کررہا ہے۔
پچھلی کچھ دہائیوں میں جب سے عصری زندگی کے انصرام و انتظام میں تکنیکی اور معلوماتی ٹیکنالوجی و انفارمیشن کی دنیا میں داخل ہوچکی ہے جسکو سپیس ایرا بھی کہتے ہیں۔ جیسے سوشل میڈیا اسکی اک بڑی مثال ہے۔ تب سے فلسفہ دانی اور عقل دانی کا بے جا اور بے ڈھنگ اضافہ پیدا ہوکر بے لگام آگے بڑھنے لگا ہے اور یہ تاثر عام پھیلاتا و پھیلتا گیا۔ اسی دور دورے میں کچھ ایسے کردار بھی سامنے آگئے جنہوں نے دین کے دامن میں عقل و دانش کے نام سے رسمی پھول چن کر اپنی دھاک انسانی نفسیات پہ بٹھانے لگے۔ جیسے اوائل عصر میں بادشاہ اپنی جایئداد، غلام دولت انبار سے اپنے ماتحتوں پہ اپنی دھاک بٹھاتے ہوتے تھے پھر وقت جدید ٹیکنالوجی کی طاقت و پاور کے ضمیمے میں داخل ہوا۔ ٹھیک اسی طرح پچھلی کئی دہائیوں سے اب وہی پرانی بادشاہت کے مثل پہ دوبارہ اپنی دھاک بٹھانے کے لیےکچھ نام نہاد دینی مبلغین نے دین کے فقہی امور پہ چند دلیلیں اور سوالات کو یکجا کرکے انسانی نفسیات کو اپنے انداز بیان کی سحرمیں گرفتار کرنا شروع کیا ہے۔ اپنے شعلہ بیانی اور سحر انگیز لفاظی کتابت کی رو میں عوام الناس کو حق اور باطل میں الجھا کے رکھ دیا۔ ہر جگہ مستثنیات موجود رہتی ہیں اور کچھ ہمارے روایتی مولویوں کا قصور بھی ہے جنہوں نے دین کی اشاعت کا اصل روح چھوڑ کر قصوں اور کہانیوں کو تکیہ خطابت بنایا ہوا ہے۔ زندگی شرعی اصول پہ گزارنے کے لیے اور دینی فہم کو مضبوط کرنے کے لیے قصے کہانیاں کام نہیں آتیں۔ ایسے نام نہاد مبلغین کے متعلق یہ کوئی نئی بات بھی نہیں تاریخ کے اوراق میں اس باب کے حوالے سے بہت سارے ناموں میں دو تین بڑے ناموں کا تذکرہ سرفہرست آتا ہے۔ کہ کبھی شاہجہاں جیسے مکروہ لوگ دین الہی کے نام سے سامنے آئے تو کبھی غلام قادیانی کی طرح پلید کردار بھی رسالت کے دعوی سے ملعون ہوئے۔ اور ان فرعونوں کے مقابلے میں پھر موسوی علم کے سپہ سالار حضرت شیخ احمد سرہندی اور شاہ ولی محدث دہلوی جیسے معتبر شخصیات بھی ان کا ملیا میٹ کرنے کے لیے اللہ نے پیدا فرمائے۔ اب کے بار بھی دین کے نام پہ اسی ہی طرز کا استعمال اپنایا گیا ہے مگر اس بار کمال ہوشیاری سے عملی میدان میں اترآئے ہیں۔۔
دور حاضر میں جہاں کتاب ریڈنگ کی عادت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ تو وہاں اک طرف سوشل میڈیا کے مسیحا نے ابھرتی ہونی نئی نسل میں لکھنے کی صنف سے سانسیں گنتی ہوئی کتاب ریڈنگ میں پھر سے اک نئی زندگی کی روح پھونکی۔ مگر ہر چیز کے سیکھنے اور سکھانے کے کچھ کنٹرول کرنے والے آلات، یا مخصوص پوائنٹس یا پھر لگام ہوتے جو کہ حد سے باہر جانے پہ نقصان سے، بے راہ ہونے سے بچاتے ہیں۔ اسی طرح علم کے حصول کے لیے بھی لگام کا ہو نا ازبس ضروری ہے۔ مگر دور حاضر میں ہر طرح سے حصول علم والے اپنے علم کے صحیفے میں اتالیق و مربی کا لگام کوئی لگانا بھول گیا تو کسی نے لگایا ہوا لگام اتار کر پھینک دیا۔ اور اسکا اثر یہ ہوا کہ اپنے وقت کے اکابرین علم و فہم کے فقیہ، عجز اور تقوی کےپیکر اہل علم ہستیوں پہ بے لگام انگلیاں اٹھانے لگے۔ ایسی شخصیات جنہوں نے اپنی زندگی دین الہی اور اتباع محمد ﷺ کی خدمت میں بجز اسلیے وقف کرکے صرف کی کہ آنے والے عصروں میں امت مسلمہ کبھی تذبذب کا شکار ہوکر، یا دین کے فہم کو مشکل مان کر، عملی زندگی میں بددل ہو کر دین سے متنفر نہ ہوجائیں۔ لیکن عصر حاضر کے معلوماتی دور کے اہل علم، سوشل میڈیا کے سقراطوں و بقراطوں نے تفریقات کا واویلا برپا کیا ہوا ہے۔ اور تاسف کا دقیق نکتہ تو یہ کہ ہر کوئی اپنی بے لگامی کو درست، حق پرست ثابت کرنے پہ تلا ہوا ہے اور دوسرے اہل علم، فقہ، تصوف، طریقت و شریعت کے پیکر ہستیوں کو اور ان کے طریق کو غلط ثابت کرنے کے تیر ہوا میں مار رہے ہیں۔ اسی بے ادبی، گستاخی، کم علمی اور کج فہمی کی بنا پر ہم چاہے انفرادی زندگی ہو، عائلی زندگی ہو یا اجتماعی کسی بھی حال میں پرسکون و خوشحال ہیں اور نہ محفوظ۔
ان بے لگامیوں میں سب پہلا سوال، بنیادی اور زیادہ دوہرایا جانے والا سوال یہ ہوتا ہے کہ"جو قرآن و احادیث میں ہے اسکو مانو۔" یا ہر بات پہ رٹ یہ ہوتی ہے "قرآن و احادیث سے حوالے دے کے ثابت کرو۔" اور کچھ حضرات تو واضح الفاظ میں یہ تک کہتے ہیں کی تقلید شخص پرستی کفر ہے وغیر وغیرہ۔۔۔
اس تصور نے اس سوال نے ذہنی دنیا کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اور ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ کوئی دو تین موٹی موٹی دلیلیں پیش کریں تو ہمارا ذہن فکری نظر بندی کے جال میں جکڑ جاتا ہے اور یہی حال مرے ساتھ ذاتی طور پر بھی بڑا ہوتا رہا ہے۔ اس نظری بندی کے دائرے سے باہر ہمارا ذہن فکری تصور کی تخلیق و تحقیقی شعورکا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور کبھی کبھی تو یہ تناو اتنی شدت اختیار کر لیتا ہے کہ انسان کو اپنے ایمان پہ خزن محسوس ہونے کی وجہ سے اسکی نفسیاتی توازن میں بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے۔
درجہ بالا سوال کے جواب میں " کہ تقلید کفر ہے ہر چیز میں اتباع فقط قرآن و احادیث کے اثبات سے ہونی چاہیے۔"۔ اس سوال کے جواب میں " کہ تقلید کفر ہے ہر چیز میں اتباع فقط قرآن و احادیث کے اثبات سے ہونی چاہیے۔" کراچی کے مفتی طارق مسعود صاحب کا جمعہ خطبہ میں ممبر پہ بیٹھ کر اس سوال میں دیا گیا جواب پیش کرتا ہوں۔
☆ " اللہ تبارک وتعالی قرآن کریم میں زمین پہ فساد پھیلانے کو پسند نہیں فرماتا۔ سورہ بقرہ کے اوائل ہی میں اللہ نے فرمایا
"لَا تُفْسِدُوْفِى ْالْاَرْضِ" زمیں میں فساد نہ پھیلاو۔ یہ جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا آغاز ہوا تو شروع شروع میں بہت سارے مصحف صحابہ کے پاس موجود تھے۔ یعنی ہر صحابی کے پاس اپنا اپنا مصحف ہوتا تھا کیونکہ وہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھے ہوئے تھےتو اس وقت سب اپنے اپنے مصحف سے تلاوت فرماتے تھے۔ اک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس اک صحابی آئے اور فرمایا کہ آپ مجھے اپنا مصحف دکھائیں میں نے اپنے مصحف کے ساتھ چیک کروانا ہے، دیکھا تو اک سورت میں ترتیب آگے پیچھے تھی۔ تو صحابی نے فرمایا کہ یہ کیا ہوا، تب اماں عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اک سورت مرے مصحف میں آگے ہے اور آپکے مصحف میں پیچھے ہے۔ لیکن قرآن اس بات کی کئی بار گواہی دے چکا ہے کہ شیطان لعین انسان کا کھلا دشمن ہے۔ انسان ہدایت و رشد کے راستے پہ رہے اور شیطان لعین چین سے بیٹھے یہ ہو نہیں سکتا۔ اور بالآخر اس وسوسے کا احساس اصحاب کرام کو محسوس ہونے لگا اور اب لوگ مصحف کے تبدیلی کی وجہ سے لڑنے کے خیال سے آشنا ہونے لگے۔ تو آذر بائی جان سے اک صحابی حضرت خذیفہ رضی اللہ عنہ(غالبا یہ نام تھا) گورنر نے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ امیرالمئومنین امت مسلمہ کو اک ہی مصحف پر اکٹھا کریں ورنہ یہ شیطانی وسوسہ فساد کی شکل اختیار کرلے گا۔ تو عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سارے سلطنت سے مصحف اکٹھا کیے اور سب کو زائل کر دیا اور اک مصحف کی متفقہ ترتیب دے کر مسودہ تیار فرمایا جو آج کا موجودہ قرآن پاک ہے۔ اور اس مصحف کو مصحف عثمانی کا نام دیا گیا یا جانا جاتا ہے۔ تو اب ان حضرات سے سوال ہے جو ہر چیز پہ اور ہر بات پہ فقط قرآن و آحادیث سے ثابت کروائیں کا رٹ لگائے ہوئے ہیں اور اجماع فقہ و اجتہاد کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ تو پھر وہ یہ ثابت کروادیں کہ قرآن پاک میں یا احادیث میں یہ کہاں ذکر ہے کہ مصحف عثمانی بنانا جائز ہے یا بنائی جائے۔ ثابت کروا سکتے ہیں کوئی؟ ہر گز نہیں لیکن گر عثمانی غنی رضی اللہ عنہ نے سے یہ سوال پوچھا جاتا کہ اس مصحف عثمانی کو قرآن واحادیث سے ثابت کرو تو آپ رضی اللہ عنہ اسکے جواب میں یہی فرماتے کہ اللہ تبارک وتعالی زمین پہ فساد پسند نہیں فرماتا اسی طرح امت میں فساد و شر کو بھی پسند نہیں فرماتا۔
(جاری ہے)