Ramzan Kareem, Sarapa Rehmat (1)
رمضان کریم ، سراپا رحمت (1)
رمضان کریم دراصل جوش رحمت خداوند کا مہینہ ہے۔ رب کائنات کی رحمت سب سے زیادہ جوش میں اس مہینے میں آتی ہے اس سے زیادہ کسی اور مہینے میں اتنی نہیں آتی۔ لیکن رمضان کے اس بابرکت مہینے میں رحمت خداوند کے حصول کے لیے اس مہینے کا مکمل ادراک اور فہم ازبس ضروری ہے۔ رمضان المبارک کے اس بابرکت مہینے کے تقدس کے حوالے سے چند اک باتیں بابا عرفان الحق صاحب کے افکار سے اپنے الفاظ میں درج ذیل میں پیش کرتا ہوں۔
(۱) سب سے مقدم بات اس مہینے کی تقدس کے حوالے سے کہ رب کائنات نے اپنا کلام پاک مکمل صورت میں اسی مہینے میں نازل فرمایا تھا۔ جس سے روئے زمین پہ موجود سارے علوم کی تکمیل بھی فرمائی۔ اور اسکا دعوی پھر خود خالق کائنات نے قرآن پاک میں فرمایا کوئی خشک و تر چیز ایسی نہیں جس کا تذکرہ ہم نے میں نہ رکھ چھوڑا ہو۔ علم دراصل نور ہے اور قرآن کریم اسی علم کا سر چشمہ ہے۔ اس نور کا نزول خالق نے زمین پہ کر دیا اور خداوند کریم کی طرف سے سب سے بڑی رحمت و نعمت کا اتمام اسی بابر کت مہینے میں فرمادیا۔
(۲) اور دوسرا بڑا اعزاز و تکریم و رحمت، اپنے محبوب ترین پیغمبر خاتم الرسل سلطان المرسلین علیہ الصلوات والسلام کے نبوت محمدی کے اعلان کا وقت بھی اسی مہینے میں فرمائی۔ مکہ میں مکین محمد (ﷺ) کے نام سے جانے جانے والے کے بارے میں کسی کے وھم گمان میں بھی نہ تھا کہ دین توحید کے بارے میں وحی کا نزو ل اسی مہینے میں شروع ہوگا۔
(۳) رحمت کی اتنہا کی دلیل اسی سے واضح ہو جاتی ہے کہ خود اللہ کریم جل شانہ نے رمضان کے مہینے کو ۳ حصوں میں تقسیم کر دیا۔
عشرہ رحمت، عشرہ مغفرت، عشرہ نجات من النار۔ یہ جوش رحمت ہی تو ہے۔ خود رب کائنات اپنے محبوب ﷺ کی طرف اعلان فرما رہا ہے کہ اے مرے حبیب ترے صدقے اسی مہینے میں ہی رحمت بھی عطا کرونگا، مغفرت بھی دونگا اور آگ سے نجات بھی۔ اتنی بڑی پیکج سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے بس تھوڑی سی محنت کی ہی ضرورت تو ہے۔ تو ہمیں اسی مہینے میں زیادہ سے زیادہ رحمتوں کو سمیٹنا ہے۔
اب اسی مہینے میں رحمت خداوندکو زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کے لیے سب سے مقدم سوال یہ ہے کہ ا س بابرکت مہینے کا استقبال کیسے کی جائے۔ کیونکہ یہ دراصل اسی رحمتوں کاہی استقبال تو کرنا ہے۔ محبو ب پاک علیہ الصلواۃ والسلام کا طریقہ کار کیا تھا اس مہینے کے استقبال کے حوالے سے وہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ نبی مہربان ﷺ کس انداز سے رحمتوں سے بھرے اس مہینے کا استقبال فرماتے تھے؟ ذرا ابتداء کی طرف چلتے ہیں جب ابھی رمضان کے روزوں کے فرض ہونے کا حکم نہیں آیا تھا، ابھی تو نبوت ظاہری بھی عطا نہ ہوئی تھی، پھر بھی جب رمضان کا یہ مہینہ آن پہنچتا تو محبوب پاک علیہ الصلواۃ والسلام تھوڑے سے کھجور اور تھوڑا سا ستو لے کر غار حرا میں تشریف لے جاتے اور پورا مہینہ ادھر ہی گزارتے۔ اگر بیچ میں سے کچھ چیزیں کم پڑجاتی تو اماں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کچھ کھجوریں اور تھوڑا سا ستو اپنے غلام کے ہاتھوں بھجوا دیتیں۔ لیکن سوال سب سے پہلے ذہن میں یہ کھٹکتا ہے کہ تھوڑے سے کھجور اور تھوڑا سا ستو لے کر غار میں پورا مہینہ گزارنے کی منطق کیا تھی یا ہے؟
کمال کی بات تو یہ ہے کہ جس جگہ اللہ کے حبیب تشریف لے جاتے تھے ا س کے نام کو اعلیٰ معنی اور مفہوم سے نواز دیا۔ غار حرا کے ازخود معنی غور و فکر کرنے کی ہے۔ اور محبوب پاک ﷺ بھی رمضان کے اس مہینے میں فرضیت سے قبل بھی اسی غور و فکر میں مشغول رہنے کے لیے تشریف لیجایا کرتے تھے۔ یعنی کم کھانا، کم پینا، خاموشی، تنہائی اور غور و فکر کرنا یہی دراصل وہ گر ُ ہیں جس کے ذریعے اس مہینے میں جوش رحمت خداوند کریم سے فیض یاب ہوا جا سکتا ہے۔
لیکن اب عہد حاضر میں ہمارے معاشرے پہ نظر دوڑائیں سب کچھ اسکے برعکس ہو ریا ہے۔ ہمارے ہاں رمضان کے آتے ہی جیسے قیامت برپاہو جاتی ہے۔ سب سے اول دستر خوان پہ کھانوں اور چیزوں کے لیے جگہ کم پڑ جاتی ہے مگر بس ہونے کا نام نہیں لیتی اور دسترخوان کا خرچ بھی عام دنوں سے کہیں زیادہ تجاوز کر جاتا ہے۔ لیکن جیسے ہی وقت صدقہ فطر کا آتا ہے تب استطاعت کی دیوی آڑے آجاتی ہے۔ پھر کم کھانے کے بعد خاموشی کا ایسا روزہ توڑا جاتا ہے کہ ٹی وی شوز ہوں یا تاریک اندھیرے میں رات گئے تک کھیلوں کے میدان میں لوگوں کا ہجوم اتنا کہ تل دھرنے کہ جگہ بھی شائد بمشکل دستیاب آتی ہو۔ اور تنہائی و غور فکر کا یہ عالم ہوتا ہے کہ کم سے کم ظہر کے وقت تک نماز کی صفیں تک تنہائی کا شکار رہتی ہے اور غور و فکر تو بس نیند میں جاری و ساری رہتی ہے جو کہ مغرب کی آذان کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے اور کسی کی اس سے قدرے پہلے۔ اب ایسے عالم میں رحمت خداوندکا فیض کیسے اور کیونکر حاصل ہوگا؟ آسان الفاظ میں اگر رمضان سے پہلے والے شیڈول کم ازکم رمضان میں بھی نہیں بدلتے وہی کے وہی رہتے ہیں تو پھر یقنا رمضان کے برکات و فیوض سے بھی ہمیں کچھ نہیں ملے گا اسی کے اسی طر ح ہی رہیں گے اور اسی ہی میں گرفتا ر ہیں ہم۔ اللہ کے انتہائی رحمت سے ہم رمضان کے بابرکت مہینے میں بھی ہم محروم رہتے ہیں۔ تبھی تو علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں۔
جس طرح پانی کی بارش کا موسم "ساون" کہلاتا ہے اسی طرح رحمت خداوند کی بار ش کا موسم "رمضان" کہلاتا ہے۔ تا ساون کے مہینے میں بارش کے برسنے کے بعد بھی ہم خشک رہ جائیں پانی مل نہ پائے تو اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے تو اسی طرح اگر رمضان کے مہینے میں رحمتوں کے بارش میں بھی ہم اللہ کے رحمت سے محروم رہ جائیں تو یقنا اس سے بڑی ہلاکت اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ اور عہد حاضر میں امت مسلمہ اسی صورتحال سے گزر رہاہے۔
(۴) روزے کا وجود بذات خود عطا فرمایا تامگر روزہ رکھنا فقط اب بھی مشن نہیں ہے بلکہ روزہ کو سبب بنایا تقوی کا۔ تاکہ تم متقی بن جاو۔ تقرب الی اللہ جل شانہ حاصل کر پاو اور قرب الہٰی ہی در اصل کامیابی و کامرانی ہے۔
(۵)اور پھر روزے کے ساتھ اک اور رحمت عطا فرمائی۔ اس سے پچھلے قوموں یا امتوں کے لیے روزے میں سحری نہیں ہوتی تھی جبکہ ہمیں اس سحری کی نعمت بھی عطا کی۔ یعنی کہ مغرب کے بعد صبح سحری تک کھاؤ پیو اور پھر دن کے کچھ حصے میں پابندی عبادت کرکے تقویٰ کی ضمانت بھی دے دی۔ اور تقویٰ سے بڑھ کر نعمت کونسی ہو سکتی ہے۔ اور وقت افطار اور بذات خود افطاری کو بھی اسی سے ہی نتھی کر دیا جو کہ وہ بھی ازخود اک نعمت ہے۔ یعنی کمال حکمت دیکھیں کہ اک روزہ کی وجہ سے روحانی نشوو نما بھی کرا رہا ہے اور جسمانی توانائی کے صحت مند مواقع بھی عطا کر رہا ہے۔ یہ سب رحمت خداوند کی بارش نہیں تو اور کیا ہے؟ یاد رکھیں اگر روزہ کو اسکے اصل روح کے ساتھ، مکمل اسلوب و اصول کے ساتھ رکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ جسم میں موجود ہر بیماری کی شفا یابی نہ ہو خاتمہ نہ ہو۔